نئی دہلی؍ نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہاہے کہ طالب علم کو ضابطے کا پابند رہنا چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ اس میں ملک کی ترقی کے تئیں بصیرت ہونی چاہئے۔ جناب نائیڈو نے آج ریاست ہریانہ کے کروکشیتر میں کروکشیتر یونیورسٹی کے سالانہ جلسئہ تقسیم اسناد کی 31 ویں تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر ہریانہ کے گورنر پروفیسر کپتان سنگھ سولنکی ، ہریانہ کے تعلیم کے وزیر جناب رام بلاس شرما اور دیگر معزز شخصیات بھی موجود تھیں۔
نائب صدر نے کہا کہ تعلیم اور روزگار کے درمیان ایک براہ راست رابطہ ہے اور انہوں نے طلباء سے کہا کہ وہ اپنی معلومات میں اضافہ کریں اور نئے مواقع حاصل کرنے کے لئے خود کو باصلاحیت اور ہنر مند بنائیں۔ انہوں نے طلباء کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ ملک و قوم کی خدمت کریں اور ملک کے لئے اپنا تعاون دیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم محض روزگار کے لئے نہیں ہے۔ یہ علم اور روشنی کو بڑھانے کے لیے بھی ہے،۔
نائب صدر جمہوریہ نے کھیلوں کو ترجیح دینے کے لئے حکومت ہریانہ کی تعریف کی اور ان جیتنے والے کھلاڑیوں کی بھی ستائش کی، جنہوں نے حالیہ دولت مشترکہ کھیلوں میں تمغے حاصل کئے ہیں۔ نائب صدر نے کہا کہ جمہوریت تمام متعلقہ مسائل پر بامعنی بحث و مباحثے کی اجازت دیتی ہے۔ انہوں نے مزیر کہا کہ صرف تعمیری بحث میں جوابات فراہم کرسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ احتجاج پرامن ہونا چاہیے اور کسی کو سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کا حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
عزت مآب گورنر و وائس چانسلر، کروکشیتر یونیورسٹی، عزت مآب وزیر تعلیم، عزت مآب پرو وائس چانسلر،انتہائی اہم مہمان، کروکشیتر یونیورسٹی کے سبھی اساتذہ کرام، سبھی طلباء و طالبات اور یہاں موجود معزز دوستوں!
کروکیشیتر یونیورسٹی کے اس 31ویں جلسئہ تقسیم اسناد کے مبارک موقع پر آپ سبھی کے درمیان حاضر ہوکر مجھے بے حد خوشی ہورہی ہے۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ آج مجھے اس مبارک کرم بھومی اور گیتا کی جائے پیدائش میں آپ سبھی کے درمیان آنے کا موقع ملا ہے۔ اس مبارک سرزمین کا نہ صرف ریاست ہریانہ میں ، بلکہ پورے بھارت اور کروڑوں بھارتیوں کے ذہن میں ایک خاص مقام ہے۔
کروکشیتر جسے گیتا میں دھرم چھیتر کہا گیا ہے، صدیوں پرانی ہماری تہذیب کی ثقافتی ، روحانی اور مادی خوشحالی کی علامت ہے۔ کروکشیتر کی اس قابل فخر تاریخ پر ہم سبھی باشندگان بھارت انتہائی فخر ہے۔
ہندوستانی عوام کے ذہن میں گیتا کی ابدی اہمیت سے ہم سبھی واقف ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ حکومت ہریانہ اس عظیم تخلیق کی وراثت کو سنبھال کررکھنے کے لئے ہر سال کروکشیتر میں ایک بین الاقوامی گیتا مہوتسو منعقد کرتی ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ حال ہی میں منعقد کئے گئے اس مہوتسو کے دوران کروکشیتر یونیورسٹی نے بھی گیتا پر ایک بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا ۔
آپ سبھی اساتذہ کرام اور طلباء و طالبات خوش نصیب ہیں کہ یہ پوتر برہما سروور کے جنوبی ساحل پر واقع اس یونیورسٹی کے لازمی جزو ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ سبھی اس جلسئہ تقسیم اسناد کے بعد بھی اس سرزمین اور اس پر واقع یونیورسٹی سے حاصل کی گئی قدروں پر عمل اور اس کی نشرواشاعت پوری زندگی کرتے رہیں گے۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس جلسئہ تقسیم اسناد میں 1500 سے زیادہ طلباء مختلف موضوعات میں ڈگریاں اور اپنی مخصوص حصولیابیوں کے لئے تمغے حاصل کررہے ہیں۔ میں ان سبھی طلباء کو ان کی نئی زندگی کی شروعات پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ یہ سبھی اپنی زندگی کے مقاصد کی تکمیل میں کامیاب ہوں گے۔ ساتھ ہی ذمہ دار شہری کی شکل میں قوم کی تعمیر میں سرگرم کردار ادا کریں گے۔
