نئی دہلی، شیل کمپنیوں سے متعلق ٹاسک فورس کی اس کے قیام سے بعد سے آٹھ بار میٹنگیں ہوئی ہیں اور اس نے شیل کمپنیوں کی دھاندلیوں کی روک تھام کے لئے مثبت اور مربوط اقدامات کئے ہیں۔ وزیراعظم کے ذریعہ فروری 2017 میں مالیہ سکریٹری اور ایم سی اے کے سکریٹری کی مشترکہ صدارت میں ٹاسک فورس تشکیل دی گئی تھی جسے ٹیکس کی چوری سمیت غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث کمپنیوں جنہیں عام طور پر شیل کمپنیاں کہا جاتا ہے ان کی دھاندلیوں کی منظم اور مربوط کثیر ایجنسیوں کے طریقہ کار کے ذریعہ روک تھام کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔محکمہ مالی خدمات، سی بی ڈی ٹی، سی بی ای سی، سی بی آئی، ای ڈی، ایس ایف آئی او، ایف آئی یو۔ آئی این ڈی، آر بی آئی، سی ای بی آئی، ڈائرکٹر جنرل جی ایس ٹی آئی اور ڈائرکٹر جنرل سی ای آئی بی اس کے اراکین ہیں۔
ٹاس فورس کی اہم حصولیابیوں میں ایس ایف آئی او کے ذریعہ شیل کمپنیوں کے ڈاٹا بیس کی ترتیب شامل ہے۔ اس ڈاٹا بیس میں آج تک تین فہرستیں شامل ہیں یعنی تصدیق شدہ فہرست ، ماخوذ فہرست اور مشتبہ فہرست۔ تصدیق شدہ فہرست میں قانون کا نفاذ کرنے والی مختلف ایجنسیوں سے موصولہ معلومات کی بنیاد پر، جس میں کمپنیاں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی ہیں،ان میں ایسی 19553 تصدیق شدہ شیل کمپنیاں شامل ہیں۔ ماخوذ فہرست میں تصدیق شدہ شیل کمپنیوں کے صد فیصد صد مشترکہ ڈائرکٹر شپ کی بنیاد پر 19739 کمپنیوں کی شناخت کی گئی ہے۔ مشتبہ فہرست میں بعض رٹ فلیگ اشاریوں کا استعمال کرکے ایس ایف آئی او کے ذریعہ کمپنیوں کے نام یکجا کئے گئے ہیں جن میں 80670 مشتبہ شیل کمپنیاں شامل ہیں۔ ٹاسک فورس میں بعض ریڈ فلیگ انڈی کیٹرس کی شناخت کی ہے جن کا مزید شیل کمپنیوں کی شناخت کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
مالی سال 18۔2017 کے دوران کارپوریٹ امور کی وزارت کی نگرانی میں ایک مہم چلائی گئی تھی جس میں رجسٹرارس آف کمپنیز (آر او سی) میں کمپنیز ایکٹ 2013 کی دفعہ 248 کے تحت کمپنیز کے رجسٹر میں کمپنیوں کی شناخت اور تنسیخ کے لئے 226166 کمپنیوں کے ناموں کی شناخت کی ہے جنہوں نے دو سے زائد مالی سال کی مدت میں لگاتار اپنا مالی فائننشیل اسٹیٹمنٹ یا سالانہ ریٹرن داخل نہیں کی تھی، کمپنیز ایکٹ 2013 کی دفعہ 164 (2) (اے) جسے دفعہ 167 (1) پڑھا جائے گا، کے تحت کم و بیش 309619 ڈائرکٹروں کو لگاتار تین مالی سال (14۔2013، 15۔2014 اور 16۔2015کی مدت کے لئے اپنا فائینشیل اسٹیٹمنٹ یا سالانہ ریٹرن داخل نہ کرنے کے لئے نااہل قرار دےدیا ہے۔
