نئی دہلی، نائب صدر جمہوریۂ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے مختلف عدالتوں کے سامنے زیر التوا سیاسی قائدین کے خلاف انتخاب سے متعلق درخواست اور فوجداری مقدموں کو تیزی سے نمٹانے کی اپیل کی ہے۔ انھو ں نے ایسے سبھی مقدموں کو چھ مہینے یا ایک سال کے اندر نمٹانے کے لیے الگ الگ بینچ کے قیام کا بھی مشورہ دیا۔
نائب صدر جمہوریہ نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ قانون ساز اکائیوں کے پریزائڈنگ آفیسر تین مہینے کے اندر پارٹی بدلنے سے متعلق معاملوں پر فیصلہ کریں۔
جناب نائیڈو نے آج وشاکھاپٹنم میں مشہور وکیلوں، ججوں اور بار ایسوسی ایشن کے ممبران کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے آندھراپردیش یونیورسٹی میں طالب علم کی حیثیت سے اپنے شروعاتی دنوں کو یاد کیا۔ اور حاضرین کے ساتھ اپنی شاندار یادگار یادوں کا تذکرہ کیا۔
وشاکھا پٹنم کے ضلع کورٹ بار ایسوسی ایشن کی 125ویں سالگرہ کی تقریبات میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے مختلف عدالتوں میں زیر التوا مقدموں پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ پٹیشن کی مقررہ وقت میں منظوری اور اپیلوں کا نمٹانا بہت ضروری ہے۔
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ طویل عرصے سے زیر التوا ٹیکس سے متعلق مقدموں سے ایک بڑی راشی جڑی ہوتی ہے۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ قانونی چارہ جوئی اور کارروائی میں تاخیر ملک کی ساکھ کو متاثر کرسکتی ہے۔
مختلف عدالتوں میں 3.12 کروڑ مقدموں کے زیر التوا ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے مقدموں اور بار ایسوسی ایشن سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دیں اور کوشش کریں کہ زیر التوا مقدموں میں کمی آئے۔
ایک مشہور کہاوت ‘‘انصاف میں تاخیر، انصاف سے محروم کیا جانا ہے’’کی وضاحت کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے خاص طور سے عام آدمی کو جلد از جلداور منصفانہ انصاف کو یقینی بنانے کے لیے عدالتی اداروں کے کام کاج میں بہتری لانے کے لیے اصلاح کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے کہ ہندوستان کے آئین میں عدلیہ کی آزادی کا تصور کیا گیا ہے۔
جناب نائیڈو نے کہا کہ آئین کے تینوں اجزا مقننہ، عاملہ اور عدلیہ کو صحت منداور باہمی احترام شیئر کرنا چاہیے۔ اور ایک دوسرے کے کردار کو ناگزیر بناناچاہیے۔ انھوں نے کہا کہ کسی کو بھی دوسرے کے حق پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ہندوستان دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی معیشت میں سے ایک ہے، انھوں نے کہا کہ ‘‘پوری دنیا اب ہندوستان کو ایک سرمایہ داری کے منزل کی صورت میں دیکھ رہی ہے، ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ایک شفاف ،متوقع پالیسی والی حکمرانی اور ایک صحت مند عدالتی، ریگولیٹری نظام نافذ ہو۔’’
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ایک ریگولیٹری ڈھانچہ خاص طور پر ہندوستان جیسے ملک کے لیے جو سرمایہ داری کے لیے ایک روشن مقام بن گیا ہے، سرمایہ کاروں کو بھروسہ دلاتا ہے۔
نائب صدر جمہوریہ نے وکلا کو یاد دلایا کہ آئین کے معماروں نے قانونی کمیونٹی میں پوشیدہ اعتماد اور بھروسے کو دوہرایا تھا اور ان سے آئینی اقدار کا تحفظ کرنے کی اپیل کی تھی۔
جناب نائیڈو نے بار ایسوسی ایشن سے یہ بھی اپیل کہ وہ عدالتوں میں مقامی زبانوں کے استعمال کو فروغ دیں کیوں کہ یہ سہولت فراہم کرنے والا اور موزوں ہے کہ عدالت کی کارروائی متعلقہ ریاستوں کی سرکاری زبان میں ہی پوری کی جائے۔
اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ ایسا عام خیال ہے کہ بغیر کسی بنیادی ڈھانچہ ، لائبریری یا بہتر فیکلٹی کی ملک کی ہر گلی میں قانون کی یونیورسٹیوں کے قیام کے باعث، قانون کے پیشے کے معیار میں قابل ذکر کمی آرہی ہے۔ جناب نائیڈو نے سبھی بار کونسل سے اس پر غور کرنے کی اپیل کی کہ ایسی یونیورسٹیاں طلبا کو گمراہ نہ کریں نیز یہ یقینی بنائیں کہ ایک مناسب طریقہ کار اور معیار قائم کیے جائیں۔
اس پروگرام کے موقع پر آندھراپردیش ہائی کورٹ کے جج جناب اے وی شیشا سائی، ضلع جج مع چیف پیٹرن محترمہ بی ایس بھانومتی، چیئرمین جناب ایم کے سیتا رمیّا، وشاکھاپٹنم ڈسٹرکٹ کورٹ اینڈ بار ایسوسی ایشن کے صدر جناب بندارو راما کرشنا، وشاکھاپٹنم ڈسٹرکٹ کورٹ اینڈ بار ایسوسی ایشن کے متعدد سبکدوش اور حاضر سروس ججوں، سینئر وکلا اور اراکین کے ہمراہ متعدد معزز شہری موجود تھے۔