نئی دلّی ،صدر جمہوریہ ہند کا عہدہ سنبھالنے کے موقع پر، 14 ویں صدر جمہوریہ ہند ،جناب رام ناتھ کووند نے آج راشٹر پتی بھون ، نئی دلی میں سابق صدر جمہوریہ ہند ، نائب صدر جمہوریہ ، وزیر اعظم ، اسپیکر ، جسٹس کھیہر اور معزز مہمانان کی موجودگی میں جو تقریر کی ، اس کا متن درج ذیل ہے : ۔
’’ عزت مآب جناب پرنب مکھرجی ،
جناب حامد انصاری ،
محترمہ سمترا مہاجن ،
جسٹس جناب جے ایس کھیہر ،
معزز مہمانان ،
خواتین و حضرات ، اور ہم وطنو ،
بھارت کے صدر جمہوریہ کے عہدہ کی ذمہ سونپنے کے لئے میں آپ سبھی کادل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ، میں پوری انکساری کے ساتھ اس عہدے کو قبول کر رہا ہوں ۔ یہاں مرکزی ہال میں آ کر میری کئی پرانی یادیں تازہ ہو گئی ہیں ۔ میں ممبر پارلیمنٹ رہا ہوں اور اسی مرکزی ہال میں، میں نے آپ میں سے کئی لوگوں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا ہے ۔ کئی بار ہم متفق ہوتے تھے ، کئی بار غیر متفق ۔ لیکن اس کے با جود ہم سبھی نے ایک دوسرے کے خیالات کا احترام کرنا سیکھا ۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے ۔
میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں مٹی کے گھر میں پلا بڑھا ہوں ۔ میرا سفر بہت طویل رہا ہے ، لیکن یہ سفر اکیلے صرف میرا نہیں رہا ہے ۔ ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے کی بھی یہی کہانی رہی ہے ۔ ہر چیلنج کے باوجود ، ہمارے ملک میں ، ہمارے آئین میں واضح انصاف ، آزادی ، مساوات اور بھائی چارہ کے اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے اور میں اس اصول پر ہمیشہ عمل پیرا رہوں گا ۔
میں اس عظیم ملک کے 125 کروڑ شہریوں کو سلام کرتا ہوں اور انہوں نے مجھ پر جو اعتماد ظاہر کیا ہے ، اس پر کھرا اترنے کا عہد کرتا ہوں ۔ مجھے اس بات کا پورا احساس ہے کہ میں ڈاکٹر راجندر پرساد ، ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن ، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اور سابق صدر جناب پرنب مکھرجی ، جنہیں ہم پیار سے ’’ پرنب دا ‘‘ کہتے ہیں ، جیسی ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے جا رہا ہوں ۔
ساتھیو ،
ہماری آزادی ، مہاتما گاندھی کی قیادت میں ہزاروں مجاہدین آزادی کی کوششوں کا نتیجہ تھی ۔ بعد میں سردار پٹیل نے ہمارے ملک کو متحد کیا ۔ ہمارے آئین کے خاص معمر بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر نے ہم سبھی کو انسانی وقار اور جمہوری اصولوں کے تئیں حساس بنایا ۔
وہ اس بات سے مطمئن نہیں تھے کہ صرف سیاسی آزادی ہی کافی ہے ۔ ان کے لئے ہمارے کروڑوں لوگوں کی اقتصادی اور سماجی آزادی کا حصول بھی بہت اہمیت کا حامل تھا ۔
اب آزادی حاصل ہوئے 70 برس پورے ہونے جا رہے ہیں ۔ ہم اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں ہیں ۔ وہ صدی ، جس کے بارے میں ہم سبھی کو بھروسہ ہے کہ یہ بھارت کی صدی ہوگی ، بھارت کی حصولیابیاں ہی اس صدی کی سمت اور خاکہ تیار کریں گی ۔ ہمیں ایک ایسے بھارت کی تخلیق کرنا ہے جو اقتصادی قیادت کے ساتھ ہی اخلاقی اقدار بھی پیش کرے ۔ ہمارے لئے یہ دونوں پیمانے کبھی الگ نہیں ہو سکتے ۔ یہ ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور انہیں ہمیشہ ایک دوسرے سے وابستہ ہی رہنا ہوگا ۔
