نئی دہلی: کووڈ -19 کے معاملات میں حال ہی میں ہونے والے اضافے کے سلسلے میں بچاؤ کرنے، کنٹینمنٹ اور بندوبست کے لئے حکومت ہند‘مکمل حکومت’ نظریہ کے تحت ریاستوں اورمرکز کے زیرانتظام خطوں کے ساتھ مل کر مرحلہ وار دوراندیشانہ اور فعال طریقہ کار متعدد اقدامات کررہی ہے۔ان اقدامات کا بھی اعلی ترین سطح پرمستقل جائزہ لیا جارہا ہے او رمانیٹرنگ کی جارہی ہے۔ ڈی پی آئی آئی ٹی نے تمام متعلقین کے مشورہ سے 30 اپریل تک کےلئے سب سے زیادہ متاثرہ 12 ریاستوں کے واسطے سپلائی کی میپنگ کاایک منصوبہ جاری کیا ہے۔ پی ایم کیئر فنڈ سے 32 ریاستوں/ مرکز کے زیرانتظام خطوں میں 162پی ایس اے آکسیجن پلانٹ (154.19 ایم ٹی صلاحیت والے) لگانے، ریاستوں میں آکسیجن کی بلا روک ٹوک ترسیل‘ میڈسپلائی’ آئی ٹی ایپلی کیشن جو کہ مقام کی تیاری کاپتہ لگاتاہے، کو قام کرنے لائق بنانے ،پلانٹ ڈلیوری ،انسٹالیشن او ر شروع کئے جانے ریمڈے سیور کے پروڈکشن کو 27.29لاکھ شیشی ماہانہ سے بڑھاکر 74.10 لاکھ شاشی ماہانہ کرنے ریمڈے سیور اے پی آئی اور فارمولیشن کی برآمد پر ڈی جی ایف ٹی کے ذریعہ روک لگائےجانے، ادویات کی کالابازاری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت کارروائی سے متعلق وزارت داخلہ کامشاورتی نوٹ ایسے فیصلوں میں شامل ہے جو کووڈ کے اثر سےپیدا ہونےوالی مشکلات کو دورکرنے کے لئے کیا جائے گا۔
ملک بھر میں روز مرہ کے نئے کووڈ معاملوں میں غیر معمولی اضافہ ہواہے۔ اس کے نتیجہ میں ریمڈے سیور جیسی چند ادویات کی کھپت میں بھی اضافہ ہواہے۔ اسپتالوں میں شدید علامات والے کووڈ مریضوں کے کلینیکل بندوبست کے سلسلہ میں آکسیجن کی کھپت میں بھی بہت اضافہ ہواہے۔ حال ہی کے دنو ں میں مرکزی حکومت نے ملک بھر کے اسپتالوں میں آکسیجن کی سپلائی میں اضافہ کےلئے متعدد اقدامات کئے ہیں۔
ملک کے تین ممتاز ڈاکٹروں ایمس کے ڈائریکٹر ، پروفیسر(ڈاکٹر) رندیپ گلیریا، نارائن ہیلتھ کے چیئرمین ڈاکٹردیوی شیٹی اور میدانتا اسپتال کے چیئرمین ڈاکٹرنریش تریہن نے وزارت صحت کے نیشنل ٹریٹمنٹ پروٹوکول کے تحت انویسٹیگیشنل تھیریپی کے زمرہ کے تحت بھی ریمڈے سیور کے معقول استعمال اور اسپتالوں میں کووڈ مریضوں کے علاج کے لئے آکسیجن کے استعمال سے متعلق مختلف تشویشات کو دور کیا۔
ڈاکٹر گلیریا نےعام طور پر کووڈ سے متعلق تشویشات کو دور کرنے کے لئے ویکسین کو کلیدی ذریعہ بتایا ہے۔انہوں نے کہاکہ اگرچہ ویکسین انفیکشن ہونے سے نہ روکے لیکن یہ بیماری کو شدید بیماری میں تبدیل ہونے سے روکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ بات سمجھنی اہم ہے کہ ویکسینیشن کے بعد بھی ہم کووڈ سے متاثر ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیکہ لگوانے کے بعد بھی ماسک پہننا جاری رکھنا چاہئے۔
آکسیجن
ڈاکٹرگلیریانے کہاکہ 94-93 فیصد آکسیجن سیچوریشن والے صحت مند افراد کو محض اپنا سیچوریشن 99-98 فیصد برقراررکھنے کےلئے ہا ئی فلو آکسیجن لینے کی ضرورت نہیں ہے یہاں تک کہ 94 سے کم سیچوریشن والوں کو بھی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے (آکسیجن متبادل ہے)۔
انہوں نے کہاکہ ‘‘آکسیجن ایک علاج ہے، یہ دوا کی طرح ہے’’۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ باربار آکسیجن لینا آکسیجن کی بربادی ہے۔ ایسے اعداد وشمار موجود نہیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہو کہ اس سے مریضوں کو کوئی مدد ملے گی اس لئے یہ مشورہ مناسب نہیں ہے۔
