20 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

کووڈ-19 کے دور میں زندگی

Urdu News

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے لنکیڈن پر اپنے کچھ خیالات مشترک کئے ہیں جو نوجوانوں اور پیشہ وروں کو پسند آئیں گے۔

لنکیڈن پر مشترک کئے گئے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے خیالات کا متن درج ذیل ہے:

’’اس ملک کی تیسری دہائی کا آغاز الٹے پلٹے طور پر ہوا ہے۔ کووڈ-19 اپنے ساتھ بہت سا انتشار اور خلل انگیزیاں لے کر آیا ہے۔ کورونا وائرس نے پیشہ وارانہ زندگی کی صورت کو قابل ذکر طریقے سے بدل دیا ہے۔ آج کل گھر نیا دفتر ہے۔ انٹرنیٹ نیا میٹنگ روم ہے۔ پچھلے کچھ وقتوں سے دوستوں کے ساتھ آفس بریک تاریخ بن گئی ہے۔

میں بھی ان تبدیلیوں کو اپنے اندر اتار رہا ہوں۔ زیادہ تر میٹنگ، چاہے وہ اپنے وزارتی رفقاء کے ساتھ ہو، اہلکاروں کے ساتھ ہو یا پھر عالمی لیڈروں کے ساتھ، اب ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہورہی ہیں۔ متعدد حصص داروں کے زمینی سطح کا فیڈبیک حاصل کرنے کے لئے سماج کے مختلف طبقات کے ساتھ ویڈیو کانفرنس میٹنگ ہوئی ہیں۔ این جی اوز، سول سوسائٹی گروپوں اور کمیونٹی تنظیموں کے ساتھ وسیع تبادلہ خیال ہوا ہے۔ ریڈیو جوکیز کے ساتھ بھی تبادلہ خیال ہوا تھا۔

اس کے علاوہ، میں روزانہ بہت سے فون کال کررہا ہوں، سماج کے مختلف طبقات سے فیڈبیک لے رہا ہوں۔

لوگ ان طریقوں کو دیکھ رہے ہیں جس کے ذریعے لوگ اس وقت اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے فلمی ستاروں سے کچھ تخلیقیت سے لیس ویڈیوز سامنے آئے ہیں، جس میں وہ گھر میں رہنے کا موزوں پیغام دے رہے ہیں۔ ہمارے گلوکاروں نے آن لائن کنسرٹ کیا ہے۔ شطرنج کے کھلاڑیوں نے ڈیجیٹل طریقے سے شطرنج کھیلا ہے اور اس طرح کے انھوں نے کووڈ-19 کے خلاف جنگ میں تعاون دیا ہے۔ کیا ہی بہترین اختراع ہے!

کام کی جگہ ڈیجیٹل فرسٹ ہوتی جارہی ہے اور کیوں نہیں؟

بہرحال ٹیکنالوجی کا سب سے زیادہ یکسر تبدیلی والا اثر اکثر غریبوں کی زندگی پر پڑتا ہے۔ ٹیکنالوجی ہی ہے جس نے بیوروکریسی سے متعلق درجہ بندیوں کو مٹادیا ہے، بچولیوں کا خاتمہ کردیا ہے اور فلاح و بہبود سے متعلق اقدامات میں تیزی لادی ہے۔

میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ جب 2014 میں ہمیں خدمت کا موقع ملا، ہم نے ہندوستانیوں بالخصوص غریبوں کو جن دھن کھاتا، آدھار اور موبائل نمبر سے جوڑنے کا کام شروع کیا۔

معمولی سے دکھائی دینے والے اس ربط نے دہائیوں سے چلی آرہی بدعنوانی اور کرایہ طلبی کو نہ صرف روک دیا  بلکہ حکومت کو بھی اس لائق بنادیا کہ وہ ایک بٹن کے کلک سے پیسہ منتقل کرسکے۔ بٹن کے اس ایک کلک نے فائل کے سلسلے میں مختلف سطحوں کی درجہ بندی اور ہفتوں کی تاخیر کو ختم کردیا ہے۔

شاید اس دنیا میں ہندوستان کے پاس اس طرح کا سب سے بڑا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ اس بنیادی ڈھانچے سے ہمیں غریبوں اور ضرورت مندوں تک براہ راست اور فوری طور پر پیسے منتقل کرنے میں زبردست مدد کی ہے، جس سے کووڈ-19 کی صورت حال میں کروڑوں کنبوں کو فائدہ ہوا ہے۔

