23.8 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

جموں وکشمیر ،بھارت کا ناقابل تنسیخ حصہ ہے-اس کے بارے میں کوئی دو تشریحات نہیں ہوسکتیں: جناب امت شاہ

Urdu News

نئیدہلی: ۔مرکزی وزیر داخلہ جناب امت شاہ نے آج لوک سبھا میں جموں وکشمیر  (جے اینڈ کے ) کے بارے میں  دو بل اوردو ریزولوشنس  پیش  کئے ۔ یہ اس طرح ہیں:

  1. آئین (جموں وکشمیر پر اطلاق ) آرڈر 2019  (حوالہ دفعہ 370  (1) آئین ہند ) – دفعہ 370سے متعلق  1954  کے آرڈر کی جگہ  لینے کے لئے صدرجمہوریہ کی طرف سے جاری کردہ  ۔
  2. بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کا ریزولوشن (حوالہ دفعہ 370 (3) )
  3. جموں وکشمیر (تنظیم نو ) بل 2019  (حوالہ دفعہ 3 آئین ہند )
  4. جموں وکشمیر ریزرویشن (دوسری ترمیم ) بل 2019  (وزیر داخلہ نے یہ بل دونوں ایوانوں سے واپس لے لیا کیونکہ اس قانون کے ضابطے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں وکشمیر پر لاگو ہوں گے اور یہاں  بھار ت کےقوانین لاگو ہوجائیں  گے )

دفعہ 370  (3) میں  کہا گیا ہے کہ بھارت کے صدر جمہوریہ کو اس دفعہ کو ایک نوٹی فکیشن جاری کرکے منسوخ کرنے کے اختیارات حاصل ہیں، جو جموں  وکشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفارشات پر مبنی ہوگا۔صدر جمہوریہ نے دفعہ 370 (1) کے بارے میں  آئینی حکم 2019  پر کل دستخط کئے ،جس کے تحت دفعہ 4  کے تمام ضابطوں کا جموں وکشمیر پراطلاق ہوگا۔جموں وکشمیر آئین ساز اسمبلی کو جموں وکشمیر                                                                                                           قانون سازاسمبلی  پرھا جائے گا۔ماضی میں  بھی  دفعہ 370  میں  اسی طرح کی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ کیونکہ ریاست میں اس وقت  صدر راج نافذ  ہے ،اس لئے دفعہ 370  پر عمل درآمد اس وقت ختم ہوجائے گا، جب صدرجمہوریہ  اس ایوان کی طرف سے ریزولوشن منظور ہونے کے بعد اس سلسلے میں  نوٹی فکیشن جاری کردیں  گے۔

بحث  کا جواب دیتے ہوئے جناب شاہ نے کہا  :’’ میں  یہ کہہ دینا چاہتاہوں کہ جموں وکشمیر ہندوستان کا جز ولاینفک  ہے ۔ اس بارے میں  کوئی دو تشریحات نہیں ہوسکتیں   کہ‘‘ جموں وکشمیر سمیت بھارت کی کسی بھی ریاست کے بارے میں  قانون بنانے اور ریزولوشسن لانے کے سلسلے میں   پارلیمنٹ ہی سب سے  بڑا اور پوری طرح مجاز ادارہ ہے۔پارلیمنٹ کے اس اختیار کے بارے میں  کوئی سوال  نہیں  کیا جاسکتا ۔ جناب شاہ نے کہا کہ 70  برسوں سے بھارت کے لوگوں نے اپنے دلوں میں  اس خواہش کو پروان چڑھایا ہے کہ کشمیر کو بھار ت کا جزو لاینفک ہونا چاہئے۔اس مقصد کے حصول میں  دفعہ 370 واحد رکاوٹ تھی۔ وزیر داخلہ نے اس رکاوٹ کو ہمیشہ کے لئے دور کرنے کے سلسلے میں                                                                                                                              وزیر اعظم  کے اس تاریخی قدم کے لئے ان کا شکریہ ادا کیا۔