ڈاکٹر تریہن نے کہاکہ اگرہم دانشمندانہ طریقہ سے استعمال کرنے کی کوشش کریں تو ملک میں کافی آکسیجن موجود ہے۔انہوں نے لوگوں سے درخواست کی کہ وہ ایک ‘‘سیکورٹی بلینکٹ ’’کے طور پر آکسیجن کو استعمال نہ کریں۔ آکسیجن کی بربادی کے نتیجہ میں کوئی ایسا شخص اس سے محروم ہوسکتا ہے جس کو اس کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر شیٹی نے کہاکہ 94فیصد سے اوپرسیچوریشن کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ورزش/ جسمانی محنت کے بعد اس میں گراوٹ آتی ہے تو ڈاکٹر سے مشورہ کر سکتے ہیں۔
ریمڈے سیور
تمام ڈاکٹروں نے متفقہ طور پر لوگوں سے درخواست کی کہ وہ ریمڈے سیور کو ایک حیرت انگیز دوا سمجھنے سے گریز کریں۔ ہوم آئیسولیشن میں یا اسپتالوں میں کووڈ مریضوں کے بیشترایکٹیومعاملوں میں کسی خصوصی علاج کی ضرورت نہیں ہے۔بہت کم فیصد ایکٹیومعاملات میں ریمڈے سیور کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے اس خیال کااظہارکیاکہ ایک ملک کے طور پراگرہم مل جل کرکام کریں گے ،آکسیجن اورریمڈے سیور کااحتیاط کے ساتھ استعمال کریں گے تو کہیں بھی ان کی کمی نہیں ہوگی۔آکسیجن کی ضرورت والے افراد کی تعداد اورآکسیجن سپلائی کے معاملے میں ہمارے یہاں توازن بقرار ہے۔
ڈاکٹر تریہن نے اس پر اتفاق کیا اور کہاکہ ان کے اسپتال نے اب یہ پروٹوکول تیار کیا ہے کہ پازیٹوپائےجانےو الے سبھی مریضوں کو ریمڈے سیور نہ دی جائے۔ ریمڈے سیور ڈاکٹروں کے ذریعہ ٹیسٹ کے نتائج، علامات مریض کے دیگرامراض کی جانچ کے بعد ہی دی جائے۔ ریمڈوے سیور ‘رام بان’ نہیں ہے، یہ محض ان لوگوں میں وائرس کے اثر کو کم کرتی ہے جنہیں اس کی ضرورت ہو۔
عام مسائل
ڈاکٹرگلیریا نے کہاکہ کووڈ سے متاثرہوجانے پر 85 فیصد لوگ ریمڈے سیور وغیرہ کسی مخصوص علاج کے بغیر صحتیاب ہوجاتے ہیں۔ زیادہ افراد میں عام نزلے، گلے کی خراش وغیرہ جیسے علامات پائی جاتی ہیں اور 5-7 دن میں وہ علامات کاعلاج کرنے پر صحتیاب ہوجاتے ہیں۔ محض 15 فیصد افراد ہی بیماری کے درمیانہ مرحلہ تک پہنچ پاتے ہیں۔
انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ گروپ میں نہ رہیں کیوں کہ اس سے کوئی بھی متاثر ہوسکتاہے اور بتایا کہ کھلی ہواوالی جگہوں پر بند مقامات کے مقابلے میں انفیکشن کا خطرہ کم ہوتاہے۔
ڈاکٹر تریہن نے کہاکہ اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے۔ اس لئے اسپتال کے بستروں کااستعمال دانشمندی کے ساتھ کیا جانا چاہئے اور اسکی ذمہ داری ہم سبھی پر عائد ہوتی ہے۔
ڈاکٹر شیٹی نے مشورہ دیا کہ پازیٹو پائے جانے کی صورت میں ڈاکٹرسے ملیں اوران کی رائے حاصل کریں۔ انہوں نے کہاکہ پازیٹو رپورٹ آنے کی صورت میں گھبراہٹ میں مبتلا نہ ہوں کیوں کہ ابتدائی مرحلہ میں طبی مدد حاصل کرنے اورڈاکٹر کے مشورہ پر چلنے سے مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔
اس کاامکان بھی ہے کہ مریض میں علامات نہ ہوں اورڈاکٹر ان کو گھر پر رہنے ، اپنے آپ کو الگ تھلگ کرنے، ماسک پہننے اور ہر چھ گھنٹے میں اپنی آکسیجن سیچوریشن کی جانچ کرنے کا مشورہ دیں۔انہوں نےمشورہ دیا کہ اگر کسی میں بدن درد، زکام، کھانسی، بدہضمی، قے جیسی علامات ہوں تو جانچ کرائیں کیوں کہ یہی جانچ کسی آگے کی علاج کی بنیاد ہوگی۔