15.6 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

کاشت کاروں کی آمدنی کو دوگنا کرنا

Urdu News

نئی دہلی، زراعت اور کاشت کاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت میں وزیر مملکت جناب  پرشوتم روپالا نے آج راجیہ سبھا میں بتایا ہے کہ  حکومت نے 2022 ء تک  کاشت کاروں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے ۔   حکومت نے  قومی بارانی  علاقہ اتھارٹی ، محکمۂ زراعت ،  امدادِ باہمی اور کاشت کاروں کی فلاح و بہبود کے  چیف ایگزیکیٹو آفیسر کی صدارت میں ایک بین وزارتی کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے  ، جو کاشت کاروں کی آمدنی کو دوگنا بنانے سے متعلق  تمام امور کا جائزہ لے رہی ہے اور اس کمیٹی نے  ایک حکمتِ عملی کی سفارش کی ہے تاکہ سال 2022 ء تک  صحیح معنوں میں کاشت کاروں کی آمدنی کو بڑھا کر دو گنا کیا جا سکے ۔

          فی الحال  2022 ء تک کاشت کاروں کی آمدنی کو بڑھا کر دوگنا کرنے کی حکمتِ عملی کے 13 ڈرافٹ تیار کئے گئے ہیں اور یہ ڈرافٹ اِس کمیٹی نے  تیار کرکے  محکمے کی درج ذیل ویب سائٹ پر عوام الناس کے تبصرے کی غرض سے اَپ لوڈ کر دیئے ہیں ۔   (http://agricoop.nic.in/doubling-farmers)

             اس کے ساتھ ہی ساتھ حکومت ، زرعی شعبے پر  آمدنی کو بڑھانے کے لحاظ سے  توجہ مرکوز کر رہی ہے ۔  کاشت کاروں کے لئے  خالص مثبت  فوائد  کو حقیقی شکل دینے کے لئے درج ذیل اسکیموں کو فروغ دیا جا رہا ہے اور  انہیں ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے توسط سے نافذ کیا جا رہا ہے ۔

          ان اسکیموں میں مٹی کی صحت سے متعلق کارڈ ( ایچ ایس سی ) اسکیم ،  نیم کی پرت چڑھی ہوئی یوریا کھاد ( ان سی یو ) ، پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا ( پی ایم  کے ایس وائی )  ، پرمپراگت کرشی وکاس یوجنا  ( پی کے وی وائی )  ، قومی زرعی مارکٹ اسکیم  ( ای – نام ) ، پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا ( ای ایم ایف بی وائی )  ، قومی خوراک سلامتی مشن  ( این ایف ایس  ایم ) ، باغبانی کی مربوط ترقیات سے متعلق مشن ( ایم آئی ڈی ایچ ) ، تلہن  آئل پام سے متعلق   قومی مشن ( این ایم او او پی )  ، ہمہ گیر زراعت کے لئے قومی مشن ( این ایم ایس اے ) ، زرعی توسیع اور ٹیکنالوجی کا قومی مشن ( این ایم  اے ای ٹی ) اور راشٹریہ  کرشی وکاس یوجنا  ( آر کے وی وائی ) وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ  ،  پودے لگانے کی اسکیمیں   ( ہر میڑھ پر پیڑ ) ، شہد کی مکھیوں کی پرورش ، ڈیری اور مچھلی پالن کو بھی نافذ کیا گیا ہے ۔  یہ تمام اسکیمیں  ، اس مقصد سے نافذ کی جا رہی ہیں کہ زراعت کی پیداواریت اور پیداوار دونوں میں اضافہ ہو ، جن کے نتیجے میں کاشت کاروں کی آمدنی بھی بڑھے ۔

          کم از کم امدادی قیمتوں کا اعلان  زرعی لاگت و قیمتوں کے کمیشن ( سی اے  سی پی ) کی سفارش پر  کیا جاتا ہے ، جو  خریف اور ربیع  دونوں فصلوں کے لئے ہوتا ہے ۔ یہ کمیشن  زراعت کی لاگت کے بارے میں  اعداد و شمار جمع کرکے اس کا تجزیہ کرتا ہے اور اس کی روشنی  میں کم از کم امدادی قیمتوں کی سفارش کرتا ہے ۔

          کاشت کاروں کی آمدنی کو بڑھاوا دینے کے لئے ایک اہم  قدم کے طور پر حکومت نے  19-2018 ء کے لئے تمام تر خریف کی فصلوں  کی کم از کم امدادی قیمت ( ایم ایس پی ) میں اضافہ کر دیا ہے ۔  حکومت کا یہ فیصلہ تاریخی اہمیت کی حامل نوعیت کا فیصلہ ہے اور اسی فیصلے کی  نوعیت کے لحاظ سے قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے ۔  19-2018 ء کے بجٹ میں  اعلان کیا گیا تھا کہ  فصلوں کی کم ازکم امدادی قیمت پیداوار کی لاگت کا کم از کم  150 فی صد ہو گی ۔

