مجھے آج یہاں پائیدار ترقی کی عالمی کانفرنس کے افتتاح پر بہت خوشی ہورہی ہے، جو لوگ بیرون ملک سے یہاں آئے ہیں، ان کا بھارت میں خیر مقدم ہے، ان کا دہلی میں خیر مقدم ہے۔
کانفرنس کے موقع پر مجھے امید ہے کہ آپ کو اس شہر کی تاریخ اور عزمت کو دیکھنے کے لئے کچھ وقت ملے گا۔ یہ کانفرنس خود ہمارے لئے اور مستقبل کی نسلوں کے لئے ایک پائیدار کرہ ارض کے لئے بھارت کے عہد کا اعادہ ہے۔
ایک قوم کے طور پر ہمیں اپنی طویل تاریخ اور ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ انسان اور فطرت کے درمیان بقائے باہم کی روایت پر فخر ہے۔ فطرت کے لئے احترام ہماری اقدار کے نظام کا ایک اٹوٹ پہلو ہے۔
ہمارے روایتی طور طریقے ایک پائیدار طرز زندگی میں تعاون کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد ہمارے اپنے قدیم نسخوں کے مطابق زندگی گزارنا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کچھ صاف ستھرا رکھیں کیونکہ زمین ہماری ماں ہے اور ہم اس کے بچے ہیں۔ یہ بات ہمارے سب سے پرانے گرنتھ اتھُروید میں کہی گئی ہے۔
یہی وہ آئیڈیل ہے جس پر ہماری سرگرمیاں منحصر ہیں۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام وسائل اور تمام دولت قدرت کی دین ہے جو بھگوان کی ملکیت ہے۔ ہم صرف اس دولت کے متولی یا منیجر ہیں۔ مہاتما گاندھی نے بھی تولیت کے اس فلسفے کی حمایت کی ہے۔
حال ہی میں 2014 کی نیشنل جغرافیائی گرین ڈیکس رپورٹ میں، جو صارفین کی پسند کی ماحولیاتی پائیداری کا تجزیہ کرتی ہے، ہندوستان کو صارفین کے پیٹرن میں پہلا مقام دیا ہے گزرتے ہوئے برسوں کے ساتھ پائیدار کی ترقی کی عالمی کانفرنس نے دنیا کے تمام حصوں میں ماتربھومی کے تقدس کو برقرار رکھنے کی ہماری سرگرمیوں کے بارے میں بیداری پھیلائی ہے۔
2015 میں پیرس میں منعقدہ سی او پی-21 کانفرنس میں یہ یکساں خواہش تمام ملکوں نے ظاہر کی تھی اور تمام ملکوں نے ہمارے کرہ ارض کو پائیدار بنانے کے مشترکہ مقصد کے لئے مل کر کام کرنے کا عہد کیا تھا۔ جس طرح پوری دنیا تبدیلی کے لئے عہد بستہ ہے اسی طرح ہم بھی عہد بستہ ہیں۔ ایسے میں کہ جب دنیا تکلیف دہ سچائی پر تبادلہ خیال کررہی تھی ہم نے پرسہولت کارروائی کو انجام دیا۔ بھارت ترقی میں یقین رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ماحولیات کا تحفظ کرنے کے لئے بھی عہد بستہ ہے۔
دوستو!
یہی وہ خیال ہے جس کی وجہ سے بھارت نے فرانس کے ساتھ بین الاقوامی شمسی اتحاد کا آغاز کیا۔ اس میں 121 ارکان پہلے ہی بن چکے ہیں۔ پیرس کے بعد شاید یہ دنیا کی پہلی بڑی اور اہم کامیابی ہے۔ قومی سطح پر عہد بستگی کے ساتھ تعاون کے ایک حصے کے طور پر بھارت 2005 سے 2030 کے دوران جی ڈی پی کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ گیسوں کے اخراج کو 33 سے 35 فیصد کم کرنے کے لئے عہد بستہ ہے۔
2030 تک 2.5 سے 3 ارب ٹن کاربن ڈائی ایکسائڈ میں کمی کرنے کے ہمارے نشانے کو پہلے عام طور پر بہت مشکل سمجھا جاتا تھا، لیکن ہم نے اس راہ پر اپنی تیز پیش رفت جاری رکھی ۔ یو این ای پی گیپ رپورٹ کے مطابق بھارت 2020 تک کاربن کے اخراج میں 2005 کے مقابلے 20 سے 25 فیصد تک کی کمی کرنے کے اپنے کوپن ہیگن عہد کو پورا کرنے کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔
ہم 2030 کے لئے قومی سطح پر عہد کردہ تعاون کو پورا کرنے کی راہ پر بھی گامزن ہیں۔ پائیدار ترقی کے اقوام متحدہ کے اہداف نے ہمیں برابری یکسانیت اور آب وہوا میں انصاف کی راہ پر آگے بڑھایا ہے۔ ہم اس کے لئے ضروری تمام اقدامات کررہے ہیں وہیں ہم دوسروں سے بھی یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ایک یکساں لیکن ہر ایک پر الگ الگ ذمہ داری کو پوری ایمانداری اور برابری کے ساتھ پورا کرنے میں ہمارے ساتھ شریک ہوں گے۔
