نئی دہلی؍ ،صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند نے آج نئی دہلی کوجیسس اینڈ میری کالج کے جشن طلائی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کیا۔
اس موقع پر اظہار خیا ل کرتے ہوئے صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ جیسس اینڈ میری کالج کے جشن طلائی کی تقریبات کا افتتاح کرنا، ان کے لئے اعزاز کی بات ہے ۔ اس ادارے نے نئی دہلی اور ہمارے ملک میں تعلیم کے کاز کو فروغ دینے میں زبردست تعاون دیا ہے۔ پانچ دہائیوں سےاس ادارے نے دوشیزاؤں کو نادیدہ دیوار گرانے کی تعلیم دے کر تیار کیا ہے تاکہ وہ اپنے مضمرات کو بروئے کار لاسکیں اور معاشرے اورمعیشت میں اپنا قابل قدر تعاون دے کر تعمیر قوم کا حصہ بن سکیں۔
صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ عیسائی برادری ۔ جس کی تاریخ بھارت میں 2 ہزار سال پرانی ہے اور جس نے ہماری مالامال ثقافت میں کافی تعاون دیا ہے،تعلیم کے شعبے میں اپنے لئے ایک خصوصی مقام پیدا کیا ہے۔ مشنری ادارے جیسا کہ یہ ایک ادارہ ہے ، علمیت ، لگن اور محنت پر مبنی تدریس اور تعلیمی عمدگی کی علامت بن چکے ہیں ۔ یہ بالکل معقول بات ہے کیونکہ تمام مذاہب اپنی اصل کے لحاظ سے ہمیں یہی تعلیم دیتے ہیں کہ ہم پڑھیں آگے بڑھیں اور علم کی ذریعے بصیرت حاصل کریں اور اس کی مدد سے بہتر انسان بنیں۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ تعلیم کا مقصد محض علم حاصل کرنا نہیں ہے۔ وہ تو محض ایک ابتدائی مرحلہ ہوتا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایک شخص جو علم حاصل کرتا ہے، اسے وہ ہم میں سے پچھڑے اور نادار افراد کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرے۔ صحیح معنی میں تعلیم یافتہ وہ افراد نہیں ہیں، جو ڈگریاں بٹورتے ہیں بلکہ صحیح معنی میں تعلیم یافتہ افراد تو وہ لوگ ہیں جو ان ڈگریوں اور ان میں مضمر علمیت کا استعمال ہمارے معاشرے میں، معمار قوم بننے کے لئے کرتے ہیں۔ جیسس اینڈ میری کالج، دیگر اداروں کے لئے ایک نمونہ ہے۔ یہ بات ازحد مسرت کی ہے کہ اس کالج نے اپنے جشن طلائی میں اپنی ہم سائیگی میں واقع، این ڈی ایم سی اسکول کو اپنا شراکت دار بنایا ہے اور اس اسکول اور اس کے بچوں کی ترقی کا راستہ ہموار کیا ہے۔یہ سماج کو اپنی جانب سے کچھ دینے کی ایک قابل ستائش مثال ہے۔ دیگر کالج بھی اس کی تقلید کر سکتے ہیں۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ بھارت کثیر النوع تبدیلیوں کے عمل سے گزررہا ہے ۔ ہم قدیم تہذیب ہونے کے باوجود نوجوان ہیں۔ 21 ویں صدی کے نصف حصے میں دنیا کے کسی دیگر ملک کے مقابلے میں ،ہمارے ملک میں، سب سے زیادہ تعداد میں، نوجوان افراد ہوں گے۔ یہ بات از حد اہم ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی توانائی کو بروئے کار لایا جائے۔ اس کا استعمال ہمارے ملک کو ایک ترقی یافتہ معاشرے میں بدلنے کے لئے کیا جائے۔ اس عمل میں تعلیم کی بنیادی اہمیت ہے۔ اس کے لئے تعلیم تک رسائی اور تعلیم کی کوالٹی، دونوں اہم امور ہیں۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ معیشت کی نوعیت اور کام کاج کے مقام کا تصور، دونوں بدل رہے ہیں۔ چوتھے صنعتی انقلاب اور ڈیجیٹائیشن نیز روبوٹکس میں ہونے والی پیش رفت، مخصوص طرز کے پیشوں کو فرسودہ بنادےگی اور متعدد دیگر مواقع بھی فراہم کرے گی۔ تاہم ہمارا معاشرہ ان ڈرامائی تبدیلیوں سے خود کو کس طرح ہم آہنگ کرتا ہے، اس کا انحصار، اس عمل پر ہوگا کہ اعلیٰ تعلیم ے ہمارے سرکردہ ادارے، جیسے کہ جیسس اینڈ میری کالج ایک ادارہ ہے، اپنی جانب سے کیسا ردعمل پیش کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے اعلیٰ تعلیمی نظام کو ترقی دینی ہوگی اور جہاں تک ممکن ہو سکے، اسے مستقبل کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ہمارا تعلیمی بنیادی ڈھانچہ، ہمارا نصاب اور تدریس کے طریقے، ایسے ہونے چاہئیں، جو 21 ویں صدی کے تقاضوں کی تکمیل کرسکیں اور ہمہ وقت رو نما ہونے والی تبدیلیوں سے خود کو ہم آہنگ رکھنے کی صلاحیت کے حامل ہوں۔