نئی دہلی؍ مکانا ت اور شہری امور کے وزیر مملکت(آزادانہ چارج) جناب ہردیپ سنگھ پوری نے کہا ہے کہ ریئل اسٹیٹ، ایکٹ ایک رہنما قانون ہے۔ اس سے طویل مدتی تبدیلی لانے والے اثرات مرتب ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ‘‘ہم نے ایک ماحولیاتی نظام بنایاہے تاکہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو بہتر طریقے سے منظم کیا جاسکے اور خریداروں کو با اختیار بنایا جاسکے۔ مجھے یہ بات کہنے میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ ہندوستان میں ریئل اسٹیٹ کی تاریخ دو حصوں میں رقم کی جائے گی۔ ایک آر ای آر اے سے قبل کی تاریخ ہوگی اور دوسری آر ای آر اے کے بعد کی تاریخ ہوگی۔ آر ای آر اے سے ماقبل کی تاریخ لوگوں کے خود کے گھر کے مالک بننے کے خوابوں اور آرزؤں پر مشتمل ہے،لیکن افسوس ان لوگوں کے خوابوں اور آرزؤں کو کافی مدت تک چند افراد نے پورا نہیں ہونے دیا۔ہم اس مرحلے سے ابھی تک مکمل طورسے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔’’جناب ہردیپ سنگھ پوری آج یہاں ‘‘پالیسی، اصلاحات اور ضوابط: ہندوستانی ریئل اسٹیٹ کے لئے ریڑھ کی ہڈی’’ کے موضوع پر منعقدہ آر آئی سی ایس ریئل اسٹیٹ کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جناب ہردیپ سنگھ پوری نے کہا کہ فائنانس کی قلت گھر کے مالک بننے کے مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے۔ پہلےہندوستان میں ہاؤسنگ سیکٹر میں بہت کم شفافیت تھی۔ وعدہ خلافی، نامکمل ہاؤسنگ پروجیکٹس پرمشتمل ہمارے ملک کے مجبور شہریوں کی وہ المناک کہانی ہے جس کو وہ کبھی بیان نہیں کرپاتے۔ بعض مواقع پر تو یہ دیکھنے کو بھی ملا ہے کہ لوگوں نے اپنی عمر بھر کی کمائی اور بچت سمیت اپنی فیملی کے زیورات کو بھی اپنا گھر حاصل کرنے کے لیے قربان کردیا۔ ہم اب بھی اس عمل کی تطہیر کرتے ہوئے اس کی آخری شکل کامشاہدہ کررہے ہیں۔ اس میں ان برے افراد کی کارستانی بھی شامل ہے، جس کے سبب متعدد ڈیولپرس کی شبیہ خراب ہوئی، جبکہ یہ ڈیولپرس اپنے معاملات میں ایماندار اور حق بجانب تھے۔
2011 میں کئے گئے ایک تکنیکی مطالعے،جس کے مطابق شہری علاقوں میں 18.76 ملین گھروں کی قلت تھی، ان میں سے 96 فیصد معاشی طورپر کمزور طبقوں(ای ڈبلیو ایس) اور کم آمدنی والے گروپ(ایل آئی جی) کے تھے،کا حوالہ دیتے ہوئے جناب ہردیپ سنگھ پوری نے کہا کہ بعد میں کئے گئے تجزیے سے اس اعدادوشمار میں تبدیلی آئی اور حتمی تجزیے میں گھروں کی یہ قلت دس ملین یونٹوں کے قریب یا اس سے زیادہ ہونے کاامکان ظاہر کیا گیا ۔اس مسئلے کو حکومت ہند کے ‘‘پی ایم اے وائی’’ (پردھان منتری آواس یوجنا) شہری، آزمائشی پروگرام کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ جناب پوری نے کہا کہ پی ایم اے وائی مشن کا مقصد اقتصادی اعتبار سے کمزور طبقوں (ای ڈبلیو ایس)، کم آمدنی والے گروپوں(ایل آئی جی) کے علاوہ متوسط آمدنی والے گروپ(ایم آئی جی) کے لئے گھروں کی دستیابی کو یقینی بنانا ہے۔