ایک ایسا ہی معاملہ تعلیم کے شعبے سے جڑا ہوا ہے۔ کئی ممتاز پیشہ ور اس شعبے میں جدت طرازی کا کام کررہے ہیں۔ اس شعبے میں ٹیکنالوجی کو مضبوط کرنے کے اپنے فائدے ہیں۔ حکومت ہند نے بھی دیکشا (DIKSHA) پورٹل جیسی کوششیں کی ہیں، تاکہ اساتذہ کو مدد ملے اور ای-لرننگ کا عمل بھی مضبوط بنے۔ ایسی ہی ایک چیز سوایم (SWAYAM) ہے جس کا مقصد تعلیم کی رسائی،برابری اور معیار کو بہتر بنانا ہے۔ متعدد زبانوں میں دستیاب ای-پاٹھ شالہ ہمیں متعدد ای-بکس اور ایسے ہی دیگر تعلیمی مواد تک رسائی دیتا ہے۔

آج دنیا نئے بزنس ماڈل کی تلاش میں ہے۔

اپنے اختراعاتی جوش و جذبے کے لئے معروف جوانی سے بھرپور ہندوستان ایک نیا ورک کلچر فراہم کرنے میں قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ اس نئے بزنس اور ورک کلچر کو درج ذیل واویلس (حروف علت)  کی شکل میں متعارف کرایا جاسکتا ہے۔

میں انھیں – واویلس آف دی نیو نارمل – یعنی نئی معمولات کے متعلق حروف علت کہتا ہوں، کیونکہ انگریزی زبان میں جس طرح ان واویلس کی اہمیت ہے اسی طرح یہ کووڈ کے بعد کی دنیا میں کسی بھی بزنس ماڈل کا لازمی جزو ہوسکتے ہیں۔

 Adaptability (مطابقت پذیری):

وقت کی ضرورت ایسے بزنس اور لائف اسٹائل ماڈل (کاروبار اور طرز زندگی کے نمونے) کے بارے میں سوچنا ہے جو آسانی کے ساتھ اپنائے جاسکنے کے لائق ہوں۔

ایسا کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ بحران کے وقت میں بھی ہمارے دفاتر، کاروبار اور تجارت تیزی کے ساتھ بڑھ سکتے ہیں، جس سے یہ بات یقینی بنے گی کہ جانی نقصان نہ ہو۔

ڈیجیٹل ادائیگیوں کو اپنانا ایڈاپٹیبلٹی یعنی ذہنی اور جسمانی طور پر حالات کے مطابق خود کو ڈھال لینے کی اہلیت ، کی ایک بہترین مثال ہے۔ دکانوں کے مالکان چاہے وہ بڑی ہوں یا چھوٹی، کو چاہئے کہ وہ ڈیجیٹل ٹولس میں سرمایہ لگائیں، جس سے تجارت مربوط رہے گی، خاص طور پر بحران کے وقت میں۔ ہندوستان میں ڈیجیٹل لین دین میں زبردست اضافہ پہلے ہی نظر آرہا ہے۔

ایک دوسری مثال ٹیلی میڈیسن کی ہے۔ ہم کلینک یا ہاسپٹل جائے بغیر ڈاکٹروں سے صلاح و مشورہ لینے کا عمل دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی ایک مثبت علامت ہے۔ کیا ہم ایسے بزنس ماڈلس کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جس سے دنیا بھر میں ٹیلی میڈیسن کے نظام کو آگے بڑھانے میں مدد ملے۔

Efficiency (حسن کارکردگی):

شاید وقت آگیا ہے کہ جسے ہم مؤثر اور کارگر کہتے ہیں اس پر پھر سے غور کریں۔ کارکردگی کا مطلب صرف یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم نے دفتر میں کتنا وقت گزارا۔

ہمیں شاید ایسے ماڈل کے بارے میں سوچنا چاہئے جس میں پیداواریت اور کارکردگی کی اہمیت، کوشش کے ظہور سے زیادہ ہو۔ زور ایک مقررہ وقت کے اندر کام کی تکمیل پر ہونا چاہئے۔

Inclusivity (شمولیت پذیری):

ہمیں ایسا بزنس ماڈل تیار کرنا چاہئے جو غریبوں کی دیکھ بھال کو اولیت دے، جو ہمارے کرہ کی طرح سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہیں۔

ہم نے ماحولیاتی تبدیلی سے نبرد آزمائی میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ قدرت نے ہمیں اپنا جاہ و جلال دکھایا ہے، اس نے ہمیں یہ دکھایا ہے کہ یہ کتنی تیزی سے پھل پھول سکتی ہے جب انسانی سرگرمیوں نسبتاً دھیمی ہوجائے۔ ایسی ٹیکنالوجی اور طور طریقوں کو فروغ دینے کا شاندار مستقبل ہے جو کرہ پر ہمارے اثر کو کم کردے۔ کم وسائل سے زیادہ کام نکالے۔

