نئی دہلی: حکومت کے ذریعہ ارضیاتی سائنس کی وزارت (ایم او ای ایس )کے قومی مانسون مشن اور ہائی –پرفارمینس کمپیوٹنگ پروگرام پر خرچ کئے جانے والے ہر ایک روپے پر ملک کو 50 روپے کا اقتصادی فائدہ ہوگا، جو کہ گزشتہ 5 برسوں کے دوران کی گئی سرمایہ کاری پر ہونے والے فائدے کے 50 گنا زیادہ ہے’۔اس بات کی توثیق نیشنل کونسل آف اپلائڈ اکانامک ریسرچ ( این سی اے ای آر)کی ایک رپورٹ میں کی گئی ہے۔این سی اے ای آر نئی دہلی میں واقع ایک آزاد غیر منفعتی تھنک ٹینک ہے جو اقتصادی پالیسی ریسرچ کا کام کرتی ہے۔یہ رپورٹ سائنس وٹیکنا لوجی ، صحت اور کنبہ بہبود اور ارضیاتی سائنس کے مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن نے آج یہاں پرتھوی بھون میں منعقدہ ایک تقریب میں جاری کی۔آئی ایم ڈی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ایم موہاپاترا، پروجیکٹ ڈائریکٹر اور سائنٹسٹ ‘جی’ ڈاکٹر پروندر مینی اور ارضیاتی سائنس کی وزارت نیز آئی ایم ڈی کے متعدد سینئر اہلکار اس موقع پر موجود تھے۔ جبکہ ارضیاتی سائنس کی وزارت کے تحت آنے والے سبھی اداروں نے ورچول پلیٹ فارم کے ذریعہ اس پروگرام میں شرکت کی۔
این سی اے ای آر رپورٹ کا تعلق ملک کے کسانوں ، مویشی پروری کرنے والوں اور ماہی گیروں کو راست مالی حصولیابیوں کے طور پر اقتصادی فوائد سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق نیشنل مانسون مشن اور ہائی پرفارمینس کمپیوٹنگ (ایچ پی سی )سہولیات میں تقریبا 1000 کروڑ روپے کی بھارت کی سرمایہ کاری سے خطہ افلاس (بی پی ایل) سے نیچے زندگی گزارنے والے ملک کے تقریبا 1 کروڑ 7 لاکھ زرعی کنبوں اور 53 لاکھ بی پی ایل ماہی گیر کنبوں کو 50 ہزار کروڑ روپے کا فائدہ ہوگا۔
اقتصادی اثرات کی پیمائش کے لئے 6098 جوابدہندگان (3965کسان، 757سمندری ماہی گیر اور 1376مویشی مالکان ) کا بالمشافہ سروے کیا گیا اور بالمشافہ سروے سے حاصل معلومات کی توثیق کے لئے تقریبا 2 لاکھ جوابدہندگان کا انٹر ایکٹیو وائس رسپانس سروے (آئی وی آر ایس )کیا گیا ۔یہ رپورٹ اسی بالمشافہ سروے پر مبنی ہے۔آئی بی آر ایس ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو کمپیوٹروں کو کی بورڈ کے توسط سے وائس اور انپٹ کا استعمال کرتے ہوئے انسانوں کے ساتھ تبادلہ خیال کی اجازت دیتی ہے۔ اس میں ماقبل مانسون مشن اور مابعد مانسون مشن کے اعدادوشمار کو شامل کیا گیا تھا جس سے قومی مانسون مشن کے نفاذ سے پہلے اور بعد میں اہم فصلوں کی پیداوار اور اپج کا تجزیہ کرنے میں مدد ملی۔16 ریاستوں (29 میں سے)کے مجموعی طور پر 173 اضلاع (ہندوستان کے کل 732 اضلاع میں سے ) اضلاع کو اس مطالعہ کے لئے شامل کیا گیا تاکہ زرعی- موسمیاتی زونوں ، بارش کے پانی سے سینچائی والے علاقوں، اہم فصلوں کی کوریج اور ملک میں انتہائی نوعیت کے موسمی حالات سے متعلق واقعات کی تقریبا کلی نمائندگی ہوسکے۔