ساتھیو ،
ملک کی کامیابی کا راز اس کی گونا گونی میں مضمرہے ۔ گونا گونی ہی ہماری وہ بنیاد ہے جو ہمیں بے مثال بناتی ہے ۔ اس ملک میں ہمیں ریاستوں ، علاقوں ، مذاہب ، زبانوں ، ثقافتوں ، طرز حیات جیسی متعدد باتوں کا مرقع دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ہم بہت الگ ہیں لیکن پھر بھی ایک ہیں اور ایک جٹ ہیں ۔
اکیسویں صدی کا بھارت ، ایسا بھارت ہوگا جو ہماری دیرینہ اقدار کے مطابق ہونے کے ساتھ ساتھ چوتھے صنعتی انقلاب کو توسیع دے گا ۔ اس میں نہ کوئی اختلاف ہے اور نہ ہی کسی متبادل کا سوال اٹھتا ہے ۔ ہمیں اپنی روایات اور انجینئرنگ ، قدیم بھارت کے علوم اور قدیم بھارت کی سائنس کو ساتھ لے کر چلنا ہے ۔
ایک طرف جہاں گاؤں پنچایت کی سطح پر سماجیاتی جذبے کے ساتھ تبادلہ خیالات کر کے مسائل کو حل کرنا ہوگا ، وہیں دوسری جانب ڈیجیٹل قوم ہمیں ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچانے میں مدد کرے گی ۔ یہ ہماری قومی کوششوں کے دو اہم ترین ستون ہیں ۔
قوم کی تعمیر محض حکومت کے ذریعہ نہیں کی جا سکتی ۔ حکومت معاون ہو سکتی ہے ، وہ معاشرے کی صنعت کار اور خلاقانہ صلاحیت کو سمت دے سکتی ہے ، محرک بن سکتی ہے ۔ قوم کی تعمیر کی بنیاد ہے قومی وقار ۔
* ہمیں فخر ہے ۔ بھارت کی مٹی اور پانی پر
ہمیں فخر ہے ۔ بھارت کی گونا گونی ، تمام مذاہب کے تئیں یکساں نظریہ اور شمولیت پر مبنی انداز فکر پر
ہمیں فخر ہے ۔ بھارت کی ثقافت ، روایات اور روحانیت پر
* ہمیں فخر ہے ۔ ملک کے ہر ایک شہری پر
* ہمیں فخر ہے ۔ اپنے فرائض کی ادائیگی پر اور
* ہمیں فخر ہے ۔ ہر چھوٹے سے چھوٹے کام پر جو ہم روزانہ کرتے ہیں ۔
ساتھیو ،
ملک کا ہر شہری معمار قوم ہے ۔ ہم میں سے ہر ایک شخص بھارتی روایات اور اقدار کا محافظ ہے اور یہی وراثت ہم آنے والی نسلوں کو دے کر جائیں گے ۔
* دیش کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے اور ہمیں محفوظ رکھنے والے حفاظتی دستے ، قوم کے معمار ہیں ۔
* جو پولیس اور نیم فوجی دستے ، دہشت گردی اور جرائم سے لڑ رہے ہیں ، وہ معمار قوم ہیں ۔
* جو کسان تپتی دھوپ میں دیش کے لوگوں کے لئے اناج پیدا کر رہے ہیں ، وہ معمار قوم ہیں ۔ اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئیے کہ کھیت میں کتنی بڑی تعداد میں خواتین بھی کام کرتی ہیں ۔
* جو سائنس داں 24 گھنٹے انتھک محنت کر رہا ہے ، بھارتیہ خلائی مشن کو منگل تک لے جا رہا ہے یا کسی ویکسین کی ایجاد کر رہا ہے ، وہ معمار قوم ہے ۔
* جو نرس یا ڈاکٹر دور دراز کسی گاؤں میں ، کسی مریض کی سنگین بیماری سے لڑنے میں اس کی مدد کر رہے ہیں ، وہ معمار قوم ہیں ۔
* جس نو جوان نے اپنا اسٹارٹ اپ شروع کیا ہے اور اب خود روزگار دینے والا بن گیا ہے ، وہ معمار قوم ہے ۔ یہ اسٹارٹ اپ کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ کسی چھوٹے سے کھیت میں آم سے اچار بنانے کا کام ہو ، کاریگروں کے کسی گاؤں میں قالین بافی کا کام ہو یا پھر کوئی لیباریٹری ، جسے بڑی اسکرینوں سے روشن کیا گیا ہو ۔
* وہ قبائلی اور عام شہری جو تبدیلی آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹنے میں ہمارے ماحولیات ، ہمارے جنگلات ، جنگلاتی زندگی کا تحفظ کر رہے ہیں اور وہ لوگ جو توانائی کی