کووڈ-19 نے ہمیں اس ضرورت کا احساس دلایا ہے کہ ہم ایسے ہیلتھ سالیوشن پر کام کریں جس کی لاگت کم ہو اور جس کا فائدہ بڑے پیمانے پر ہو۔ ہم عالمی کوششوں کے لئے ایک رہنما روشنی کا کام کرسکتے ہیں تاکہ انسانیت کی صحت و تندرستی کو یقینی بنایا جاسکے۔

ہمیں ایسی اختراعات میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے جو ہمارے کسانوں کی اطلاعات، مشینری اور بازاروں تک رسائی کو یقینی بناسکے، چاہے حالات جیسے ہوں، اور یہ کہ ہمارے شہریوں کی رسائی ضروری اشیاء تک ہو۔

Opportunity (موقع):

بحران بھی اپنے ساتھ موقع لے کر آتا ہے۔کووڈ-19 بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ آئیے ہم جائزہ لیں کہ نئے مواقع ؍ ترقی کے شعبے کیا کیا ہوسکتے ہیں۔

حالات میں الجھنے کے بجائے، ہندوستان کو کووڈ کے بعد کی دنیا میں موجودہ طریقہ کار سے آگے بڑھنا چاہئے۔ آئیے ہم اس بارے میں سوچیں کہ کیسے ہمارے لوگ، ہماری ہنرمندیاں، ہماری اصل صلاحیتیں اس کام کے لئے کیسے استعمال میں لائی جاسکتی ہیں۔

Universalism (آفاقیت):

کووڈ-19 حملہ کرنے سے پہلے، نسل، مذہب، رنگ، ذات، زبان یا سرحد نہیں دیکھتا، لہٰذا اس کے تئیں ہمارا ردّعمل اور رویہ بنیادی طور پر اتحاد اور اخوت کا ہونا چاہئے۔ ہم اس معاملے میں ساتھ ساتھ ہیں۔

تاریخ کے سابقہ لمحات کے برعکس، جب ممالک اور معاشرے ایک دوسرے کے مدمقابل سے آج ہم ایک مشترکہ چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے ساتھ ساتھ ہیں۔ مستقبل میں اہمیت اتحاد اور ابھرنے کی قوت کو ہی حاصل ہوگی۔

آئندہ ہندوستان سے جو بڑے تصورات سامنے آئیں ایسا ہو کہ انھیں عالمی مناسبت حاصل ہو اور اسے دنیا بھر میں اپنایا جائے۔ ان افکار میں ایسی اہلیت ہو کہ وہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری نسل انسانی مثبت تبدیلی کا محرک بنے۔

لوجسٹکس کو پہلے فزیکل انفرااسٹرکچر یعنی سڑکوں، ویئر ہاؤسیز، بندرگاہوں کے تناظر میں دیکھا جاتا تھا، لیکن لوجسٹکل ماہرین آج کل اپنے گھروں میں بیٹھ کر گلوبل سپلائی چین کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔

ہندوستان مادیت اور روحانیت کے صحیح امتزاج سے کووڈ-19 کے بعد کی دنیا میں پیچیدہ جدید کثیر ملکی سپلائی چین کے عالمی مرکز کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ آئیے ہم اس مرحلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور اس موقع کا فائدہ اٹھائیں۔

میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس کے بارے میں سوچیں اور اس مباحثے میں اپنا تعاون دیں۔

بی وائی او ڈی سے ڈبلیو ایف ایچ تک منتقلی سرکاری اور ذاتی زندگی  کے درمیان توازن قائم کرنے کے لئے نئے چیلنجز لے کر آئی ہے۔چاہے صورت حال جو ہو، فٹنس اور ورزش کے لئے وقت نکالیں۔ یوگا کو جسمانی اور ذہنی صحت کو بہتر بنانے والے ایک وسیلے کے طور پر آزمائیں۔

ہندوستان کے روایتی طبی نظامات جسم کو فٹ رکھنے میں اپنی مدد کے لئے جانے جاتے ہیں۔ آیوش کی وزارت نے ایک پروٹوکول پیش کیا ہے جس سے صحت مند رہنے میں مدد مل سکتی ہے، اس پر بھی نگاہ رکھیں۔

اخیر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ براہ کرم آروگیہ سیتو موبائل ایپ ڈاؤنلوڈ کریں۔ یہ مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ایک ایپ ہے جو کووڈ-19 کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے میں مدد کے لئے ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتا ہے۔ جتنا ہی اسے ڈاؤنلوڈ کیا جائے گا، اتنی ہی اس کی اثرانگیزی میں اضافہ ہوگا۔

آپ سب کی آراء کا انتظار رہے گا۔‘‘

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More