لوک سبھا میں  اصل اپوزیشن  پارٹی کے لیڈر نے یہ سوال اٹھایا کہ مرکز یکطرفہ طورپر یہ قدم کیسے اٹھاسکتا ہے جبکہ کشمیر  ،  بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک باہمی مسئلہ ہے اور جب کہ معاملہ اقوام متحدہ میں التوا میں پڑا ہوا ہے۔

جناب شاہ نے اس کا جوا ب دیا اور اپوزیشن کو چیلنج کیا کہ وہ ایوان میں اپنے موقف کی وضاحت کریں  کہ آیا وہ کشمیر میں  اقوام متحدہ کی ثالثی کی حمایت کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے یہ نکتہ اٹھاکر پارلیمنٹ  کے  اختیارات پر سوال اٹھایا ہے ۔

جناب شاہ نے ممبروں سے پوچھا کہ ’’ بھارت کے محب وطن لوگ ملک کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دے سکتے ہیں ،اس طرح کے سوال سے پریشان کیوں نہیں ہوں گے ؟‘‘ بھارت میں   خام خیالیوں اور وہموں پر کام نہیں ہوتا بلکہ قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ انہوں  نے کہا کہ میں  ہمیشہ تعمیری بحث  ومباحثے کے لئے تیار رہتا ہوں  لیکن تباہ کن بحث  کے لئے کبھی نہیں ۔

بھارت اورپاکستان کے بارے میں اقوام متحدہ کے منشورکے  جموں وکشمیر پر اطلاق کے بارے میں بولتے ہوئے جناب شاہ نے کہا کہ  اس منشورکے تحت    کوئی  بھی مسلح فوج  ملک کی علاقائی یک جہتی کی خلاف ورزی  نہیں کرے گی۔ 1965 میں جس دن  پاکستان نے اس ضابطے کی خلاف ورزی کی ،اسی دن منشورکی خلاف ورزی ہوئی ۔ پاکستان کے حملے کے ساتھ ہی ریفرنڈم کا سوال ختم ہوگیا ۔اس  طرح اب بھارت سرکار کو اپنی علاقائی یک جہتی کے بارے میں کوئی  بھی فیصلہ کرنے کے  مکمل حقوق حاصل ہیں ۔وزیر داخلہ نے کہا کہ اقوام متحدہ نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے۔

جناب شاہ نے اپوزیشن کو یاددلایا اورپوچھا کہ کشمیر کا معاملہ  اقوام  متحدہ میں کون لے کرگیا تھا اور 1948  میں کس نے یکطرفہ جنگ بندی کی تھی ؟ جناب شاہ نے کہا :’’  اگر ہماری فوج کو صورتحال سے نمٹنے کی آزادی دی جاتی تو پی او کے (پاکستان کے زیر قبضہ حصہ) آج بھارت کا حصہ ہوتا ۔‘‘

ایوان کے اندر ریزولوشن اوربل پیش کرتےہوئے  جناب شاہ نے کہا کہ یہ ایوان  بہت سے تاریخی لمحات کا گواہ ہے ۔ آج بھی یہ ایوان   ایک سنہرے دن کا گواہ ہے ، جب ہم جموںوکشمیر کو صحیح معنیٰ  میں  بھارت کے باڑے  میں  شامل کرنے جارہے ہیں ۔ اب  مقامی نمائندوں   کی  پہاڑی کونسلوں میں  اپنی آواز ہوگی۔حکومتوں کو  جمہوری طور پر منتخب کیا جائے گا اور وہ جموں وکشمیر میں  مقامی حکومت اور انتظامیہ چلا سکیں  گی۔

