مرکزی وزیر جناب ہردیپ پوری نے کہاہے کہ زراعت اور کسان بہبود محکمے کا بجٹ گذشتہ 6سال کے دوران چھ گنا زیادہ ہوگیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے سوامی ناتھن کمیٹی کی سفارشات نافذ کرتے ہوئے پیداواری لاگت کے مقابلے ایم ایس پی 1.5 گنا تک بڑھا دی ہے۔ انھوں نےکہا کہ 14-2009 کے مقابلے 19-2014 میں ایم ایس پی خریداری پر خرچ ہونے والی رقم میں 85 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 14-2013 کے مقابلے 21-2020 میں تمام اہم فصلوں کے لئے ایم ایس پی میں 70-40 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گذشتہ سال کے مقابلے اس سال پنجاب میں ایم ایس پی پر دھان کی خریداری 25 فیصد سے زیادہ کی گئی ہے اور اس سال کی مجموعی خریداری کے مقابلے یہ 20 فیصد زیادہ رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پی ایم کسان یوجنا کے تحت 110000 کروڑ روپے کی رقم براہ راست کسانوں کے کھاتوں میں منتقل کی جاچکی ہے اور ابھی تک محض 17450 کروڑ روپے کے پریمیم پر کسانوں کو فصل بیمہ کے طور پر87000 کروڑ روپے کی ادائیگی کی جاچکی ہے۔
مرکزی وزیر نے بتایا کہ 1950 میں ہندوستان میںزراعتی شعبے کی ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں حصہ داریتقریباً 52 فیصد تھی، جبکہ ملک کی تقریباً 70 فیصد آبادی کو اس سے روزگار حاصل ہورہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ 2019 تک اس شعبے میں تقریباً 42فیصد آبادی اس سے روزگار حاصل کررہی تھی، لیکن جی ڈی پی میں اس کی حصہ داری صرف 16 فیصد تھی۔ وہیں سالانہ بنیاد پر اس کی شرح نمو محض 2 فیصد ہے۔
قومی زرعی و دیہی ترقیاتی بینک کے 2018 کے ایک مطالعے کا ذکر کرتے ہوئے جناب پوری نے کہا کہ مجموعی طور پر کسان گھرانوں میں سے 52.5 فیصد پر اوسطاً 1470 ڈالر (تقریباً 1.08 لاکھ روپے) کا قرض تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہماری زرعی پیداوار کا 30 فیصدحصہ کولڈ چین کا مناسب انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی کےسبب ضائع ہوجاتاہے۔ جناب پوری نے کہا کہ اسی وجہ سے فراہمی کا سلسلہ مسلسل کمزور بنا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں صارفین کے پاس پیداوار کے زیادہ متبادل نہیں ہوتے اور بربادی زیادہ ہوتی ہے اور قیمتیں انتہائی غیر مستحکم ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستانی کسان تبدیلیٔ موسمیات، بازار، بچولیوں ور ضروری انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی جیسی وجوہات کا بھی شکار ہے۔
جناب پوری نے کہا کہ زراعت کے ماہر اقتصادیات نے بھی ان اصلاحات کی سفارش کی تھی، جن سے ہمارے کسانوں کو اپنی فصل کھلی منڈیوں میں فروخت کرنے اجازت ملی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کچھ ریاستوں نے بھی ان اصلاحات کو کئی برس پہلے اپنا لیا تھا اور اس پر عمل درآمد شروع کردیا تھا۔ بہار اس کی ایک مثال ہے، جہاں قومی اوسط صرف 2 فیصد کے مقابلے زراعت کی اوسط شرح 6 فیصد ہے۔
جناب پوری نے زور دے کر کہا کہ حکومت نے بار بار کسانوں سے بات چیت کرنے اور ان کی تشویشات کو دور کرنے کے لئے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ریاستوں کو منڈیوں پر ٹیکس لگانے کی اجازت دی جائے گی۔ وہیں حکومت نے تنازعات کامتعینہ مدت میں حل کرنے کا میکانزم قائم کیا ہے اور متنازعہ معاملوں کو دیوانی عدالتوں میں لے جانے کی اجازت سے بھی حکومت نے اتفاق کیا ہے۔