نئی دہلی، وزیراعظم نریندر مودی نے ٹیکہ کاری کے تہوار ’ٹیکہ اتسو‘ کو کورونا کے خلاف دوسری بڑی جنگ کا آغاز قرار دیا ہے اور ذاتی ہائیجین کے ساتھ ساتھ سماجی ہائیجین پر خصوصی توجہ دیئے جانے پر زور دیا ہے۔ یہ اتسو آج مہاتما جیوتی با پھولے کے یوم پیدائش کے موقع پر شروع ہوا ہے اور 14 اپریل کو بابا صاحب امبیڈکر کے یوم پیدائش تک جاریرہےگا۔
اس موقع پر ایک پیغام میں وزیراعظم نے مہم سے متعلق چار نکات پر زور دیا ہے۔ پہلا، ایچ ون – ویکسینیٹ ون، یعنی جو اپنے آپ ویکسی نیشن کے لئے نہیں جاتے مثلاً ناخواندہ اور بزرگ ان کی مدد کی جائے۔
دوسرا، ایچ ون- ٹریٹ ون،اس کا مطلب ہے کہ کورونا کے علاج میں ایسے لوگوں کی مدد جائے جن کے پاس وسائل نہیں ہیں یا جن کے پاس اس سے متعلق معلومات نہیں ہے۔
تیسرے ، ایچ ون- سیو ون، یعنی مجھے خود تو ماسک پہننا ہی چاہیے اور اپنے آپ کو اور دوسروں کو بچانا چاہیے۔ اس پر زور دیا جانا چاہیے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آخر میں معاشرے اور عوام کو ’مائیکرو کنٹینمنٹ زون‘ تیار کرنے میں قیادت کرنی چاہیے۔ خاندان کے ارکان اور سماج کے لوگوں کو ایک پازیٹیو پازیٹیو معاملہ بھی سامنے آنے کی صورت میں ’مائیکرو کنٹینمنٹ زون‘ تیار کرنے چاہئیں۔ یہ ’مائیکرو کنٹینمنٹ زون‘ بھارت جیسے گھنی آبادی والے ملک میں کورونا کے خلاف جنگ کا ایک کلیدی حصہ ہیں۔
وزیراعظم نے جانچ اور بیداری پھیلانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہر ایک مستحق شخص کو ٹیکہ لگوانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے اور انتظامیہ دونوں کی یہ بنیادی کوشش ہونی چاہیے۔
وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ویکسین کے زیرو ویسٹیج کی جانب بڑھنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ٹیکہ کاری کی صلاحیت کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہماری صلاحیت میں اضافے کا ایک طریقہ ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری کامیابی کا تعین ’مائیکرو کنٹینمنٹ زون‘ کے بارے میں ہماری بیداری، ضرورت نہ ہونے پر گھروں سےباہر نہ نکلنے ، تمام مستحق افراد کی ٹیکہ کاری اور ہم کووڈ سے متعلق مناسب رویہ مثلاً ماسک پہننا اور دیگر پروٹوکول پر کس طرح عمل کرتے ہیں، اس سے ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’ٹیکہ اتسو‘ کے ان چار دنوں کے لئے ذاتی ، سماجی اور انتظامی سطح پر نشانے تیار کئے جائیں اور انہیں پورا کرنے کی سرگرمی کے ساتھ کوشش کی جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ عوام کی شراکت داری ، بیداری اور ذمہ دارانہ رویئے سے ہم ایک بار پھر کورونا پر قابو پانے میں کامیاب ہوں گے۔
انہوں نے اپنیبات اس یاد دہانی کے ساتھ ختم کی کہ – دوائی بھی، کڑائی بھی۔