سب سے پہلے میں ان تین انتہائی ممتاز بھارتی سائنسدانوں کو خراج عقیدت پیش کروں گا ، جنہیں ہم نے حال ہی میں کھویا ہے-پدم وبھوشن پروفیسر یشپال ، پدم وبھوش پروفیسر یو آر راؤ اور پدم شری ڈاکٹر بلدیو راج ۔ ان سبھی نے بھارتی سائنس اور تعلیم میں نمایاں تعاون کیا ہے۔
ہمیں اپنے وقت کے عظیم ماہر طبیعات اسٹیفن ہاکنگ کی موت پر بھی پوری دنیا کے دکھ میں شریک ہونا چاہئے، جو جدید علم فلکیات کے انتہائی تابناک ستاروں میں سے ایک تھے۔ ہاکنگ کو عام لوگ بلیک ہالس کے لئے ان کے کام کی وجہ سے نہیں جانتے، بلکہ ہر قسم کی مشکلات کے خلاف ان کی غیر معمولی عہدبستگی کی وجہ سے جانتے ہیں۔انہیں دنیا کی عظیم ترین تحریک دینی والی شخصیت کے طورپر یاد رکھا جائے گا۔
مجھے خوشی ہے کہ میں انڈین سائنس کانگریس کے 105ویں اجلاس کے موقع پرامفال میں موجود ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ میں ان سائنسدانوں کے درمیان ہوں، جن کے کام مستقبل کےلئے بہتر راہ ہموار کریں گے۔ مجھے اس اہم تقریب کی میزبانی کرنے والی منی پور یونیورسٹی کو دیکھ کر بھی خوشی ہوئی ہے۔ یہ یونیورسٹی شمال مشرق میں اعلیٰ تعلیم کے مرکز کے طورپر ابھر رہی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ آدھی صدی سے بھی زیادہ عرصے میں دوسرا موقع ہے، جب انڈین سائنس کانگریس شمال مشرق میں منعقد کی جارہی ہے۔یہ شمال مشرق کے ابھرتے ہوئے جذبہ کے عکاسی ہے۔
یہ مستقبل کےلئے اچھی پیش گوئی ہے۔ سائنس عہد قدیم سے ہی ترقی اور خوشحالی کا دوسرا نام رہی ہے۔ ہماری قوم کے بہترین سائنسی ذہن ، آپ سب یہاں جمع ہیں جو علم ، اختراعات اور انٹرپرائز کے پاور ہاؤس ہیں اور اس تبدیلی کو آگے بڑھانے کے لئے بہترین طریقے سے آراستہ ہیں۔
یہ وقت ’آر اینڈ ڈی‘ کی پھر سے ریسرچ فار ڈیولپمنٹ(تحقیق برائے ترقی) کے طورپر تشریح کرنے کے لئے نہایت موزوں ہے۔ سائنس بہرحال ایک عظیم اختتام کا ذریعہ ہے، یعنی انسانی ترقی اور بہبود کو فروغ دینے اور دوسروں کی زندگی میں تبدیلی لانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہ وقت 125 کروڑ بھارتیوں کے لئے بجلی اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ زندگی جینے کو آسان بنانے کی خاطر خود کو وقف کرنے کے لئے بہت موزوں ہے۔
میں آج منی پور کی اس بہادر سرزمین پر کھڑا ہوں، جہاں اپریل 1944ء میں نیتا جی سبھاش چندر بوس کی آئی این اے آزادی کا نعرہ دیا تھا۔ آپ جب منی پور سے جائیں گے تو مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے ملک کے لئے کچھ ایسا کرنے کا جذبہ لے کر جائیں گے، جو ہمیشہ باقی رہے۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ آ پ ان سائنسدانوں کے ساتھ قریبی تعاون سے کام کریں گے، جن سےیہاں آپ کی ملاقات ہوئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سائنس اورٹیکنالوجی کے بڑے مسائل کا مؤثر حل تلاش کرنے کے لئے مختلف شعبوں کے سائنسدانوں کے درمیان قریبی تعاون اور تال میل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مرکزی حکومت نے سائنس کے شعبے میں شمال مشرقی ریاستوں کے لئے کئی نئے پروگرام شروع کئے ہیں۔ گرامین کرشی موسم سیوا کے تحت زراعت سے متعلق موسمیاتی خدمات فراہم کی جارہی ہیں، اس سے 5 لاکھ سے زیادہ کسانوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ہم اب اس نیٹ ورک کو شمال مشرق کے تمام اضلاع میں توسیع دینے کا کام کررہے ہیں۔کئی نئے مراکز شمال مشر ق میں سائنس اور ٹیکنالوجی پر کام کررہے ہیں۔ منی پور میں روایتی اداویات سے متعلق تحقیقی مرکز قائم کیا گیا ہے۔ یہ مرکز شمال مشرقی خطے میں دستیاب جڑی بوٹیوں پر تحقیق کا کام کرے گا، جو منفرد طبی اور عطریات کی خصوصیات سے مالا مال ہیں۔
