نئی دہلی، ۔وزیراعظم جناب نریندر مودی نے تامل روزنامہ تھنتھی کی پلاٹینم جوبلی تقریب میں جو تقریر کی تھی اس کے چیدہ چیدہ اقتباسات حسب ذیل ہیں:
سب سے پہلے میں چنئی اورتامل ناڈو کے دیگر مقامات میں زبردست بارش اور سیلاب کے مہلوکین کے اہل خانہ اور اس خوفناک صورتحال کا سامنا کرنے والے کنبوں سے اظہار تعزیت وہمدردی کرتا ہوں ۔ میں نے ریاستی سرکار کو ہر ممکن امدادوحمایت کی یقین دہانی کرائی ہے اس کے ساتھ ہی میں سینئر صحافی جناب تھیرو آر موہن کی موت پر اظہار تعزیت کرتا ہوں ۔
دینا تھنتھی نے اپنی اشاعت کے 70 برس مکمل کرلئے ہیں ۔ اس اشاعتی کامیابی کے لئے جناب تھیرو ایس پی آدتیہ نار ،تھیرو ایس ٹی ،آدتیہ نار اورجناب تھیرو بالاسبرامنیم جی کی خدمات لائق ستائش ہیں ۔ پچھلی ساڑھے سات دہائیوں کے دوران ان حضرات کی کوششوں نے تھنتھی کو تامل ناذو ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ایک بڑا میڈیا برانڈد بنادیا ہے ۔ میں اس کامیابی کے لئے تھنتھی گروپ کے انتظامیہ اور عملے کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
آ ج کروڑوں ہندوستانیوں کو چوبیسوں گھنٹے چلنے والے نیوز چینلوں کی خدمات دستیاب ہیں لیکن آج بھی بیشتر لوگوں کے دن کا آغاز ایک ہاتھ میں چائے یا کافی کا کپ اوردوسرے ہاتھ میں اخبارسے ہوتا ہے ۔مجھے بتایا گیا ہے کہ تھنتھی تامل ناڈو کے ساتھ ساتھ بنگلورو ، ممبئی اور دوبئی میں بھی اپنی سات اشاعتوں کے ذریعہ یہ خدمات فراہم کرارہا ہے ۔ محض 75 برسوں کے دوران یہ غیر معمولی کامیابی دراصل جناب تھیرو اس پی آدتیہ ناتھ کی انتہائی دوراندیش رہنمائی کا نتیجہ ہے ، جنہوں نے 1942 میں اس کی اشاعت کا آغاز کیا تھا۔
مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تھنتھی کا مطلب ہوتا ہے :تا ر کے ذریعہ بھیجا جانے والا پیغام یعنی دینا تھنتھی کا مفہوم ہے : ’’روزانہ تار ‘‘ کے ذریعہ بھیجا جانے والا پیغام ۔ گزشتہ 25 برسوں کےد وران محکمہ ڈا ک وتار کے ذریعہ فراہم کرائی جانے والی تار کے ذریعہ بھیجے جانے والے پیغامات کی خدمات ، اب انتہائی فرسودہ ہوکر اپنے وجود سے محروم ہوچکی ہے ۔ لیکن یہ تار اپنی ترقی کاسفر جاری رکھے ہوئے ہے ۔
مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ تھنتھی گروپ نے تامل ادب کے فروغ کے لئے اپنے بانی جناب تھیرو آدتیہ ناتھ کے نام پر اعزازات قائم کئے ہیں ۔ میں ان اعزازات سے نوازے جانے والے حضرات کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔جناب تھیرو تامی لن بم ،ڈاکٹر ارائی امبو اور جناب تھیرو وی جی سنتوشم ان معروف شخصیات میں شامل ہیں جنہیں ان اعزازات سے سرفراز کیا گیا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ان حضرات کی خدمات کا یہ اعتراف ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے گا ، جنہوں نے ایک باعزت پیشے کے طور پرقلمکاری کو اپنا یا ہے ۔
نوآبادیاتی آمریت کے دورمیں آنجہانی راجہ رام موہن رائے کے اخبار سمواد کومودی لوک نائک تلک کے اخبار کیسری اور مہاتما گاندھی کے اخبار روزنامہ نوجیون نے جدوجہد آزادی کے لئے حوصلہ افزائی کے منارہ نور کا کام کیا تھا۔ان اخبارات نے اپنی اشاعتوں کے ذریعہ عوام الناس میں بیداری پیدا کرنے میں زبردست خدمات انجام دی تھیں ۔ شاید یہ بات اس لئے تھی کہ ان اخبارات کے بانی حضرات کے اعلیٰ نظریات کا نتیجہ تھا کہ یہ اشاعتیں ظہور میں آسکیں اور اس کے بعد برطانوی دور اقتدار میں شروع ہونے والے متعدد اخباروں نے نہ صرف یہ کہ اس جدوجہد کو جاری رکھا بلکہ اپنی دیرینہ اشاعتی روایات پر آج بھی قائم ہیں ۔
دوستو!
ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ ہماری آنے والی نسلوں نے ملک وقوم کی خاطر خواہ خدمات انجام دی ہیں جن کے نتیجے میں ہمیں آزادی کی نعمت حاصل ہوسکی ہے ۔ آزادی کے بعد ہی انسانی حقوق کی اہمیت جاری رہ سکی ہے ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے فرض کی ادائیگی کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کو فراموش کردیا ہے ۔ جس کے نتیجے میں آج ہمارے سماج کو متعدد بیماریاوں لاحق ہوگئی ہیں ۔
خواتین وحضرات!
ہماری تحریک آزادی کی چہرہ کاری کرنے والے بیشتر اخبارات مقامی زبانوں میں شائع ہوتے تھے ۔ دراصل ا س زمانے میں برطانوی سرکار کی ہندوستان کی مقامی زبانوں میں شائع ہونے والے اخبارات سے خوفزدہ رہتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ 1878 میں ورنا کیولر پریس ایکٹ کا نفاذ کیا گیا تھا ۔
ہمارے ہمہ جہت ملک میں مقامی زبانوںمیں شائع ہونے والے اخبارات کی اہمیت آج بھی اسی طرح برقرار ہے جتنی کہ اس زمانے میں تھی ۔ یہ اخبارات اس زبان میں اپنا مواد پیش کرتے ہیں ، جو عام قاری کے لئے بآسانی قابل فہم ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ اخبارات سماج کے پسماندہ زمروں کی ترقی اور خوشحالی کی کوششیں بھی کرتے ہیں ۔
اس حوالے سے یہ بات یقینی طورسے لائق ستائش ہے کہ آج ہمارے فعال اخبارات میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے وہ اخبارات شامل ہیں جو مقامی زبانوںمیں شائع ہوتے ہیں۔ دینا تھنتھی یقیناََ انہی اخباروں میں شامل ایک اہم اخبار ہے ۔ میں نے اکثر لوگوں کو اس بات پر حیرت کرتے سنا ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والے واقعات کی خبریں کس طرح ان اخبارات میں شامل اشاعت ہوتی ہیں ۔
آج گو کہ میڈیا افرادکی ذاتی ملکیت ہے ، لیکن ا س کے باوجود اس سے عوامی مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے ۔ دانشورحضرا ت کے قول کے مطابق بجائے اس کے کہ اصلاحات کو بطور طاقت نافذ کیا جائے بلکہ میڈیا امن کے ذریعہ اصلاحات کا ایک اہم وسیلہ ہے ۔ اس کی ذمہ داری سرکار اور عدلیہ سے کم نہیں ہوتی اس لئے اس کی کارکردگی بھی ان کے مساوی ہونی چاہئے ۔ اس سلسلے میں عظیم سنت تھروولوور کے یہ الفاظ میڈیا پر چسپاں ہوتے ہیں ، ’’ دنیا میں ان قدروں کے علاوہ کسی چیز کا وجود نہیں ہے جو شہرت اوردولت کو یکجا کرتی ہیں ۔
دوستو!
ٹکنالوجی نے میڈیا میں عظیم تبدیلیاں پید ا کی ہیں ۔ ایک زمانہ تھا جب سرخیاں گاؤں کے بلیک بورڈ پر لکھی جاتی تھیں ۔ ان سرخیوں کو زبردست معتبریت حاصل ہوتی تھی لیکن آج کا میڈیا گاؤں کے بلیک بورڈ سے لے کر اپنے آن لائن بلیٹن بورڈ پرمحیط ہے ۔
معتبریت پر مسلسل زور دئے جانے کے نتیجے میں ہمارے اندر اپنا محاسبہ کرنے کا رجحان پیدا ہوا ہے ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میڈیا میں پیدا ہونے والی اصلاحات ہر وقت ضرورت خود محاسبے کے ذریعہ خود میڈیا سے ہی حاصل ہوں گی ۔ ہم نے 26/11 کے ممبئی دہشت گردانہ حملے کی نامہ نگاری کے تجزیہ میں یہ صورتحال خود دیکھی ہے اور شاید نامہ نگاری کے یہ تجزئے ہوتے ہی رہتے ہیں ۔
دوستو!