 بہت سے ارکان نے  ا س  مدت کے بارے میں  خدشات کا اظہار کیا ہے کہ جس مدت کے لئے  جموں وکشمیر کے لئے  مرکزی انتظام وال علاقے کا درجہ جاری رہے گا۔جناب شاہ نے کہا کہ لداخ کے بارے میں  یہ بہت  پرانا مطالبہ تھا۔ انہوں  نے مزید کہا ’’  میں  جموں وکشمیر کے لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں  کہ  ایک مرتبہ حالات معمول پر آجائیں ۔ریاست کا درجہ بحال کردیا جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ پی او کے اور  اکسائی چِن  ، جموں وکشمیر کا ناقابل تنسیخ حصہ ہےا ور یہاں کی سیٹیں  اب بھی  قانون ساز مجلس کا حصہ ہیں۔ انہوں  نے ایوان کو  یقین دلایا کہ جموںوکشمیر میں  ایک قانون ساز اسمبلی ہوگی ،جس میں منتخب نمائندے ہوں گے اوریہ ایک  غلط خیال ہے کہ انتظامیہ مرکز چلائے گا۔

 وزیرداخلہ نے دفعہ 370  اور دفعہ 371 کے فرق کی وضاحت کی ۔دفعہ 370  بنیادی طور پر ایک عارضی ضابطہ تھا۔ انہوں  نے بتایا کہ دفعہ 370  کی وجہ سے بھارت کے قوانین جموں وکشمیر پر لاگو نہیں ہوتے تھے ۔اس لئے وہاں  کرپشن  اوردہشت گردی کا دور دورہ ہوا ۔ دفعہ 371  کا تعلق  خصوصی دفعات کے خصوصی ضابطوں سے ہے ، جن میں  بعض ریاستوں میں  پسماندہ علاقوںکی  ترقی کی حمایت کی گئی ہے ۔ انہوں  نے کہا کہ حکومت  دفعہ  371  کو منسوخ  کیوں  کرے اور اپوزیشن  دفعہ 370  کا مقابلہ دفعہ 371سے کیوں کررہی ہے  ۔وزیرداخلہ نے ان ریاستوں کے  لوگوں کو یقین دلایا اس حکومت  کا دفعہ  371  کو منسوخ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔جناب شاہ نے مزید کہا کہ ناگا معاہدے   اوردفعہ 370  میں کوئی تعلق نہیں  ہے   اور یہ ماضی میں جوغلطیاں ہوئی ہیں وہ یہ حکومت نہیں دہرائے گی۔

جموںوکشمیر میں  اس وقت فوج کی تعیناتی اور انٹر نیٹ سہولتیں  نہ ہونے کے بارے میں  جناب شاہ نے یقین دلایا کہ ا س  کا مقصدریاست میں بعض  شرارت  پسند عناصر کو تشدد پھیلانے سے روکنے کے علاوہ اور کچھ  نہیں  ہے  اوریہ کہ کوئی بھی ملک کے اندر امن کے تحفظ کے لئے  احتیاطی اقدامات کرنے سے حکومت کو روک نہیں سکتا ۔انہوں  نے  یہ بات واضح کردی کہ حکومت   علیحدگی پسند عناصر سے اور ان لوگوں سے جو سرحد پارکی دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں  ، کبھی  بات چیت نہیں کرے گی۔حکومت  جموں وکشمیر میں  امن اور ترقی کا عہد کرنے والے کسی بھی شخص سے بات کرے گی۔

سابق آندھرا پردیش کی ریاست کی  تقسیم کے بارے میں  اپوزیشن کی بات کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ اس تجویز کو ریاستی اسمبلی نے دو تہائی اکثریت سے مسترد کردیاتھا۔ یہاں تک کہ پہلی حکومت  نے تمام سیاسی پارٹیوں سے صلاح ومشورے کے بغیر یہ تقسیم کرادی ۔