آب و ہوا میں تبدیلی کے ریاستی مراکز 7 شمال مشرقی ریاستوں میں قائم کئے گئے ہیں۔ یہ مراکز خطرات کا تجزیہ کریں گے اور آب و ہوامیں تبدیلی سے متعلق عوام میں بیداری پیدا کریں گے۔ ہم نے بانس کو پیڑوں کے زمرے سے ہٹا دیا ہے او راسے گھاس کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے، کیونکہ سائنسی طورپر یہ گھاس ہی ہے۔ اس کے لئے ہم نے کئی دہائی پرانے قانون میں ترمیم کی ہے۔ اس ترمیم سے بانسوں کی بلا رکاوٹ نقل و حمل کی جاسکے گی۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جاسکے گا کہ بانس کی پیداوار اور اس کے استعمال کرنے والے مراکز آپس میں مربوط رہیں۔اس سے بانس پیدا کرنے والے کسانوں کو بھرپور فائدہ حاصل ہو سکے گا۔ حکومت 1200 کروڑ روپے کے فنڈ سے نیشنل بمبو مشن (قومی بانس مشن) کی بھی تجدید کررہی ہے، اس فیصلے سے منی پور جیسی ریاست کو بہت فائدہ ملے گا۔
دوستو!
انڈین سائنس کانگریس کا ایک عظیم ورثہ ہے۔ اس کی قیادت آچاریہ جے سی بوس ، سی وی رمن، میگھناد ساہا اور ایس این بوس جیسے عظیم سائنسدانوں نے کی ہے۔ نئے بھارت کو ان عظیم سائنسدانوں سے کارکردگی کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی تحریک حاصل کرنی چاہئے۔ ہماری گفتگو کئی مواقع پر میں نے سائنسدانوں پر زور دیا ہے کہ ہماری سماجی اقتصادی مسائل کا حل تلاش کریں۔ میں نے ان پر یہ بھی زور دیا ہے کہ وہ غریبوں اور سماج کے محروم طبقوں کے فائدے کے لئے نئے چیلنجوں کا سامنا کریں۔
اس پس منظر میں اس سال انڈین سائنس کانگریس کے لئے موضوع کا انتخاب بہت مناسب ہے ، کیونکہ اس سال ’’سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے غیر رسائی والے عوام تک رسائی‘‘۔ یہ موضوع میرے دل کے بہت قریب ہے۔
راجاگوپالن واسودیون کا ہی معاملہ لے لیجئے جنہیں 2018 میں پدم شری سے نوازا گیا تھا۔ وہ مدورائی کے ایک پروفیسر ہیں جنہوں نے پلاسٹک کے کچرے کو سڑکوں کی تعمیر میں استعمال کرنے کا ایک اختراعی طریقہ دریافت کیا تھا اور اسے اپنے نام سے پیٹنٹ کرایا تھا۔اس طریقے کو استعمال کرکے بنائی گئی سڑکیں زیادہ محفوظ اور پانی سے خراب نہ ہونے والی ہوتی ہیں۔پروفیسر واسو دیون نے یہ ٹیکنالوجی حکومت کو مفت فراہم کی ہے۔ 11ریاستوں میں 500 ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکوں کی تعمیر کے لئے اسی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔
اسی طرح اروند گپتا کو 2018ء میں پدم شری سے نواز ا گیا۔ انہوں نے سائنسی تجربات کے لئے گھروں میں دستیاب سامان اور کچرے سے کھلونے بناکر سائنس کے طلباء کو تحریک دلانے کا کام کیا ہے۔چنتک انڈی ملیشم کو 2017ء میں لکشمی اے ایس یو مشین کی دریافت کرنے کے لئے پدم شری سے نوازا گیا تھا۔ اس مشین کی وجہ سے ساڑی کی بُنائی کے لئے دستیاب وقت اور مزدوری میں کافی کمی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ اپنی تحقیق اور نئی دریافت کرنے کے کام کا رُخ ہمارے دور کے مسائل کو حل کرنے اور ہمارے عوام کی خواہشات کو پورا کرنے میں استعمال کریں۔ سائنسی سماجی ذمہ داری وقت کی ضرورت ہے۔
دوستو!
