نئی دہلی، الیکٹرانکس اور آئی ٹی کے علاوہ قانون وانصاف کے مرکزی وزیر جناب روی شنکر پرساد نے آج کہا ہے کہ ہندوستانی حکومت کے لئے میڈیا کی آزادی نظام حکومت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے، جسے آئین کی جانب سے مناسب اور واجب طور سے تسلیم کیا گیا ہے اور سلسلے وار فیصلوں میں عدلیہ کے ذریعے نافذ کیا گیا ہے۔ آج یہاں 15 ویں ایشیاء میڈیا سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب پرساد نے کہا کہ میڈیا کو معلومات فراہم کرنے ، اسے سرکولیٹ کرنے کے علاوہ نکتہ چینی کرنے اور مشورہ دینے کا پورا حق ہے۔ آئین کے تحت میڈیا کے حقوق البتہ کچھ مناسب پابندیوں سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔
ڈاٹا یعنی اعداد وشمار کے غلط استعمال کے بارے میں وزیر موصوف نے کہا کہ ہندوستان اس بات کی قطعی اجازت نہیں دے گا کہ ملک ڈاٹا چوری کا ایک مرکز بنے اور سازش آمیز طور طریقوں کے ذریعے ڈاٹا کی تجارت کو اس بات کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے انتخابی عمل پر اثر ڈالے۔ جناب پرساد نے کہا کہ تمام آن لائن کمپنیاں، جو ڈاٹا کی تجارت کے بزنس میں شامل ہیں، انہیں جواب دہی کے نازک پہلو کو سمجھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں جب ڈاٹا کی پرائیویسی کا تنازع ابھر کر سامنے آیا تو حکومت نے ان معاملات پر ایک بہت سخت موقف اپنایا تھا۔ جناب پرساد نے مزید کہا کہ جواب دہی جمہوریت اور تمام اداروں، جن میں حکومت، عدلیہ ، قانون سازیہ اور میڈیا شامل ہے، کے لئے لازم ہے اور سبھی اداروں کو اس اصول پر قائم رہنا ہے۔ ہندوسان کے ڈاٹا تجزیئے کا ایک بہت بڑا مرکز بننے کا ذکر کرتے ہوئے جناب پرساد نے کہا کہ ڈاٹا کی دستیابی، ڈاٹا کی افادیت، ڈاٹا کی اختراع ، ڈاٹا کی پرائیویسی (رازداری) اور ڈاٹا کی بے نامی پر ایک مناسب تال میل کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ریٹائر جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی ان معاملات کو دیکھ رہی ہے اور جلد حکومت ڈاٹا کے تحفظ سے متعلق ایک قانون لاگو کرے گی۔
اخلاقی صحافت کے معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ یہ منصفانہ اور سچ پر مبنی ہونا چاہئے اور اسے صحیح طور پر پیش کیا جانا چائے اور ایک شاندار اورآزادانہ طریقے سے خبروں کے معاملے میں صارفین کو بااختیار بنایا جارہا ہے۔ وزیر موصوف نے اس بات پر حیرانی ظاہر کی کہ کیا میڈیا آج سنسنی خیزی کے بھیس میں پیڈ نیوز اور جعلی خبروں کا مرکز بن گیا ہے ۔ وزیر موصوف نے کہا کہ یہ ایک بحث کا موضوع ہے۔
میڈیا کے ذریعے سیلف ریگولیشن (خود کے بنائے ہوئے ضابطے) کے اصول کی حمایت کرتے ہوئے جناب پرساد نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ مصالحت کروانے والے کے ذریعے جو مواد جارہا ہے وہ خطرناک، ہتک آمیز نہیں ہے اور سکیورٹی پر اثر انداز نہیں ہوتا اور ملک کی دیانتداری پر سوال نہیں اٹھتا اور کاپی رائٹس کے حقوق میں دخل انداز نہیں ہوتا۔ رازداری کے تقدس پر وزیر موصوف نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پرائیویسی یعنی رازداری کو بنیادی حقوق کا ایک حصے کے طور پر برقرار رکھا ہے لیکن انہوں نے مزید کہا کہ رازداری کا عذر بدعنوان اور دہشت گردوں کے لئے دفاع نہیں ہوسکتا۔ وزیر موصوف نے کہا کہ دہشت گردی کے معاملات ، نفرت اور فرقہ پرستی کے پروپیگنڈے اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کے معاملے پر ایک عالمی اتفاق رائے ہونا چاہئے، جسے مناسب طور پر لاگو کئے جانے کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا کے چیلنجز کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے جناب پرساد نے کہا کہ حکومت پریس کی آزادی کے تئیں عہد بند ہے لیکن حقیقت کو خطرنام ماحول سے علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج حکومت میں بہت سے لوگوں نے ایمرجنسی کے خلاف جنگ کی تھی ، جہاں آزادی کو کچل دیا گیا تھا۔ وزیر موصوف نے کہا کہ حکومت سوشل میڈیا کا احترام کرتی ہے کیونکہ یہ عام آدمی کو باختیار بناتا ہے لیکن کبھی کبھی اس میڈیم میں جس زبان کا استعمال ہوتا ہے وہ ایک تشویش کا معاملہ ہے۔
جناب پرساد نے مزید کہا کہ انٹرنیٹ جدید سامراجیت کا ایک آلہ کار نہیں بن سکتا۔ انٹرنیٹ کو انسان کی ایک سب سے بہترین اختراع کے طور پر بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ چند لوگوں کی منوپلی نہیں رہ سکتا۔
جن دیگر لوگوں نے اجلاس کے دوران میڈیا کے ضابطے پر اپنے خیالات پیش کئے ان میں بنگلہ دیش کے انفارمیشن کے وزیر حسن الحق، کمبوڈیا کے انفارمیشن کےو زیر ڈاکٹر کھیو کنہرتھ ، کوریا کے مواصلات کے کمیشن کے اسٹینڈنگ کمشنر سام سیوگ کو اور پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جسٹس سی کے پرساد شامل تھے۔ برطانیہ کے بیرسٹر ڈاکٹر وینکٹ ایئر نے اجلاس سے خطاب کیا۔
ایشیا میڈیا سربراہ کانفرنس میں اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانے سمیت ایک آزاد میڈیا کے صحت مندانہ فروغ سمیت بہت سے معاملات پر عام اتفاق رائے پایا گیا۔ انفرادی پرائیویسی کا احترام بھی اجلاس کا اہم موضوع رہا۔ سبھی مقررین نے بیک وقت جعلی خبروں، سائبر جرائم اور دہشت گردی کا پروپیگنڈہ کرنے کے لئے سائبر اسپیس کی توسیع کے غلط استعمال کے چیلنج کو اجاگر کیا۔ مقررین نے سائبر قزاقی ، پیٹنٹ اور کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کے معاملے کو بھی اہمیت دی۔ کانفرنس میں اس بات پر اتفاق رائے دیکھا گیا کہ ان مسائل کو مختلف ممالک میں تعاون پر مبنی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