کارپوریٹ امور کی وزارت، محکمہ مالی خدمات اور انڈین بینک ایسوسی ایشن کی ٹھوس کوششوں سے تنسیخ شدہ کمپنیوں کے سابق ڈائرکٹروں/ مجازی دستخط کنندگان کو ان کمپنیوں کے بینک کھاتوں کو استعمال میں لانے سے روک گیا ہے اور وہ کمپنیز ایکٹ کے دفعہ 252 کے تحت کمپنی کے بحال کئے جانے تک مخصوص مقاصد کو چھوڑکر ان بینک کھاتوں سے رقم کی نکاسی نہیں کرسکتے۔
اصل کارپوریٹس کو اپنے زیر التوا ریٹرن کو باضابطہ بنانے کی غرض سے تاخیر کو نظرانداز کرنے کی اسکیم 2018 لائی گئی تھی۔ یہ اسکیم یکم جنوری 2018 سے یکم مئی 2018 تک نافذ العمل تھی۔ اس اسکیم سے کل 13993 کمپنیوں کو فائدہ پہنچا۔
رواں مالی سال 19۔2018 کے دوران دوسری مہم چلائی جائے گی۔ کمپنیز ایکٹ 2013 کی دفعہ 248 کے تحت نام کے اخراج کے لئے مزید 225910 کمپنیوں کی شناخت کی گئی ہے جن کے ساتھ 16۔2015 اور 17۔2016 میں مالی اسٹیٹمنٹ داخل نہ کرنے کی وجہ سے، ایل ایل پی ایکٹ 2008 کی دفعہ 75 کے تحت کارروائی کے لئے 7191 ایل پی پی کی شناخت کی گئی ہے۔ان کی نہ دہندگانی اور مجوزہ کارروائی نوٹس کے ذریعہ شناخت شدہ ان کمپنیوں اور ایل ایل پی کو ایک موقع دیا جائے گا۔ ان کے جواب پر غور کرنے کے بعد مناسب کارروائی کی جائے گی۔
کارپوریٹ امور کی وزارت غیر فعال کمپنیوں کے رجسٹریشن اور ان کے نام خارج کرانے کے لئے جلد ہی ایک عوامی بیداری مہم چلائے گی۔
قانون کا نفاذ کرنے والی تمام ایجنسیوں کے مابین دستاویزات اور معلومات کے تبادلے کے لئے ایک میکانزم وضع کیا گیا ہے۔ ’’شیئرنگ ڈوکومینٹس سے متعلق‘‘ ایک معیاری عملی طریقہ کار کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اسے قانون کا نفاذ کرنے والی تمام ایجنسیوں کو سینٹرل اکونومکس انٹلی جنس بیورو کے ذریعہ عمل درآمد کے لئے بھیج دیا گیا ہے۔ یہ بیورو اس مقصد کے لئے ایک نوڈل ایجنسی ہے۔
ٹاس فورس میں قانون کا نفاذ کرنے والی تمام ایجنسیوں کو ان کے ذریعہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کے خلاف کی گئی کارروائی کی تفصیلات انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آف انڈیا کو ارسال کرنے کی ہدایت دی ہے۔ احتساب کے پیشے سے متعلق آزاد ریگولر کے ادارے یعنی نیشنل فائننشیل رپورٹنگ اتھارٹی میں کمپنیز ایکٹ 2013 کے ذریعہ اہم تبدیلی کی گئی ہے جسے یکم مارچ 2018 کو مرکزی کابینہ نے منظوری دی تھی اور 21 مارچ 2018 کو اسے مشتہر کیا گیاہے۔ کمپنیز ایکٹ 2013 کی دفعہ 447 میں وضاحت کئے گئے فراڈ کے مطابق، انسداد منی لانڈرنگ 2002 کے تحت اسے جرم قرار دیا گیا ہے۔
حکومت کو امید ہے کہ رجسٹری میں صفائی کی اس کی کوششوں سے ہندوستان میں کارپوریٹ معاشی نظام میں شفافیت اور عمدگی آئے گی۔ ’’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘‘ کو فروغ حاصل ہوگا اور عوام کا اعتماد بڑے گا۔