اس اجلاس کا موضوع کچھ اور سوال بھی اٹھاتا ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے بچوں کو سائنس کے لئے تیار کیا ہے اور کیا ہم انہیں ایک ایسا ساز گار ماحول دے رہے ہیں، جو ان کی صلاحیتوں کو فروغ دے سکیں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری سائنسی کامیابیوں کو معاشرے تک پہنچایاجائے۔ یہ نوجوانوں میں سائنس سے متعلق جذبے کو فروغ دینے میں مدد دیں گی۔ یہ ہمارے نوجوان ذہنوں کو سائنس میں اپنا کیریئر بنانے کے لئے راغب کریں گی۔ ہم نے اپنے قومی ادارے اور لیباریٹریاں ہمارے بچوں کے لئے کھول دی ہیں۔ میں سائنسدانوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ اسکول جانے والے بچوں کے ساتھ گفتگو کے لئے مناسب نظام تیار کریں۔ میں ان پر یہ بھی زور دیتاہوں کہ ہر سال کم از کم 100 گھنٹے دسویں، گیارہویں اور بارہویں کلاس کے 100 طلباء کے ساتھ گزاریں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف پہلؤوں پر تبادلہ خیال کریں۔ 100 گھنٹے اور 100 طلباء-آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہم اس طرح کتنے سائنسداں تیار کرسکتے ہیں۔
دوستو!
ہم نے 2030ء تک بجلی کی پیداوار میں غیر معدنی ایندھن کی حصہ داری کو 40 فیصد سے زیادہ کرنے کا عہد کیا ہے۔ بھارت کثیر ملکوں والے بین الاقوامی شمسی اتحاد اور مشن اینویشن کی قیادت کررہا ہے۔ یہ گروپ صاف توانائی کے لئے تحقیق و ترقی کو فروغ دے رہے ہیں۔ایٹمی توانائی کا محکمہ 700-700 میگا واٹ کی صلاحیت والے بھاری پانی کے 10 نئے ری ایکٹر قائم کررہا ہے۔ یہ ملک میں نیوکلیائی صنعت کے لئے ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس سے بھارت کی نیوکلیائی بجلی پیدا کرنے والے ملک کی حیثیت اور مستحکم ہوگی۔ حال ہی میں سی ایس آئی آر نے ایک دستی ملک ٹیسٹر تیار کیا ہے، جس سے ہر کنبے کو چند سیکنڈ میں دودھ کی کوالٹی جانچ کرنے میں مدد ملے گی۔ سی ایس آئی آر نے جینیاتی بیماریوں کی تشخیص کے لئے بھی ایک کِٹ تیار کی ہے اور کسانوں کی آمدنی کو بڑھانے کے لئے مہنگی جڑی بوٹیاں تیار کرنے پر زور دیا ہے۔
ہم بھارت سے ٹی بی کو مکمل طورپر ختم کرنے کے لئے مسلسل کوششیں کررہے ہیں۔ چند دن پہلے نئی دہلی میں ’’ٹی بی کے خاتمے کی چوٹی میٹنگ‘‘ میں ہم نے 2025ء تک بھارت سے ٹی بی کے مکمل خاتمے کے عزم کا اظہار کیا ہے، جو ڈبلیو ایچ او کے مقرر کردہ 2030ء کے ہدف سے 5سال پہلے ہی حاصل کیا جائے گا۔ ہماری خلائی تحقیق کے پروگرام نے بہترین صلاحیت حاصل کی ہے اور ہم نے ایک وقت میں 100 سے زیادہ سٹیلائٹ مدار میں پہنچائے ہیں اور یہ کام بھارتی سائنسدانوں کی سخت محنت اور کام کے تئیں ان کے عہد کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔
چندریان -1 کی کامیابی کے بعد اب ہم آنے والے مہینوں میں چندریان -2 کو لانچ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ پوری طرح ملک کی تکنیک سے کی جانے والی اس کوشش نے چاند کی سطح پر ایک گاڑی کے اترنے اور سطح پر چلنے کا مشن بھی شامل ہے۔ پچھلی صدی کے عظیم سائنسداں البرٹ آئن اسٹائن نے کشش کی لہروں کے بارے میں تھیوری پیش کی تھی۔ یہ ہم سب کے لئے ایک بڑے فخر کی بات ہے کہ 9بھارتی اداروں کے 37 بھارتی سائنسدانوں نے ایل آئی جی او کے اشتراک میں شرکت کی ہے اور اس تھیوری کو تین سال پہلے درست ثابت کیا ہے۔ ہماری حکومت نے ملک میں تیسرے ایل آئی جی او ڈیٹیکٹر قائم کرنے کی منظوری دے چکے ہیں، اس سے لیزر ، روشنی کی کرنوں اور کمپیوٹنگ کے شعبوں میں بنیادی سائنس میں ہمارے علم میں اضافہ ہوگا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے سائنسداں اسے حقیقت میں بدلنے کے لئے انتھک کام کررہے ہیں۔ میں نے اہم سائنسی اداروں کے آس پاس شہروں میں سائنس کی بہترین کارکردگی کے کلسٹر تیار کرنے پر بات کی ہے، اس کا مقصد شہر پر مبنی آر این ڈی کلسٹر تشکیل دینا ہے، جس سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے تمام ساجھیداروں کو یکجا کیا جاسکے گا اور یہ نئی دریافتوں اور عالمی سطح کی مسابقتی تحقیقی مراکز کو فروغ دینے میں مدد دے گا۔
