نئی دہلی، پندرہویں مالیاتی کمیشن (ایکس وی ایف سی) نے 23-24 اپریل 2020 کو اپنی ایڈوائزری کونسل کے ساتھ آن لائن میٹنگیں کیں جس میں اب اس کمیشن کو درپیش مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ جناب این کے سنگھ کی سربراہی میں منعقدہ میٹنگ میں چیئرمین ایکس وی ایف سی ، کمیشن کے تمام ممبران اور اعلی عہدیداران شریک ہوئے۔ ایڈوائزری کونسل سے ڈاکٹر ساجد زیڈ چنوئے ، ڈاکٹر پراچی مشرا، جناب نیل کنت مشرا اور ڈاکٹر اومکار گوسوامی 23 اپریل ، 2020 کو میٹنگ میں شامل ہوئے اور ڈاکٹر اروند ورمانی ، ڈاکٹر اندرا راجارامن ، ڈاکٹر ڈی کے سریواستو ، ڈاکٹر ایم گووندا راؤ ، ڈاکٹر سدپتو منڈلے اور ڈاکٹر کرشن مورتی سبرامنیم 24 اپریل 2020 کو میٹنگ میں شامل ہوئے۔ سال 2020-21 کے لئے ایکس وی ایف سی کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد مشاورتی کونسل کا یہ دوسرا مرحلہ تھا۔
ایڈوائزری کونسل کے ممبروں کا یہ ماننا ہے کہ ہندوستانی معیشت پر کووڈ وبائی بیماری اور ملک گیر لاک ڈاؤن کا اثر گھریلو سرگرمیوں یا کاموں میں سست روی، مالیاتی اداروں اور کاروباری صنعتوں کے نقدی بہاو پر اس کے اثراور عالمی مندی کے سبب ہندوستانی مصنوعات کی عالمی مانگ گھٹنے کے طور پر ہو سکتا ہے۔ وہ سبھی اس بات پر متفق تھے کہ مارچ 2020 سے پہلے کئے جانے والے حقیقی جی ڈی پی شرح نمو کے تخمینوں پر نئے سرے سے غور کرنے اور اس میں کافی کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ معیشت کا لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد معاشی ترقی کے دھیرے دھیرے ہی پٹری پر آنے کا امکان ہے جو ورک فورس کے جلد ہی کام پر واپس آنے کی صلاحیت، متوسط مصنوعات اور نقدی بہاو کی کی سپلائی کی بحالی ہونے اور بیشک تیار مصنوعات کی مانگ پر منحصر کرے گا۔ لہذا کوویڈ کے معاشی اثرات کا پورا منظر کچھ وقت کے بعد ہی واضح ہو پائے گا۔
مشاورتی کونسل کا یہ بھی ماننا ہے کہ ان پیش رفتوں کاعوامی مالیات پر اثر کس حد تک پڑے گا یہ غیر یقینی ہے ، لیکن یہ واقعی اہم ہوگا۔ صحت سے متعلق ضرورتوں ، غریبوں اور دیگر معاشی ایجنٹوں کی مدد کے سبب حکومت پر خاطر خواہ اخراجات کا بوجھ پڑے گا۔ کونسل کے ممبروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ ٹیکس اور دیگر محصولات میں معاشی سرگرمیوں میں سستی کی وجہ سے بڑی کمی ہو گی۔ لہذا ، اس بحران سے نمٹنے کا طریقہ کافی باریکی کے ساتھ کیا جانا چاہئے۔ نہ صرف مالی پیکج کے حجم کو دیکھنا اہم ہے بلکہ اس کے ڈیزائن کو بھی دھیان میں رکھنا ہو گا۔ کونسل نے معیشت کو عوامی اخراجات کے طور پر مدد کے سلسلے میں مختلف تجاویز سے مالیاتی کمیشن کو آگاہ کیا۔ ان کا ماننا ہے کہ دیگر باتوں کے علاوہ درج ذیل باتوں پر غور وفکر کرنا زیادہ اہم ہو گا۔
کوویڈ کے آغاز سے پہلے ہی چھوٹے پیمانے کی کاروباری صنعتیں نقدی کی کمی سے جوجھ رہی تھیں۔ چونکہ ان کی سرگرمی کی سطح اور کیش فلو متاثر ہوتا ہے ، لہذا یہ ضروری ہے کہ اس مسئلے پر قابو پانے میں ان کی مدد کے لئے ایک معاون طریقہ کار وضع کیا جائے۔
غیر بینکاری مالیاتی کمپنیاں بھی اس سست روی سے متاثر ہیں۔ مالیاتی شعبے میں دیوالیہ پن اور این پی اے کو گہرا کرنے سے بچنے کے لئے اقدامات مناسب طریقے سے کئے جانے چاہئیں۔ جزوی قرض کی ضمانت جیسے اقدامات سے مدد مل سکتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے میں ریزرو بینک آف انڈیا کا کلیدی کردار ہوگا۔
کونسل کا یہ بھی ماننا ہے کہ مختلف ریاستوں کو وبا کے اثر سے نجات حاصل کرنے میں الگ الگ وقت لگے گا۔ اس لئے مختلف ریاستوں میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی الگ الگ رفتار سے ہو گی۔
پندرہویں مالیاتی کمیشن اپنی ایڈوائزری کونسل کے ساتھ مل کر عالمی سطح کے ساتھ ساتھ گھریلو سطح پر بھی ابھرتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