مجھے یہ جان کر دلی مسرت ہوئی ہے کہ کروکشیتر یونیورسٹی ریاست ہریانہ کی پہلی اے-پلس رینک کی یونیورسٹی ہے۔ فروغ انسانی وسائل کی وزارت نے حال ہی میں نہ صرف آپ کے ادارے کو ملک بھر کے ریاستی حکومتوں سے امداد یافتہ یونیورسٹیوں کے پہلے رینک والی فہرست میں رکھا ہے، بلکہ ان 60 منتخب اداروں کی فہرست میں بھی رکھا ہے، جنہیں خود مختاری دی گئی ہے۔
مجھے پورا یقین ہے کہ کروکشیتر یونیورسٹی حکومت ہند کی تعلیمی اداروں کو خود مختاری دینے کی اس پہل کا بھرپور فائدہ اٹھائے گی اور آئندہ برسوں میں ہریانہ ہی نہیں، بلکہ پور ے ملک میں ایک مثالی خود مختار ادارے کی شکل میں اپنی پہچان بنائے گی۔
1956ء میں اپنے قیام کے بعد کروکشیتر یونیورسٹی نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ کسی بھی ادارے کے لئے 6دہائیوں سے بھی زیادہ تک ایک قابل اعتبار اور باوقار تعلیمی ادارے کی شکل میں برقرار رہنا قابل ستائش حصولیابی ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ سبھی مل کر اپنی یونیورسٹی کو آئندہ برسوں میں حکومت ہند کی فروغ انسانی وسائل کی وزارت کے قومی ادارہ جاتی درجہ بندی ڈھانچے کی اگلی صف میں کھڑا کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
جیسا کہ آپ سبھی کو معلوم ہے کہ حکومت ہند ایک نئی تعلیمی پالیسی وضع کررہی ہے۔ نئی پالیسی کا نعرہ ہے ’’نئی شکشا نیتی کرے ساکار-گیان ، یوگیتا اور روزگار‘‘۔
تعلیم اور صنعت کے درمیان سیدھا تعلق ہے۔ اس تعلق کو اور زیادہ کارگر اور مفید بنانے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو ایک اقتصادی قوت کی شکل میں ابھارنے کی ہماری کوشش نے اچھی تعلیم و تربیت کا اہم رول ہے۔ اچھے طریقے سے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ انسانی وسائل بالخصوص اعلیٰ سطح پر ، ملک کی اقتصادی ترقی کی پہلی ضرورت ہے۔
میک اِن انڈیا، اسکل انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا اور اسٹینڈ اپ انڈیا جیسی حکومت ہند کی اہم اسکیموں کے تناظر میں ایک ترقی یافتہ اور منظم اعلیٰ تعلیمی ڈھانچے کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ان سبھی اسکیموں کی دیرپا کامیابی کے لئے ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ انسانی وسائل کا رول فیصلہ کن ہوگا۔
21ویں صدی میں تحقیق ، تعمیر نو اور تکنیکی علم کامیابی کی بنیاد ہے۔ ایک علم پر مبنی سماج کے قیام کی سمت میں ہمیں ان تینوں کی ضرورت ہوگی، اس لئے ہمارے ماہرین تعلیم اور طلباء کو ان تین بنیادی اصولوں کو اپنے طریقہ کار کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔
فی الحال بھارت دنیا کا سب سے نوجوان ملک ہے۔ ہماری آبادی کا تقریباً 65 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کی موجودگی کسی بھی ملک کے لئے ایک اہم بات ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنی آبادی کے اس مثبت پہلو کا بہتر استعمال کرکے ملک کی تعمیر کے عمل کو رفتار دیں۔ اس جلسئہ تقسیم اسناد میں ڈگریاں اور میڈل حاصل کرنے والے سبھی طلباء بھی اس کا جزو ہیں۔ ان سبھی کے لئے یہ تعلیم کا اختتام نہیں، بلکہ پیہم ترقی کے مسلسل سفر میں محض ایک پڑاؤ ہے۔اس تعلیمی ادارے نے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ سبھی عملی زندگی میں قدم بڑھانے جارہے ہیں، جہاں آپ کی ذریعے حاصل کئے گئے علم کا عملی تجربہ ہوگا۔ اس سفر میں آپ اپنے اہداف کو حاصل کریں اور قوم کی تعمیر میں مثبت تعاون دیں ایسی میری تمنا ہے۔