ہم نے حال ہی میں ایک نئی اسکیم ’’وزیر اعظم کے ریسرچ فیلو‘‘ کو منظوری دی ہے۔ اس اسکیم کے تحت ملک کے بہترین ادارے جیسے آئی آئی ایس سی ، آئی آئی ٹی، این آئی ٹی، آئی آئی ایس ای آر اور آئی آئی آئی ٹی وغیرہ کے ذہین لوگوں کو آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایس سی میں براہ راست پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ دینے کی پیشکش کی جائے گی، اس سے جدید ترین سائنس اور ٹیکنالوجی میں ملکی تحقیق کو فروغ دینے میں بڑے طورسے مدد ملے گی۔
دوستو!
بھارت کو سماجی اقتصادی چیلنجوں کا سامنا ہے، جس سے ہماری آبادی کا ایک بڑا طبقہ متاثر ہے۔ ہمیں بھارت کو صاف ستھرا ، سر سبز اور خوشحال بنانے کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد کی ضرورت ہے۔ میں سائنسدانوں سے ایک بار پھر اپنی توقعات کا اظہار کرنا چاہوں گا ۔ ہماری قبائلی آبادی کا ایک بڑا طبقہ اسکل سیل انیمیا سے متاثر ہے۔ کیا ہمارے سائنسداں مستقبل قریب میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ایک سادہ اور سستا حل فراہم کرسکتے ہیں۔ ہمارے بچوں کا ایک بڑا تناسب تغذیہ کی کمی کا شکار ہے، اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے حکومت نے تغذیے کا قومی مشن شروع کیا ہے۔ آپ کے مشورے اور آپ کے پیش کئے گئے حل ہمیں اس مشن کے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔
بھارت کو کروڑوں نئے مکانوں کی ضرورت ہے کیا ہمارے سائنسداں اس مانگ کو پورا کرنے کے لئے تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کو اپنا سکتے ہیں؟ ہمارے دریا آلودہ ہیں ، انہیں آپ کی نئی نئی تجاویز اور نئی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، تاکہ انہیں صاف کیا جاسکے۔ ہمیں مؤثر شمسی اور بادی توانائی کو اسٹور کرنے اور بجلی کی موبیلٹی کے حل تلاش کرنے ، کھانا پکانے کی صاف ستھری ٹیکنالوجی، کوئلے کو صاف ایندھن میں تبدیل کرنے، کوئلے سے صاف بجلی پیدا کرنے، اسمارٹ گرڈ ، مائیکرو گرڈ اور بایو فیوئل جیسی کثیر جہتی ٹیکنالوجی اور طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے۔
ہم نے 2022ء تک شمسی بجلی کے 100 گیگا واٹ کی صلاحیت کی تنصیب کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ فی الحال بازاروں میں دستیاب شمسی ماڈیول کی صلاحیت 18-17 فیصد کے قریب ہے۔ کیا ہمارے سائنسداں شمسی ماڈیول کو زیادہ بہتر بنانے کا چیلنج قبول کرسکتے ہیں، جس سے بھارت کتنی ہی لاگت سے زیادہ بجلی پیدا کرسکے۔ آپ تصور کریں کہ اس طرح ہم کتنے وسائل کی بچت کرسکتے ہیں۔ اسرو خلاء میں سٹیلائٹ چلانے کے لئے بہترین بیٹری نظام کا استعمال کرتا ہے، دیگر ادارے موبائل فون اور الیکٹرک کار کے لئے کم خرچ اور مؤثر بیٹری نظام تیار کرنے کے لئے اسرو کے ساتھ ساجھیداری کرسکتے ہیں۔ ہمیں ملیریا اور جاپانی بخار جیسے مہلک امراض سے نجات پانے کے لئے نئے طریقے ، ادویات اور ٹیکے وغیرہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یوگا ، کھیل کود اور روایتی علم کے مختلف مضامین میں تحقیق کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ روزگار پیدا کرنے کے لئے چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتیں بہت اہم ہے، لیکن عالمی سطح پر مقابلہ آرائی کی وجہ سے انہیں آگے بڑھنے میں چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیا ہمارے سائنسی اور ٹیکنالوجی کے ادارے ایم ایس ایم ای کے سیکٹر کے مفاد کے لئے کام کرسکتے ہیں اور ان کی پیداوار کو بہتر بنانے کے لئے مدد کرسکتے ہیں؟
دوستو!
