نئی دہلی، کیمائی اشیاء اور کیمیائی فضلات سے متعلق تین کنونشنوں کی مشترکہ مٹینگیں جو خطرناک اشیا کی بین سرحدی نقل وحمل اور ان کے فضلات کے ٹھکانے لگانے کی روک تھام (سی او پی۔ 14) سے متعلق باسیل کنونشن کی پارٹیوں کی کانفرنس( سی او پی) کی چوتھی میٹنگ ہے۔ یہ میٹنگ بعض خطرناک کیمیائی اشیا اور جراثیم کش ادویہ کی تیاری نیز ان کی بین الاقوامی تجارت سے متعلق روٹرڈم کنونشن کے سی او پی کی نویں میٹنگ اور آلودگی پیدا کرنے والی نامیاتی اشیا سے متعلق اسٹاک ہوم کنونشن کے سی او پی کی نویں میٹنگ کے ساتھ ساتھ منعقد ہوئی ہے۔ رواں سال کی میٹنگ کا مرکزی خیال‘‘ صاف ستھری دنیا، صحتمند افراد اور کیمیائی اشیاء نیز فضلات کا بہتر بندوبست ہے۔’’
سوئز ر لینڈ کے شہر جینوا میں 29اپریل سے 10مئی 2019 تک منعقد اس میٹنگ میں وزارت ماحولیات جنگلات اور آب وہوا ئی تبدیلی کی قیادت میں ہندوستانی وفد نے شرکت کی۔ اس وفد میں دوسری وزارتوں جیسے وزارت زراعت، کیمیکلز، الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نےبھی شرکت کی۔
باسیل کنونشن میں دو اہم موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا اور اس پر فیصلے لئے گئے یعنی ای۔ فضلات سے متعلق تکنیکی رہنما خطوط اور پی آئی سی طریقہ کار میں پلاسٹک فضلات کو شامل کیا گیا۔ تکنیکی رہنما خطوط کے مسودے میں جو شرائط شامل کی گئی ہے ۔ استعمال شدہ الیکٹریکل اور الیکٹرانک آلات کو دوبارہ استعمال میں لانا، ان کی مرمت اور انہیں از سر نو بنانا یا اگر وہ جائزے کے تحت نہیں آتے ہیں تو انہیں غیر فضلہ تصور کیاجاناچاہئے۔ بھارت ان التزامات پر شدید اعتراض تھا۔ کیونکہ دوبارہ استعمال، مرمت اور از سر نو تیاری اور جائزے میں نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت سمیت پوری دنیا میں الیکٹرانک آلات اور فضلات کے بڑھتی کھپت کے پیش نظر اس کاامکان پیدا ہوجاتا ہے کہ ترقیاتی ممالک ایسی اشیا کو ترقی پذیر ممالک میں پہنچا دیں گے۔ کانفرنس مکمل اجلاس میں بھارتیہ وفد نے ان مجوزعہ فیصلوں کی پرزور مخالفت کی اور کہا کہ سی او پی کے ذریعہ ان تجاویز کی منظوری کی اجازت نہیں دی جائے۔
بھارت کی تشویشات کے ازالہ کے پیش نظر جس کی کثیر تعداد میں ترقی پذیر ممالک نے حمایت کی تھی ، کنونشن کے سیکریٹریٹ کے تحت کئی دور کے کثیر سطحی اور باہمی مذاکرات منعقد ہوئے۔ سی او پی کے آخری دن ایک ترمیم شدہ فیصلہ لیا گیا جس میں بھارت کے ذریعہ ظاہر کئے گئے تمام تشویشات کو شامل کیا گیا۔
تشویشات حسب ذیل تھیں:
ای۔ فضلات کو ترقی پذیرممالک میں پہنچانا۔اس بات کوتسلیم کیاگیا کہ عبوری رہنماخطوط میں اس مسئلے کو تسلیم کیا جائے، فضلات اور غیر فضلات کے فرق کے التزامات پر خاص کام کیا جائے۔ رہنما خطوط صرف عبوری بنیاد پر ہی اپنائے جائیں۔بھارت کے ذریعہ پیش کردہ تشویشات کا ازالہ کرنے والے ماہرین کے ورکنگ گروپ کی مدت کار میں توسیع کی جائے۔ عبوری رہنماخطوط کا صرف تجربہ کی بنیاد پر استعمال کیاجائے۔
بھارتیہ وفد کی پروزر مداخلت کی وجہ سے ہی ترقی یافتہ ممالک کے ذریعہ ترقی پذیرممالک میں فضلات کو ڈمپ کرنے کے امکانات کے خلاف دوسرے ممالک کے مفادات کا تحفظ ممکن ہوسکا اور اس طرح ای۔ ویسٹ سے متعلق عبوری تکنیکی رہنما خطوط میں ترمیم سے متعلق مزید مذاکرات کے دورازے کھلیں ہے۔
باسیل کنونشن کے تحت سی او پی ۔ 14 کی دوسری اہم وصولیابی پی آئی سی(پرائر انفارمڈ کانسنٹ) ترقی کار کے تحت غیر چنے ہوئے، ملے جلے اور دوسری اشیا کے آمیزہ و فضلات کو شامل کرنے اور ان کی بین سرحدی نقل وحمل کے ضابطے کو بہتر بنانے کی غرض سے کنونشن میں ترمیم کافیصلہ تھا۔ پلاسٹک کی آلودگی، جو کہ پوری دنیا میں ایک اہم ماحولیاتی تشویش بن گیا ہے، اس کے حل کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
مزید برآں باسیل کنونشن میں پلاسٹک سے متعلق ایک پارٹنر شپ بھی اپنایا گیا ہے۔ جس کا بھارتی وفد نے خیر مقدم کیا ہے۔ان اقدامات سے ترقی پذیرممالک میں پلاسٹک فضلات کی غیر قانونی ڈمپنگ کی روک تھام میں مدد ملے گی۔بھارت نے ملک میں ٹھوس پلاسٹک فضلات کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کررکھی ہے۔بھارت نےپلاسٹک کے استعمال کے مرحلہ وار خاتمے کے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔بھارت نے اس کوشش کی پورے طور پر مدد کی اور بھارتی وفد کا ایک رکن رابطہ گروپ کا معاون صدر رہا۔ یہ گروپ پی آئی سی طریقہ کار کے تحت پلاسٹک کے فضلات سے متعلق باسیل کنونشن کے التزامات میں ترمیم سے متعلق اس معاہدے کے لئے بات چیت کی۔
اسٹاک ہوم کنونشن کے تحت سی پی او نے کسی استثنی کے بغیرشمول ‘اے’ میں‘دیکوفول’ کو شامل کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ اسٹاک ہوم کنونشن کی مذکورہ بالا شمولیت ‘اے’ میں کچھ استثنی کے ساتھ‘ پی ایف او اے’ کو بھی درج کیا۔روٹر ڈم کنونشن کے تحت دو نئی کیمیائی اشیاء( فورایٹ اور ایچ بی سی ڈی) کو بین الاقوامی تجارت کے لازمی پی آئی سی طریقہ کار کی فہرست میں شامل کیا گیا۔