16.7 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

30.76 لاکھ مکانات اب تک پی ایم اے وائی (یو) کے تحت منظور ہوچکے ہیں

Urdu News

نئی دہلی؛ ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت میں وزیر مملکت (آزادانہ چارج) جناب ہردیپ سنگھ پوری نے اطلاع دی ہے کہ 25 جون 2015 کو پردھان منتری آواس یوجنا (پی ایم اے وائی) (یو) کے آغاز کے بعد سے لے کر اب تک کی مدت میں، حکومت نے 30.76 لاکھ مکانات کی تعمیر کے لیے اپنی منظوری دی ہے۔ فی الحال 15.65 لاکھ مکانات کی داغ بیل پڑ چکی ہے اور یہ مکانات تعمیرات کے مختلف مرحلوں میں ہیں اور 4.13 لاکھ مکانات مشن کے آغاز سے اب تک کی مدت میں تعمیر کیے جاچکے ہیں۔ شہری مشنوں یعنی پی ایم اے وائی (شہری) اور سووچھ بھارت مشن کے نفاذ کی رفتار تیز کرنے سے متعلق قومی ورکشاپ کا آج یہاں افتتاح کرتے ہوئے، وزیر موصوف نے کہا کہ شہری بھارت طبیعاتی شکلوں، آبادی کے منظر نامے اور سماجی- اقتصادی گوناگونی کے زاویے سے تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ قومی اقتصادی عمل میں شہروں کا اہم کردار اور ان کے عالمی روابط ، ان کی ترقیات پر مزید توجہ دینے کا تقاضہ کرتے ہیں اور وہ توجہ اس سے کہیں زیادہ درکار ہے ، جو اب تک دی گئی ہے۔ شہروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ روزگار، تجارت، کاروبار اور صنعت اور دیگر خدمات کے سلسلے میں ابھرتے ہوئے تقاضوں اور ضروریات کی فراہمی میں مؤثر طریقے سے اہل ثابت ہوں گے۔ ہاؤسنگ سیکٹر ،ترقی کا وہ ذریعہ ہے، جو مذکورہ تمام ضروریات اور اقتصادی ترقی کو عملی شکل دیتا ہے۔ یہ معیشت کا ایک اہم شعبہ ہے ، جو روزگار فراہم کرتا ہے، ٹیکس فراہم کرتا ہے اور کارکنان کو اجرت بھی فراہم کرتا ہے، جو مثبت طور پر انداز حیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ حکومت نے ایک اولوالعزم منصوبہ شروع کیا ہے جس کے تحت بھارتی شہریوں کو 2022 تک بااختیار بنایا جانا ہے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ 2022 میں آزادی کے 75 برس مکمل ہوجائیں گے۔ ایچ یو اے کے سکریٹری جناب درگا شنکر مشرا اور متعدد ریاستوں کے افسران اور صنعتی ایسو سی ایشنوں کے نمائندگان بھی اس کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں۔

دن بھر چلنے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ ہاؤسنگ کے لیے مقامی مطالبات 12 ملین کے قریب ہیں۔ انھوں نے مطلع کیا ہے کہ حکومت نے واجبی لاگت والی ہاؤسنگ کی فراہمی کے لیے بنیادی ڈھانچے کو منظم کرنے کے متعدد اقدامات شروع کیے ہیں۔ آمدنی ٹیکس ایکٹ کی دفعہ 80-1 بی اے کے تحت، ٹیکس فوائد کی فراہمی، ایف ڈی آئی اور ای سی بی تجاویز کے معاملے میں رعایات کی فراہمی، طویل المدت اہم فوائد کے لیے ہولڈنگ پیریڈ میں تخفیف ، کارپیٹ ایریا کے معیاراتی استعمال اور اس کی تعریف کو از سر نو متعین کرنا، اسٹامپ محصول کے سلسلے میں اصلاحات پر زور اور ایک ہی مقام پر تمام تر منظوریوں کی سہولت جیسے اقدامات کیے گئے ہیں اور وزارت نے انہیں سرگرمی سے لاگو کرنے کی کوشش کی ہے۔