جب ہم قوم کی تعمیر میں آبادی کے اس منافع کے استعمال کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ بھی دھیان رکھانا چاہیے کہ قوم کی تعمیر کے عمل میں سماج کے سبھی طبقات بالخصوص سماجی و اقتصادی طورسے کمزور طبقات اور خواتین کی حصے داری پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔سماج کے سبھی طبقات کی جامع ترقی قوم کی تعمیر کا ایک لازمی پہلو ہے۔
ہم سبھی کو یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ ایک نوجوان ملک کے انسانہ وسائل کا بہتر استعمال حال اور مستقبل کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ہم اپنی نوجوان نسل کو اگر صحیح سمت دے سکیں تو آنے والے وقت میں ہندوستان ایک عالمی طاقت کی شکل میں ابھر سکے گا۔
ہماری اس نوجوان نسل کا آدھا حصہ ہماری بیٹیاں ہیں۔ بدلتے بھارت کی پہچان بن کر ابھر رہی ہماری بیٹیاں قوم کی تعمیر کے عمل میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ اپنی بیٹیوں کو تعلیم اور وہ بھی معیاری تعلیم دلانا ہمارے سماج کے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ اس سمت میں بیٹی پڑھاؤ-بیٹی بچاؤ مہم سنگ میل ثابت ہوئی ہے۔
تعلیم اور کھیلوں کے درمیان کس طرح تال میل قائم کیا جاسکتا ہےہریانہ اس کا ایک مثالی نمونہ ہے۔
باقاعدہ تعلیم کے ساتھ کھیلوں کو فروغ دینے کے لئے ہریانہ حکومت جو بنیادی ڈھانچے سے متعلق سہولتیں دستیاب کرانے کی کوشش کررہی ہیں، میں اس کی ستائش کرتا ہوں۔ حال ہی میں آسٹریلیا کے گولڈ کوسٹ میں ختم ہوئے دولت مشترکہ کھیلوں میں ہریانہ کے کھلاڑیوں کے ذریعے حاصل کی گئی شہرت اس بات کا ایک اور ثبوت ہے۔
فی الحال ایک نئے بھارت کی تعمیر کا عمل جاری ہے۔ اس مقصد کی تقسیم کے لئے حکومت ہند نے نوجوانوں کو مرکز میں رکھ کر مختلف اسکیمیں بنائی ہیں۔ میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے جوش اور توانائی کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ان اسکیموں کی کامیابی کے لئے متحد ہوکر کام کریں اور ایک نئے بھارت کی تعمیر میں اپنا اہم تعاون دیں۔
درحقیقت ہم جب ایک نئے بھارت کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد آج کے نوجوان بھارت سے ہوتی ہے۔ میں آپ سبھی نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس ملک کا حال اور مستقبل دونوں ہی ہیں۔ آپ اپنی یونیورسٹی، اساتذہ ، سرپرستوں، ثقافت و اقدار پر فخر کرتے ہوئے اپنی زندگی کے اہداف کو حاصل کریں۔
نئے ہندوستان کی تعمیر آپ کرسکتے ہیں۔ قدیم ہندوستان کےعلمی وسائل سے ترغیب لے کر مستقبل کے شاندار بھارت کے خواب کو حقیقت کی شکل دینے کی صلاحیت آپ میں ہے۔پوری زندگی درحقیقت کروکشیتر ہے، دھرم چھیتر ہے۔ کام کرنا لازمی ہے۔ کام اچھی طرح ، مہارت کے ساتھ کریں گے تو وہ یوگ بن جاتا ہے۔ جب زندگی میں راستہ منتخب کرنا پڑتا ہے، تب آپ دھرم کے راستے کو منتخب کریں۔ سچائی ، ایمانداری اور بھلائی کا راستہ منتخب کیجئے۔
تعلیم سے ہمارے اندر نرمی آنی چاہئے، باصلاحیت شخصیت کا فروغ ہونا چاہئے، اہل بننے کا وسیلہ بننا چاہئے۔ اس صلاحیت کو دنیا کو خوبصورت، خوشحال، ہم آہنگ بنانے کا سنسکار ہمیں دینا چاہیے۔ یہی بھگوت گیتا اور دیگر بھارتی مفکرین کی فکر کا خلاصہ رہے ہیں۔ ان افکار سے ترغیب لے کر ایک نئے بھارت کا تصور کرکے اسے وجود بخشیں۔
میں آپ سبھی کو کامیاب اور بامقصد مستقبل کے لیے مبارکباد دیتاہوں۔ ایک بار پھر آپ سبھی کو اس جلسئہ تقسیم اسناد کے لئے مبارکباد دیتا ہوں۔