ہمیں تمام غیر محفوظ آبادیوں کے لئے آب و ہوا میں انصاف پر بھی زور دینا چاہئے۔ ہم بھارت میں اچھی حکمرانی ، پائیدار روزی اور صاف ستھرے ماحول کے ذریعے زندگی آسانی سے گزارنے پر توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ صاف ستھرے بھارت کی مہم دہلی کی سڑکوں سے ملک کے کونے کونے تک پھیل چکی ہے۔ صفائی ستھرائی سے بہتر ماحول، بہتر صحت ، کام کرنے کی بہتر صورت حال کے ساتھ ساتھ بہتر آمدنی اور زندگی حاصل ہوتی ہے۔
ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ایک وسیع مہم شروع کی ہے کہ ہمارے کسان زرعی کچرے کو جلانے کی بجائے اس سے قیمتی کھاد بناسکیں۔
ہمیں ماحولیات کا عالمی دن 2018 کی میزبانی کرنے اور اپنے عہد کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو ایک صاف ستھرا مقام بنانے کے لئے ساجھیداری کو جاری رکھنے پر بہت خوشی ہے۔
ہم نے پانی کی دستیابی کے معاملے کو حل کرنے کی ضرورت کو بھی تسلیم کیا ہے جو ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ایک وسیع نمامی گنگے پہل کا آغاز کیا ہے۔ اس پروگرام کے نتائج پہلے ہی برآمد ہونے لگے ہیں اور جلد ہی ہم گنگا کو بحال کرلیں گے جو سب سے مقدس دریا ہے۔
ہمارا ملک بنیادی طور پر زراعت پر مبنی ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زراعت کے لئے پانی کی مسلسل دستیابی بہت اہم ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ کوئی بھی کھیت پانی سے محروم نہ رہے، پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا شروع کی گئی ہے۔ ہمارا مقصد ہے کہ ’’فی بوند زیادہ فصل‘‘ ۔
حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے معاملے پر بھارت کا رپورٹ کا بہت اچھا ہے۔ دنیا میں زمینی رقبے کا صرف 2.4 فیصد رقبے کے ساتھ بھارت میں 7 سے 8 فیصد تک درج شدہ مختلف اقسامات پائی جاتی ہیں جبکہ انسانی آبادی کی 20 فیصد آبادی ہندوستان میں آباد ہے۔
یونیسکو کے انسان اور بائیو اسفیئر پروگرام کے تحت 18 بائیو اسفیئر میں سے 10 بائیو اسفیئر کے ساتھ بھارت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری ترقی ماحول دوست اور جنگلاتی حیات مستحکم ہے۔
دوستو!
بھارت نے ہمیشہ اس بات پر یقین رکھا ہے کہ اچھی حکمرانی فوائد ہر ایک تک پہنچنے چاہئے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا ہمارا مشن اسی فلسفے کی توسیع ہے۔ اس فلسفے کے ذریعے ہم اس بات کو یقینی بنارہے ہیں کہ ہمارے کچھ سب سے زیادہ محروم علاقے دوسروں کے ساتھ سماجی اور اقتصادی ترقی میں برابر آسکیں۔
آج کے دور میں بجلی اور کھانا پکانے کے صاف ستھرے طریقے ایسی بنیادی چیزیں ہیں جنہیں ہر شخص کو فراہم کیا جانا چاہئے اور یہی چیز کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کا اہم پہلو ہوتا ہے۔
البتہ اب بھی بھارت میں اور بھارت کے باہر بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ان وسائل کی عدم موجودگی سے جوجھ رہے ہیں۔ لوگ کھانا پکانے کے غیر صحت مند طریقوں کو اپنانے پر مجبور ہیں جس سے گھروں میں اور ہوا میں آلودگی پھیلتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ دیہی باورچی خانے میں اس طرح کے طریقوں کو استعمال کرنے سے صحت کے لئے بہت خطرہ ہوتا ہے۔ لیکن اب بھی کچھ لوگ اس کی باتیں کرتے ہیں۔ اسے نظر میں رکھتے ہوئے ہم نے دور رس نتائج کی حامل اجوولا اور سوبھاگیہ اسکیمیں شروع کیں۔ اسکیمیں شروع ہونے کے بعد سے اب تک ان کی وجہ لاکھوں لوگوں کی زندگی پر پہلے اثر پڑ چکا ہے۔
اسی طرح سوبھاگیہ اسکیم کے ذریعے ہم ملک میں ہرگھر میں بجلی لگانے کا کام کررہے ہیں جو اس سال تک تقریبا پورا ہو جائے گا۔ ہم نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ ایک صحت مند قوم کی ترقی کے عمل کو آگے بڑھاسکتی ہے ۔ اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہم نے دنیا کی سب سے بڑے سرکاری فنڈ والی صحت اسکیم شروع کی ہے۔ یہ پروگرام لاکھوں کروڑوں غریب خاندانوں کی مدد کرے گا۔
سب کے لئے مکان اور سب کے لئے بجلی کے ہمارے اقدامات ہمارے ایک ہی ایجنڈے کا حصہ ہیں جس کا مقصد ان لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے جو اسے حاصل کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
دوستو!