قومی مانسون مشن کا آغاز 2012 میں ارضیاتی سائنس کی وزارت کے ذریعہ کیا گیا تھا۔اس کا مقصد قلیل مدتی ، وسط مدتی اور طویل مدتی پیشین گوئیوں کے لئے جدید ترین اور فعال موسمی پیشین گوئی نظام کو فروغ دینا تھا ۔ ہائی – پرفارمینس کمپیوٹنگ سہولیات کے ساتھ قومی مانسون مشن کو آگے بڑھانے سے ملک میں آپریشنل موسمی پیشین گوئیوں کے لئے موسم اور آب وہوا کی ماڈلنگ کے کام میں ایک بڑی تبدیلی کے حصول میں مدد ملی ہے۔12 کلو میٹر پر محیط قلیل اور وسط مدتی پیشین گوئی کے لئے گلوبل اینسیمبل فارکاسٹ سسٹم کا 2018 میں کامیاب فروغ نیشنل مانسون مشن اور ہائی – پرفارمینس کمپیوٹنگ سہولیات کو 1پیٹا فلاپ سے 10 پیٹا فلاپ تک بڑھانے سے ممکن ہوا ہے۔
زرعی – موسمیاتی زون سے مراد ایک ایسے جغرافیائی خطے سے ہے جہاں کی مٹی کی کیفیت ،بارش کی صورتحال، درجہ حرارت اور پانی کی دستیابی کی صورتحال ایک جیسی ہے ۔ ہندوستان کو 15 بڑے زرعی – موسمیاتی زونوں میں تقسیم کیا گیا ہےجس میں 10 زون ایسے ہیں جو خشک سالی سے لے کر سیلاب تک کی مانسون سے متعلق ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں، کا این سی اے ای آر کے مطالعہ میں احاطہ کیا گیا ہے۔بارش سے سینچائی والے علاقوں اور اہم مویشی پروری والے علاقوں کو ترجیح دیتے ہوئے مجموعی طور پر 173 اضلاع کا انتخاب اس سروے کے لئے کیا گیا ۔ مطالعہ کے دائرے میں ہندوستان میں اگائی جانے والی سبھی اہم فصلوں کے 70 فیصد زیادہ کا احاطہ کیا گیا ۔اس میں خریف اور ربیع کی فصلیں شامل ہیں۔
بھارت کا محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی )انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ (آئی سی اے آر) کے اشتراک سے ملک کے سبھی اضلاع میں ہفتے میں 2 مرتبہ ‘کرامین کرشی موسم سیوا(جی کے ایم ایس)’ کے تحت 130 ایگرو-میٹ فیلڈ اکائیوں کے توسط سے تقریبا 40 ملین کسانوں کو ضلع سطح کی زرعی – موسمیاتی ایڈوائزری فراہم کرتا ہے۔ یہ ایڈوائزری کسانوں تک موبائل ایس ایم ایس ،میگھ دوت جیسے ایپ ، آئی ایم جی کی ویب سائٹ ، کسان پورٹل اور ٹیلی ویژن، ریڈیو واخبارات جیسے روایتی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ بھیجی جاتی ہیں۔ کسان ان ایڈوائزریز کا استعمال اہم زرعی کارگزاریوں کے لئے کرتے ہیں جن میں بوائی کا بندوبست ، فصل کی نوعیت تبدیل کرنا ،بیماریوں پر قابو پانے کے لئے جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ اور سینچائی کا بندوبست وغیرہ شامل ہیں۔
ہندوستان کی 11 ریاستوں کے 121 اضلاع سے تعلق رکھنے والے جن 3965 کسانوں سے بات چیت کی گئی ان میں سے ایک بڑی تعداد نے اس بات کی توثیق کی کہ ان پر موسم سے متعلق ایڈوائزری کا مثبت اثر پڑا ہے۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ انھوں نے اس بنیاد پر اہم زرعی طور طریقوں میں تبدیلی کی جن میں فصل کی نوعیت ،کھاد یا جراثیم کش کے استعمال کا شیڈیول ، سینچائی یا فصل کی کٹائی کا وقت ، اسٹوریج کا بندوبست وغیرہ شامل ہیں تاکہ خسارے کو کم کیا جاسکے اور آمدنی میں اضافہ کیا جاسکے۔ہندوستان کی 10 ریاستوں کے 92 اضلاع کے جن 1376 مویشی پروری کرنے والوں سے بات چیت کی گئی ان میں کی اکثریت نے یہ بتایا کہ موسم سے متعلق ایڈوائزری کا ان کی روزی روٹی پر مثبت اثر پڑا ہے۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ انھوں نے ان بنیادوں پر مویشیوں کے بندوبست سے متعلق فیصلے کئے جن میں مویشیوں کی ٹیکا کاری ، شیڈ اور شیلٹرس میں ترمیم اور چارے کے استعمال سے متعلق طور طریقے شامل ہیں۔