18.5 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

ڈاکٹر ہرش وردھن نے آئی سی ایم آر کے وَن ہیلتھ سمپوزیم کی صدارت کی

Urdu News

صحت و خاندانی بہبود کے مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن نے آج ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ’ وَن ہیلتھ اِن انڈیا:بایو تحفظ ، تیاری اور جوابی اقدامات سے متعلق تحقیق‘کے موضوع پر آئی سی ایم آر کے ایک بین الاقوامی سمپوزیم کی صدارت کی۔ انہوں نے آئی سی ایم آر کے  طبی تحقیق کے ہندوستانی جرنل (آئی جے ایم آر)کے ایک خصوصی شمارے کا بھی اجراء کیا، جس میں وَن ہیلتھ طریقہ کار پر تبادلہ خیال ، کثیر شعبہ جاتی تحقیق کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں بایو تحفظ، تیاری اور جوابی اقدامات سے متعلق تحقیق کی معلومات فراہم کی گئی ہے اور اس شعبے کے ممتاز ماہرین کے ذریعے لکھے گئے مضامین ، ان کی نظریات وغیرہ کو شامل کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ  ہندوستان میں ایکو ہیلتھ  اقدامات کے لئے ایک اعلیٰ سطحی اسٹیرنگ کمیٹی کی تشکیل کے آغاز کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس کمیٹی کا سکریٹریٹ آئی سی ایم آر میں ہوگا اور اسے ناگپور میں قائم ہونے والے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وَن ہیلتھ سے تعاون فراہم کیا جائے گا۔

 02.jpgاس تقریب کی بروقت ضرورت کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے مرکزی وزیر صحت نے کہا کہ پوری دنیا کووڈ-19 کے تباہ کن اثرات کا سامنا کررہی ہے۔یہ وقت کی ضرورت ہے کہ مل کر سوچا جائے اور پھر سے ابھرنے والے انفیکشن کے خلاف مستقبل میں ایمرجنسی تیاریوں کے لئے طریقے تلاش کئے جائیں۔انسانوں اور جانوروں –گھریلو و جنگلی کے درمیان زیادہ رابطوں اور آب وہوا میں تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے انسانی صحت اب زیادہ الگ تھلگ نہیں رہ سکتی۔انہوں نے کہا کہ موجودہ کووڈ-19 وباء اس حقیقت کی یاد دلاتی ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اب کئے جانے والے اقدامات آئندہ وباء سے بچنے میں مدد کریں گے۔انہوں نے اس موقع پر سامعین کو یاد دلایا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت نے ہندوستان کی غیر متزلزل سیاسی عہد بستگی نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ہندوستان نہ صرف کووڈ بحران میں مستحکم رہا ہے، بلکہ اس کی وجہ سے پوری دنیا میں فعال معیشت کی بحالی ہوئی ہے۔

اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ انسانی آبادی کی صحت جانوروں کی صحت سے قریبی تعلق رکھتی ہے اور اس کا ماحولیات پر اثر ہوتا ہے، ڈاکٹر ہرش وردھن نے وضاحت کی کہ کس طرح یہ پہلو ایسی بیماریوں میں اضافہ کرسکتا ہے، جو جانوروں اور انسانوں کے درمیان منتقل ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج زیادہ لوگ جنگلی اور گھریلو جانوروں کے زیادہ قریبی اور مسلسل رابطوں میں رہتے ہیں۔یہ انسانی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ انسانی مسکن میں توسیع اور نئے نئے جغرافیائی علاقوں میں بسنے کا نتیجہ ہے۔گھریلو سطح پر ، خاص طور سے پالتو جانوروں کی وجہ سے بھی انسانوں اور جانوروں کے درمیان رابطوں میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔مختلف قسم کے کھانے، دنیا کے الگ الگ حصوں میں مقبول ہیں اور مختلف قسم طبی اعتقاد کی وجہ سے بھی انسان جنگل میں جنگلی جانوروں تک پہنچ رہے ہیں۔عوام ، جانوروں اور جانوروں سے بنی مصنوعات کی بین الاقوامی تجارت وسیاحت میں اضافہ ہوا ہے۔اس کے نتیجے میں یہ بیماریاں سرحدوں کے آر پار ، پوری دنیا میں ، غیر ارادی طورپر یا دوسری طرح تیزی سے پھیل سکتی ہیں۔ان تبدیلیوں نے موجودہ یا جانی پہچانی وباؤں کو نئی نئی بیماریوں کا روپ دے دیا ہے۔آدھے سے زیادہ ایسے انفیکشن ، جو لوگوں میں پھیل سکتے ہیں، جانوروں کے ذریعے پھیل سکتے ہیں۔ہر سال پوری دنیا میں جانوروں سے انسانوں میں پھیلنے والی بیماریوں سے تقریباً 2.5ارب افراد متاثر ہوتے ہیں  اور 2.7ملین اموات ہوتی ہیں۔

وزیر موصوف نے سمپوزیم میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنےو الے ماہرین اور عالمی نظریات کے حامل لیڈروں کی موجودگی پر مبارکباد دیتے ہوئے اپنی تقریر ختم کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سمپوزیم ایک وسیع  موضوعاتی ، کثیر فریقی تبادلہ خیال اور اشتراک کا آغاز ہے، جس کا مقصد اس خوبصورت سیارے پر ، جسے ہم گھر کہتے ہیں ، سبھی کےلئے بہتر صحت حاصل کرنا ہے۔

03.jpg

اس میٹنگ میں آئی سی ایم آر کے ہیلتھ ریسرچ کے سیکریٹری  اور ڈی جی ڈاکٹر بلرام بھارگو، حکومت ہند کے پرنسپل سائنسی مشیر ڈاکٹر کے وجے راگھون،محکمہ دفاع کے آر اینڈ ڈی کے سیکریٹری اور ڈی آر ڈی او کے چیئرمین ڈاکٹر جی ستیش ریڈی، ماحولیات ، جنگلات اور آب و ہوا میں تبدیلی کی وزارت کے سیکریٹری جناب سی کے مشرا، مویشی پروری اور ڈیری کے سیکریٹری جناب اتل چترویدی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمے کے سیکریٹری ڈاکٹر آشوتوش شرما، بایو ٹیکنالوجی کے محکمے کی سیکریٹری  ڈاکٹر رینو سوروپ، زرعی تحقیق اور تعلیم کے محکمے کے سیکریٹری ڈاکٹر ترلوچن مہاپاترا، ویلکم ٹرسٹ کے سی ای او پروفیسر جرمی فرار، وَن ہیلتھ آفس، سی ڈی سی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کے سی بارٹن، امریکہ کے این آئی ای ایچ ایس کے ڈاکٹر ابو رے ملر اور آسٹریلیا چیف ویٹنری آفیسر ڈاکٹر مارک اسکِپ بھی موجود تھے۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More