آپ جانتے ہیں کہ بھارت عالمی برادری کا چھٹا حصہ ہے ۔ ہمارے ترقیاتی ضرورتیں بہت زیادہ ہیں۔ ہماری غربت یا خوشحالی کا براہ راست عالمی غربت یا خوشحالی پر اثر ہوگا۔ بھارت میں عوام نے جدید سہولیات اور ترقیاتی وسائل کے لئے طویل عرصے تک انتظار کیا ہے۔
ہم اس کام کو توقع سے زیادہ جلد پورا کرنے کے لئے عہد بستہ ہیں۔ البتہ ہم نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم یہ تمام کام صاف ستھرے اور ماحول دوست طریقے سے کریں گے۔ آپ کے لئے چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ ہم ایک نوجوان ملک ہیں، اپنے نوجوانوں کو روزگار دینے کے لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ بھارت کو مینوفیکچرنگ کا ایک عالمی مرکز بنایا جائے۔ ہم نے اس کے لئے میک ان انڈیا مہم شروع کی ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ہی ہم مینوفیکچرنگ سے ماحولیات پر منفی اثر نہ ہونے کے لئے زور دیتے ہیں۔
دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت کے طور پر ہماری توانائی کی ضروریات بھی بہت زیادہ ہیں۔ البتہ ہم نے 2022 تک 175 گیگاواٹ توانائی قابل تجدید وسائل سے حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس میں 100 گیگاواٹ شمسی توانائی سے جبکہ 75 گیگا واٹ بادی توانائی اور دیگر وسائل سے حاصل کرنے کا منصوبہ ہے۔ ہم نے اب تک شمسی توانائی میں 14 گیگاواٹ کا اضافہ کیا ہے جو تین سال پہلے صرف3 گیگاواٹ تھی۔ اس کے ساتھ ہی ہم دنیا میں شمسی توانائی پیدا کرنے والے پانچویں سب سے بڑے ملک ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت قابل تجدید توانائی پیدا کرنے والا دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔
شہر کاری میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے ہماری ٹرانسپورٹ کی ضروریات بھی بڑھ رہی ہیں لیکن ہم وسیع ٹرانسپورٹیشن نظام، خاص طور پر میٹرو ریل نظام پر توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے طویل فاصلوں پر سامان کی نقل وحمل کے لئے ہم نے قومی آبی راستوں کے نظام پر کام کرنا شروع کردیا ہے۔ ہماری تمام ریاستیں آب وہوا میں تبدیلی کے خلاف ایکشن پلان تیار کررہی ہیں۔
اس سے اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ اپنے ماحولیات کے تحفظ کے لئے کام کرتے ہوئے ہمیں اپنے سب سے زیادہ غیر محفوظ علاقوں کے تحفظ کے لئے بھی کام کرنا ہے۔ ہماری سب سے بڑی ریاستوں میں سے ایک مہاراشٹر نے پہلے ہی اس سلسلے میں اپنا ایک منصوبہ تیار کیا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم پائیدار ترقی کے تمام مقاصد خود اپنے طور پر حاصل کریں لیکن اشتراک پھر بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ حکومتوں کے درمیان اشتراک ، صنعتوں کے درمیان اور عوام کے درمیان اشتراک اہم ہے۔ ترقی یافتہ دنیا ہمیں تیزی کے ساتھ انہیں حاصل کرنے میں مدد کرسکتی ہے۔
آب و ہوا سے متعلق کامیاب کارروائیوں کے لئے مالی وسائل اور ٹیکنالوجی تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی بھارت جیسے ملکوں کو پائیدار طور پر ترقی کرنے اور اس سے غریبوں کو فائدہ پہنچانے میں مدد کرسکتی ہے ۔
دوستو!
ہم آج یہاں ان عقائد پر کام کرنے کے لئے اکٹھا ہوئے ہیں جن سے انسان اس کرہ ارض پر ایک تبدیلی پیدا کرسکتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کرہ، ہماری ماتر بھومی ایک ہی ہے۔ اس لئے ہمیں نسل ، مذہب اور اقتدار کے اختلافات سے اوپر اٹھنا ہو گا اور اتحاد کے ساتھ اپنی ماتر بھومی کو بچانے کے لئے کام کرنا ہوگا۔
فطرت کے ساتھ بقائے باہم اور ایک دوسرے کے ساتھ بقا ئے باہم کے ہمارے قدیم فلسفے کے ساتھ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آیئے اور اس کرہ ارض کو زیادہ محفوظ اور پائیدار مقام بنانے کے اس سفر میں ہمارے ساتھ شریک ہوں۔
میں پرار تھنا کرتا ہوں کہ پائیدار ترقی کی عالمی کانفرنس پوری طرح کامیاب رہے۔