ان میں مویشی پروروں میں حاشیائی اور بڑے پیمانے پر مویشی پروری کرنے والے کسان اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو گایوں ، مویشیوں ، بکریوں اور پولٹری کے مالکان ہیں۔ رپورٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تقریبا 13 ہزار کروڑ روپے کی آمدنی سالانہ کاشتکاروں اور مویشی پالنے والے کسانوں کو ہوئی اور آئندہ 5 برسوں میں اس سے تقریبا 48 ہزار کروڑ روپے کا اضافی اقتصادی فائدہ ہوگا۔
53 لاکھ بی پی ایل ماہی پروروں کے تعلق سے اس رپورٹ میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ انھیں سالانہ 663 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی اور صرف ماہی گیروں کو ہی آئندہ 5 برسوں میں 2 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا اضافی فائدہ ہوگا۔ ہندوستان کی 7 ریاستوں کے 34 اضلاع کے جن 757 سمندری ماہی گیروں کا سروے کیا گیا ان میں سے اکثر نے بتایا کہ وہ سمندر میں جانے سے پہلے اور خالی ٹرپ سے بچنے کے لئے سمندر کی صورتحال سے متعلق پیشین گوئی کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سمندر کی صورتحال سے متعلق پیشین گوئیوں اور ایڈوائزری کی بنیاد پر لئے گئے ان کے فیصلوں کے نتیجے میں ان کی روزی روٹی میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے اور ان کی آپریشنل لاگت کم ہوئی ہے۔
این سی اے ای آر کی رپورٹ میں ملک کی زرعی سرگرمیوں سے وابستہ خواتین کو ہونے والے اقتصادی فوائد کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ متعدد زرعی سرگرمیوں میں خواتین اہم رول ادا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ماہی گیری کے شعبے میں وہ رقم کی دستیابی ، سپلائی اور سورسنگ ، اسٹاف بندوبست اور مارکیٹنگ کے کاموں میں مدد کرتی ہیں۔ وہ کسٹمر بیس کو ہیڈل کرتی ہیں اور اس میں اضافہ کرتی ہیں، قیمتوں ، جالوں اور ماہی گیری سے متعلق دیگر اثاثہ جات پر نظر رکھتی ہیں۔ خواتین کے لئے موسمی پیشین گوئی کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے این سی اے ای آر نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ اس سے صرف خواتین کو ہی تقریبا 13 ہزار کروڑ روپے کا فائدہ ہوا ہے جو کہ نیشنل مانسون مشن اور ہائی – پرفارمینس کمپیوٹنگ سہولیات کے ذریعہ ہونے والے مجموعی فائدہ کا 26 فیصد ہے۔ اس سروے سے اس بات کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ اس سروے میں ماہی گیر کنبوں سے تعلق رکھنے والی جن جن خواتین سے بات کی گئی وہ روزانہ کی بنیاد پر میسیجنگ کے توسط سے انڈین نیشنل سینٹر فاراوشن انفارمیشن سروسیز (آئی این سی او آئی ایس) کے ذریعہ دستیاب کرائی جانے والی سمندر کی صورتحال سے متعلق پیشین گوئی کے بارے میں جاننا چاہتی تھیں۔
مکمل رپورٹ کے لئے یہاں کلک کریں۔
پی پی ٹی پیش کش کے لئے کلک کریں۔
(مکمل رپورٹ ارضیاتی سائنس کی وزارت کی ویب سائٹ http://www.moes.gov.in پر بھی دستیاب ہے۔