ہمیں ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے مستقبل میں ٹیکنالوجی نافذ کرنے کے لئے تیا ررہنا چاہئے۔ ٹیکنالوجی تعلیم، حفظان صحت اور بینکنگ جیسی خدمات فراہم کرنے کے لئے بہت اہم ہے۔ بھارت کو 2020ء تک ٹیکنالوجی، آلات، معیارات اور 5-جی براڈ بینڈ ، ٹیلی مواصلات نیٹ ورک تیار کرنے میں ایک بڑا کردار ادا کرنا چاہئے۔اس کے علاوہ مصنوعی انٹلی جنس ، اعدادو شمار کا تجزیہ کرنے ، مشین لرننگ اور سائبر- فیزیکل سسٹم اور مؤثر مواصلات ہماری اسمارٹ مینوفیکچرنگ ، اسمارٹ سیٹیز اور صنعتوں میں کامیابی کے لئے بہت اہم ہے۔ ہمیں 2030ء تک بھارت کو عالمی اختراعی انڈیکس میں سب سے بہتر دس ملکوں میں شامل کرنے کا ہدف مقرر کرنا چاہئے۔
دوستو!
اب سے چار سال بعد ہم اپنی آزادی کی 75ویں سالگرہ منائیں گے۔ ہم نے 2022ء تک مل کر ایک نیا بھارت تشکیل دینے کا عہد کیا ہے۔ ہمیں ’’سب سے کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے جذبے کے ساتھ اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے آپ میں سے ہر ایک کی پرخلوص کی تعاون کی ضرورت ہے۔ بھارتی معیشت اعلیٰ شرح ترقی کی راہ پر گامزن ہے، لیکن ہم انسانی ترقی کے پیمانوں پر پیچھے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ ریاستوں کے مابین اور ریاستوں کے درمیان امتیازات ہیں، اس کو دور کرنے کے لئے ہم نے 100 سے زیادہ اضلاع کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ایک کوشش شروع کی ہے۔ ہمیں صحت اور تغذیہ، تعلیم ، زراعت اور آبی وسائل، مالی شمولیت، ہنر مندی کا فروغ، بنیادی ڈھانچے جیسے شعبوں میں توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سبھی شعبوں میں اختراعی حل نکالنے کی ضرورت ہے، جو مقامی چیلنجوں اور ضروریات کو پورا کرسکیں۔ اس معاملے میں ’’سب کے لئے ایک ہی سائز‘‘ کا طریقہ کار کام نہیں کرسکتا۔ کیا ہمارے سائنسی ادارے ان اضلاع کی مدد کرسکتے ہیں؟ کیا وہ مناسب ٹیکنالوجی تیار کرسکتے ہیں اور صنعت کاری کے لئے ہنرمندی کو فروغ د ے سکتے ہیں؟
یہ بھارت ماتا کے لئے ایک بڑی خدمت ہوگی۔ بھارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال اور ایجادات کی روایات سے مالا مال ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس شعبے میں سب سے ترقی یافتہ ملکوں میں اپنا درست مقام حاصل کرسکیں۔ میں سائنسی برادری پر زور دیتا ہوں کہ وہ اپنی ریسرچ کو لیباریٹری سے زمین پر اتاریں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارے سائنسدانوں کی کوششوں کے ذریعے ہم ایک بہتر مستقبل کی راہ پر گامزن ہوسکیں گے۔ وہ مستقبل جس کی ہم اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے تمنا کرتے ہیں۔