          نیشنل سیمپل سروے آفس  ( این ایس ایس او ) نے گذشتہ ایک برس کے دوران  ملک کے کاشت کاروں کی آمدنی  سے متعلق  اعداد و شمار جمع کرنے  یا  مویشی پالنے والوں کی آمدنی سے متعلق  کوئی سروے نہیں کیا ہے ۔  تاہم  این ایس ایس او نے   ( جنوری ، 2013 ء سے دسمبر ، 2013 ء  ) کے دوران زرعی کنبوں کے سلسلے میں   ایک صورت حال پر مبنی  جائزہ سروے ضرور کیا تھا  ۔ یہ سروے ملک کے دیہی علاقوں میں  جولائی ، 2012 ء سے جون ، 2013 ء کے دوران کیا گیا تھا ۔ اس سروے کے دوران   جولائی ، 2012 ء سے جولائی ، 2013 ء کے دوران زرعی کنبوں کی آمدنی کو زیر غور لایا گیا تھا ۔ یہ آمدنی  مختلف سرگرمیوں  کے نتیجے میں   ہوئی تھی ۔   اوسط ماہانہ آمدنی فی زرعی کنبہ  ، جو مختلف ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں  کے گروپوں کے لئے  جولائی ، 2012 ء سے جون ، 2013 ء کے دوران کیا گیا تھا ، وہ سروے   صورت حال پر مبنی جائزے اور تجزیہ  کی بنیاد پر کیا گیا تھا ۔  این ایس ایس کے 70 ویں دور  کا گو شوارہ   ( جنوری ، 2013 ء سے دسمبر ، 2013 ء ) درج ذیل ہے :

راجیہ سبھا کا  غیر  ستارہ سوال ( 326 ) برائے جواب 20 جولائی ، 2018 ء

این ایس ایس کے 70 ویں دور  ( جنوری ، 2013 ء سے دسمبر ، 2013 ء ) کے دوران صورت حال پر مبنی  جائزہ سروے  ، جو زرعی کنبوں کے لئے تھا، اُس کی تفصیلات  مختلف ریاستوں  / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے گروپوں کے سلسلے میں   جولائی ، 2012 ء سے جون ، 2013 ء درج ذیل گو شواروں میں دیکھا جا سکتا ہے :

uary 2013 – December 2013)

ریاست  / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے گروپ

اجرتوں سے آمدنی

(₹)

کاشت سے ہونے والی خالص آمدنی

(₹)

مویشی پالن سے ہونے والی خالص آمدنی

(₹)

غیر زرعی وسائل سے ہونے والی خالص آمدنی

(₹)

مجموعی آمدنی

(₹)

(1)

(2)

(3)

(4)

(5)

(6)

آندھرا پردیش

2482

2022

1075

400

5979

اروناچل پردیش

2076

6647

1310

836

10869

آسام

1430

4211

799

255

6695

بہار

1323

1715

279

240

3558

چھتیس گڑھ

1848

3347

-19

1

5177

گجرات

2683

2933

1930

380

7926

ہریانہ

3491

7867

2645

431

14434

ہماچل پردیش

4030

2876

1047

824

8777

جموں و کشمیر

7336

3063

801

1483

12683

جھار کھنڈ

1839

1451

1193

238

4721

کرناٹک

2677

4930

600

625

8832

کیرلا

5254

3531

575

2529

11888

مدھیہ پردیش

1332

4016

732

129

6210

مہاراشٹر

2156

3856

539

834

7386

منی پور

3815

2924

1563

540

8842

میگھالیہ

3776

6472

657

887

11792

میزورم

3655

4561

864

19

9099

ناگالینڈ

5393

3212

1384

59

10048

اڈیشہ

1716

1407

1314

539

4976

پنجاب

4779

10862

1658

760

18059

راجستھان

2534

3138

967

710

7350

سکم

3113

1696

980

1009

6798

تمل ناڈو

2902

1917

1100

1061

6980

تیلنگانہ

1450

4227

374

260

6311

تری پورہ

2185

2772

311

162

5429

اترا کھنڈ

1069

2531

848

253

4701

اتر پردیش

1150

2855

543

376

4923

مغربی بنگال

2126

979

225

650

3980

مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے گروپ

5179

1864

213

1312

8568

کُل ہند  

2071

3081

763

512

6426

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More