میں اس موقع پر ہمارے سوچھ بھارت مشن پر میڈیا کے رد عمل کی ستائش کرتا ہوں ، جہاں ہم بابائے قوم آنجہانی مہاتما گاندھی کے 150 ویں یوم پیدائش کے موقع پر 2019 میں سوچھ بھارت مشن کی کامیابی کی کوششیں کررہے ہیں وہیں میں صفائی ستھرائی کے تئیں بیداری پیدا کرنے میں میڈیا کے تعمیری رول سے متاثر ہوا ہوں ۔ میڈیا نے ان کاموں کی بھی نشاندہی کرائی ہے ، جو ابھی کئے جانے باقی ہیں اور جو ہمارے مقاصد کی تکمیل کے دعوے سے قبل کئے جانے لازمی ہیں ۔
خواتین وحضرات !
ایک اور ایسا کلیدی شعبہ موجود ہے جس میں میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔ یہ شعبہ ہے :’’ ایک بھارت –شریشٹھ بھارت‘‘ میں آپ کو ایک مثال سے یہ بات سمجھاتا ہوں ۔ کیا کوئی اخبار پورے سال اپنے کالم کا کچھ حصہ اس مقصد کے لئے وقف کرسکتا ہے ۔ یہ اخبار روزانہ اپنی اشاعتی زبان میں اس سلسلے کا ایک جملہ شائع کرسکتے ہیں اوراس کا ترجمہ رسم الخط کی تبدیلی کے ساتھ ہندوستان کی تمام بڑی زبانوں میں شائع کیا جاسکتا ہے ۔
سال کے آخر میں اخبارات کے قارئیں 365 ایسے سادہ جملوں سے واقف ہوسکتے ہیں ، جو ملک کی تمام بڑی زبانوں میں شائع کئے جاسکتے ہیں ۔ذرا تصور کیجئے کہ اس سادہ سے قدم کے کیا کیا اثرات ہوسکتے ہیں۔ مزید برآں اسکولوں کے کلاس روموں میں کچھ منٹ کے لئے اس موضوع پر گفتگو کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے ۔ بچے بھی ہمارے استحکام ،طاقت اور مالامال ہمہ جہتی سے واقف ہوسکیں ۔
خواتین وحضرات !
75 برس کا عرصہ انسانی زندگی میں ایک خاطر خواہ مدت سمجھا جاسکتا ہے ۔ لیکن کسی قوم یا ادارے کے لئے یہ مدت محض ایک سنگ میل سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی ۔ اب سےتقریباٍََ تین ماہ ہم نے ہندوستان چھوڑو تحریک کی 75 ویں سالگرہ منائی تھی ۔اس طرح دینا تھنتھی کے سفر اشاعت میں ایک نوعمر ملک کی حیثیت سے ہندوستان کے عروج کا عکس دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس روز پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران میں نے 2022 تک ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کا نعرہ دیا تھا ۔بدعنوانی ،ذات پات ،فرقہ پرستی ،غریبی ، ناخواندگی اور بیماریوں سے پاک ہندوستان کا نعرہ ۔ اور اگلے پانچ برس اپنے عزم کے ذریعہ سنکلپ سے سدھی کے لئے وقف ہونے چاہئیں تبھی ہم اپنے مجاہدین آزادی کے ہندوستان کی تعمیر کرسکیں گے۔
پانچ برس کے فوری ہدف سے آگے بھی شاید تھنتھی نے اپنی پلاٹینم جوبلی کے موقع پر اس بارے میں غور کیا ہوگا کہ اگلے 75 برس کی مدت میں کیا جانا چاہئے ۔ اور ایسا کام انجام دینے کے دوران پیشہ وری قدروں اور مقصدیت کے اعلیٰ ترین معیارات کو پیش نظر رکھا جانا چاہئے ۔
آخرمیں میں ایک بار پھر تامل ناڈو کے عوام کی خدمت میں دینا تھنتھی کے ناشرین کی خدمات کی ستائش کرتا ہوں ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ناشر حضرات ہماری عظیم قوم کے مقدر کی چہرہ کاری میں اپنی تعمیری حمایت جاری رکھیں گے ۔