اس مشن کو پورا کرنے کے لئے حکومت کی زمین حاصل کی جائے گی۔‘‘ہم نے نجی شراکت داری کے ذریعے ہاؤسنگ کو فروغ دینے کے لیے متعدد عوامی و نجی شراکت داری(پی پی پی)ماڈلوں کو جاری کیا ہے۔اس اسکیم کی اہم خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ حکومت زمین مہیا کرائے گی۔ علاوہ ازیں گھر پانے والے ہر ایک فرد کو سبسڈی مہیا کرائے گی اور بقیہ ضروری رقم کے لئے بینکوں سے آسان قرض حاصل کرنے میں انہیں تعاون فراہم کرے گی۔گھر انفرادی سطح پر خاتون خانہ کے نام یا مشترکہ طورپر فیملی کے مرد اور عورت کے نام پر ہوگا۔اس سے صنفی اعتبار سے خواتین کو بااختیار بنانے میں مدد فراہم کرے گی۔ اس گھر میں ایک باورچی خانہ ، ایک بیت الخلاء بھی ہوگا۔ مزید برآں بچی کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے اس گھر کے اندر پورا سامان فراہم ہوگا۔
ہاؤسنگ سیکٹر کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مکانات اور شہری ترقی کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج )جناب ہردیپ سنگھ پوری نے کہا کہ پردھان منتری آواس یوجنا ملک میں گھروں اور بنیادی ڈھانچے کی مانگ کو پورا کرنے میں کلیدی رول ادا کررہی ہے۔ یہ یوجنا زراعت کے بعد ملک میں دوسرا سب سے بڑا سیکٹر ہے، جو ملک میں تقریباً 6.86 فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کررہی ہے۔اگرچہ حالیہ برسوں میں ہاؤسنگ سیکٹر میں واضح ترقی دیکھنے کو ملی ہے، تاہم یہ سیکٹر وسیع پیمانے پر غیر منظم تھا۔ پیشہ وریت اور معیار کی کمی کے ساتھ ساتھ اس میں صارفین کے تحفظ کے لئے مناسب انتظامات نہیں تھے۔ ملک میں یہ سیکٹر بڑے پیمانے پر شفافیت سے عاری تھاا ورصارفین مکمل معلومات حاصل کرنے سےبھی قاصر تھے۔اسی طرح مؤثر قانون کی عدم موجودگی کے سبب بلڈروں اور ڈیولپروں کی جواب دہی بالکل نہیں تھی۔ ملک میں ہاؤسنگ سیکٹر کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ پروجیکٹ مکمل کرنے میں کافی تاخیر ہو رہی تھی۔ خریداروں سے رقومات کو حاصل کرکے اِدھر اُدھر منتقل کی جاتی تھی۔اسی طرح اس سیکٹر میں سرمایہ کاری اور مالی امداد حاصل کرنے میں بھی کافی رکاوٹیں تھیں، جن سے ڈیولپرس اور خریدار دونوں ہی متاثر ہو رہے تھے۔
آر ای آر اے کا حوالہ دیتے ہوئے جناب ہردیپ سنگھ پوری نے کہا کہ ریئل اسٹیٹ ایکٹ بذات خود ہندوستانی صارفین کی شدید ضروریات کے لئے نہایت کارآمدجواب ہے۔ علاوہ ازیں یہ عوامی مفادات کے لیے آزادانہ کام کاج کے لئے بھی نہایت کارگر ہے۔اس ایکٹ میں وفاقیت کی روح کو بر قرار رکھا گیا ہے، تاکہ ریاستوں کو تنفیذی اتھارٹی اور شکایتوں کے لئے ٹرائبونل کے قیام کی اجازت ہو اور مرکزی حکومت کا رول بغیر کسی مخصوص قانون کے مرکز کے زیرانتظام خطوں تک ہی محدود ہو۔ اس ایکٹ کا مقصد باہم اطلاعات کے تبادلے کے لئے ایک آن لائن نظام قائم کرکے صارفین کو تحفظ فراہم کرنا ہے، تاکہ ڈیولپرز اور خریداروں کے درمیان آپسی اعتماد اور بھروسہ ہو اور پروجیکٹوں کو وقت مقررہ پرپورا کیا جاسکے۔