نئی دہلی، سائنس اور ٹیکنالوجی کےمحکمے (ڈی ایس ٹی)، میں حالیہ دنوں میں زبردست تغیر واقع ہوا ہے اور یہ بتدریج ترقی والی سائنس کے بجائے مکمل سائنس کا ایک نمونہ بن کر سامنے آیا ہے اور کورونا وائرس کے بحران نے اس عمل میں تیزی لانے کا ایک موقع فراہم کیاہے۔ ڈی ایس ٹی کے سکریٹری پروفیسر آشوتوش شرما نے ان خیالات کا اظہار 50ویں یوم تاسیس کے موقع پر ‘‘ کورونا وائرس سے نبردآزمائی –سائنسی تحقیق اور اختراع کی افادیت’’ کے موضوع پر الیٹس ٹیلی میڈیا کے ساتھ منعقدہ ایک گفت و شنید پر مبنی ویبینار میں کیا ہے۔
پروفیسر شرما نے کہا کہ ہم اب پروگراموں کو اس انداز میں وضع کر رہے ہیں کہ جن سے یہ ظاہر ہو کہ سائنس داں اپنی سائنس کے تجربے کے دوران رِسک بھی لے سکتے ہیں اور نتائج بھی دے سکتے ہیں، جو اثر پذیر بھی ہوں گے اور تغیر بھی لا سکیں گے۔ ان میں سے چند پروگراموں میں سائنٹفک اور افادی عمیق تحقیق اور ترقی (ایس یو پی آر اے) اور اعلیٰ ترجیحاتی شعبوں میں شدید ترین تحقیقی (آئی آر ایچ پی اے) جیسے پروگرام بھی شامل ہیں۔ یہ پروگرام سائنس کے ذریعے اپنائے جانے والے عملی راستے میں بھی تبدیلی لانے کے باعث ثابت ہو رہے ہیں۔ ان میں سے چند پروگراموں کا نظریہ اور طریقہ کار کووڈ-19 بحران سے نمٹنے کی ہماری کوششوں میں بھی اپنایا گیا ہے۔
پروفیسر شرما نے اشارہ کیا کہ ڈی ایس ٹی کے تحت کام کر نے والے چند خودمختار اداروں نے کثیر پہلوئی کووڈوبائی مرض کے مختلف پہلوؤں کے سلسلے میں متعد د حل نکالے ہیں اور یہ کام ایک مہینے کی مدت کے اندر انجام دیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ حل نجی کمپنیوں اور اسٹارٹ اپس کے ساتھ اشتراک کر کے نکالے گئے ہیں۔ لہذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ڈی ایس ٹی سائنس کو عملی جامہ پہناتے ہوئے تغیر پذیر ہےاور یہ بحران اس تغیر کے لئے ایک آزمائشی تجربہ بھی ثابت ہو ا ہے۔
ڈی ایس ٹی کی بنیاد 3مئی 1971 کو رکھی گئی تھی۔ اس پہلوپر مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ نیشنل سائنس فاؤنڈیشن (این ایس ایف )، امریکہ کے طرز پر قائم کیا گیا تھااور نہ صرف بلکہ این ایس ایف اس کے لئے سرمایہ فراہم کرتا ہے، بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر پالیسی سازی اور سائنٹفک کاموں میں تال میل بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ سائنسدانوں اور سائنٹفک اداروں کو بااختیار بنانے کا ایک عظیم پلیٹ فارم ہے اور ازحد منقسم نظام کے تحت کام کرتا ہے۔ اس کے ساتھ مربوط لوگوں میں اسکول، کالج ، پی ایچ ڈی، پوسٹ ڈاکٹر طلبہ، نوجوان سائنسداں، اسٹارٹ اپس اور این جی او شامل ہیں، جو سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں مصروف عمل ہیں۔
گزشتہ 5برسوں کے دوران ڈی ایس ٹی کی جانب سے کئے گئے اقدامات اور پہل قدمیوں کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر آشوتوش شرما نے بتایا کہ ڈی ایس ٹی کے بجٹ میں 100فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں مختلف النوع شعبوں میں نئے پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔
ندھی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے، جو کُلی طور پر اسٹارٹ اپس کے لئے وقف ہے، انہوں نے بتایا کہ اس نے انکیوبیٹروں اور اسٹارٹ اپس کی تعداد گزشتہ 5برسوں کے دوران بڑھا کر دو گنی کر دی ہے۔ مانک نام کا پروگرام سالانہ بنیاد پر 10لاکھ اسکولی طلبہ کو ملک بھر میں اختراع کے لئے ترغیب فراہم کرتا ہے یعنی وہ اپنے نظریات اور خیالات کو پروٹوٹائپ شکل میں لا سکتے ہیں اور بچوں کو مستقبل کی چنوتیوں کے لئے تیار کیا جاتا ہے تاکہ وہ اختراع اور صنعت کاری کی جانب راغب ہو سکیں۔