پی ایم اے وائی( یو) کے تحت حاصل کی گئی پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر موصوف نے مطلع کیا کہ اس نے گذشتہ مشنوں کے مقابلے میں قابل ذکر ترقی حاصل کی ہے۔ اگر پی ایم اے وائی (یو) کا باریکی سے تجزیہ کیا جائے تو دستیاب انتصابی اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی ایل سی اور اے ایچ پی کے تحت بیشتر پروجیکٹ جو اس مشن کے تحت شروع کیے گئے ہیں ان میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔ آج کا یہ مذاکرہ اپنے موضو ع پر بطور خاص مرکوز ہے۔ ہم سب یہاں اُن تمام رکاوٹوں اور رخنوں پر غور و فکر کے لیے جمع ہوئے جو ریاستوں/ مرکزی انتظام کے علاقوں کی ترقی کو روکتے ہیں اور جن کا تعلق تنگ اور گندی بستیوں کی بازآبادکاری ،جائے موقع پرضروریات کا حل نکالنے اور شراکت داری کے پس منظر میں واجبی لاگت والی ہاؤسنگ کی فراہمی سے ہے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ آئی ایس ایس آر، اعدادو شمار اور گوشوارے کچھ چنوتیوں کے حامل ہیں کیونکہ ان کے نفاذ میں فائنانسنگ ماڈل، نجی ڈویلپروں کے انتخاب، استفادہ کنندگان کی شراکت اور ریاستوں/ مرکزی انتظام کے علاقوں کی پالیسی کی تشویشات آڑے آرہی ہیں۔ ریاستوں/ مرکزی انتظام کے علاقوں کے لیے یہ بات کلیدی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ اپنے طور پر تنگ بستیوں سے پاک رہائش کی فراہمی کا نظریہ اپنائیں اور اپنے شہروں کو جامع طور پر آئی ایس ایس آر اعداد و شمار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تنگ بستیوں کو از سر نو ترقی دینے کے امر پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ جناب پوری نے ریاستوں کو تلقین کی کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ قرض سے وابستہ سبسڈی تک (سی ایل ایس ایس) زیادہ سے زیادہ افراد تک رسائی ممکن ہوسکے اور بینکنگ اداروں، نجی شعبے اور استفادہ کنندگان کے مابین بہتر تال میل قائم ہوسکے۔ ایک طرف اے ایچ پی اعدادوشمار اور گوشواروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سمت میں خاطر خواہ پیش رفت ضرور ہوئی ہے تاہم اے ایچ پی اعدادو شمار کی روشنی میں زیادہ بہتر طور پر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے فائنانسنگ ماڈل ہر طرح کی رکاوٹ اور واجبات سے آزاد آراضی کی فراہمی ، نجی شعبے کی شرکت وغیرہ پر زیادہ دھیان دیا جائے تاکہ ہاؤسنگ کے مطالبات کی تکمیل ممکن ہوسکے۔ اور اقتصادی لحاط سے کمزور طبقات کی جانب سے ہاؤسنگ کے مطالبات کو آراضی کی عدم ملکیت کی صورت میں بھی پورا کیا جاسکے۔

استفادہ کنندگان سے متعلق تعمیرات (بی ایل سی) انتصابات سے ابھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر نفاذ کا عمل مکمل ہوا ہے۔ ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے سرگرمی سے اس انتصابی صورتحال پر عمل کیا ہے، جہاں ایک فرد واحد کے پاس اپنی زمین ہو، پالیسی کے لحاذ سے اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ ان مالک مکانات کا بھی تحفظ ممکن ہوسکے، جن کے پاس اپنی زمین کی ملکیت نہیں ہے اور یہ کام اے ایچ پی اور سی ایل ایس ایس کے عناصر کے تحت ہوگا۔ یہ بات ازحد اہم ہے کہ ہم بطور شراکت دار مجموعی طور پر پوری صورتحال سے باخبر ہوں اور خصوصاً آئی ایس ایس آر، اےا یچ پی اور سی ایل ایس ایس انتصابات کے معاملے میں نفاذ کی حکمت عملی پر مضبوطی سے عمل درآمد ہوسکے۔

ہاؤسنگ کے مطالبات کی سمت کیے گئے اقدمات پر توجہ مرکوز کرتےہوئے، وزیر موصوف نے مطلع کیا کہ ایک سازگار ماحول بنانے کے لیے ان کی وزارت نے حال ہی میں واجبی لاگت والی ہاؤسنگ کے لیے 8 پی پی پی ماڈل شروع کیے ہیں جو ہاؤسنگ ٹیکنالوجی چیلنجوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیے گئے ہیں تاکہ ہاؤسنگ کے شعبے میں جدید ترین ایجادات اور جدت طرازیوں کو جگہ مل سکے۔ انھوں نے بتایا کہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ ماڈل جو واجبی لاگت والی ہاؤسنگ کے لیے اپنایا گیا ہے، اس کا آغاز اس مقصد سے کیا گیا ہے کہ کچھ شناخت شدہ چنوتیوں کا حل نکالا جاسکے اور مشن کے مقاصد کو تقویت دی جاسکے۔ مقصد یہ ہے کہ پی پی پی ماڈلوں کے ذریعے ہمہ گیر نتائج ہاتھ آئیں، جن کی روشنی میں آدھی رفتار سے آگے بڑھ رہی منڈی کو اراضی کی دستیابی کی چنوتی اور اونچی لاگت کا سامنا کرنے کے لائق بنایا جاسکے۔ انھوں نے کہا کہ نجی شعبے کی شراکت سے مالیات اور پونجی منڈی تک رسائی میں اضافہ ہوگا اور تعمیرات ،آپریشن اور مکانات کی بروقت فراہمی کے ذریعے لاگت میں کمی آئے گی اور دیگر فوائد حاصل ہوں گے۔

وزیر موصوف نے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے گزارش کی کہ وہ آئی ایس ایس آر اور اے ایچ پی کی پیش رفت کے لیے سرگرمی سے اس عمل میں شریک ہوں، اپنا تعاون دیں اور عمل پر مبنی طریقہ کار اپنائیں۔ وزیر موصوف نے کہا کہ نجی شعبہ، ریاستی حکومت اور سیاسی طور پر بااثر تنظیموں اور اداروں کو باہم مل کر مشن کے مقاصد کو آگے بڑھانا چاہیے اور اپنے وسائل اور توانائی کو پبلک ہاؤسنگ میں لگانا چاہئے۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More