دفعہ 370  کو ختم کرنے میں کوئی فرقہ وارانہ ایجنڈہ نہیں  ہے ،کیونکہ بہت سے طبقے اور مذہبی گروپ  جموںوکشمیر کے باسی ہیں ، جو یکساں طورپر متاثر ہوتے ہیں۔دفعہ 370  نے  سکھوں ،بودھوں اوردیگر اقلیتوں کے خلاف تفریق کو فروغ دیا ہے۔ جناب شاہ نے مزید کہا کہ پچھلے 70 برسوں  میں  41 ہزار 500سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔کیا ہم اسی راستے پر چلتے رہیں  گے اورلوگوں کو مرنے دیں گے ۔ اس صورتحال کے لئے کون ذمہ دار ہے ؟ کیا جموں وکشمیر اورلداخ کے نوجوانوں کو ترقی کی ضرورت نہیں  ہے ؟  ہم انہیں  ووٹ بینک کی سیاست کی وجہ سے کتنے عرصے تک محروم رکھیں  گے ۔ دفعہ 370  کو منسوخ کرنا ایک تاریخی غلطی نہیں  ہے بلکہ  یہ تاریخی غلطی کو سدھارنے  کا ایک تاریخی قدم ہے ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اس طرح کے جرأت مندانہ اقدامات  ووٹ بینک کے لئے نہیں  بلکہ  جموں وکشمیر کے لوگوں کی بہتری  کے لئے  کئے گئے ہیں ۔

جناب شاہ نے کہا کہ جو لوگ دفعہ 370  کے حامی ہیں  وہ بچہ شادی کی روک تھام کے قانون کے مخالف ہیں،جس کا اطلاق دفعہ 370 کی وجہ سے جموں وکشمیر پر نہیں ہوسکا۔اسی طرح  تعلیم کے حق ،  زمین کے حصول کے حق  ، کئی طرح کی معذوری کے قانون ،معمر افراد  سے متعلق قانون  ،حد بندی قانون  ،کرپشن کا پردہ چاک کرنے والوں کے تحفظ سےمتعلق قانون ، قبائلیوںکو  بااختیار بنانے سے متعلق بنائے گئے قوانین ، اقلیتوں کے قومی کمیشن ، ٹیچروںکی تعلیم سے متعلق قومی کونسل اور اسی طرح کے دوسرے قوانین کا جموں وکشمیر پر اطلاق نہیں ہوسکا۔

وزیر داخلہ نے ایوان سے پوچھا کہ  ریاست پر  ان قوانین کا اطلاق نہ ہونا جموںوکشمیر کے لوگوں کے حق میں کس طرح ہوسکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جموں وکشمیر  میں  صدر راج کے نفاذ کے بعد کرپشن  کے تمام کیس کھولے گئے اورجن کو نقصان پہنچ سکتا ہے، وہ دفعہ 370  کی منسوخی کی مخالفت کررہے ہیں ۔70 برسوںتک دفعہ  370  کے استعمال سے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا ۔آج اس حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد40 ہزارسے زیادہ پنچ اورسرپنچ جمہوری  عمل کو آگے بڑھارہے ہیں  اورترقی کی شروعات ہوچکی ہے ۔

سرحد پار کی دہشت گردی کے بارے میں بات کرتے ہوئے جناب شاہ نے کہا کہ پاکستان نے جموں وکشمیر میں  علیحدگی پسندی  اوردہشت گردی کے بیج بونے کے لئے دفعہ 370  کی  موجودگی کا غلط فائدہ اٹھایا ہے ۔جو لوگ دفعہ 370  کی حمایت کرتے ہیں  ، میں اُن سب سے اس بات پر غور کرنے کی اپیل کرتا ہوں  کہ اس ضابطے سے ریاست کو کیا فائدہ ہوا؟ اس دفعہ نے صرف  یہ کیا کہ وہاں ترقی کورو ک دیا اوردہشت گردی کی آبیاری کی ۔ اس ضابطے کو منسوخ کرن کے ذریعہ ہی  ہم لوگوں  کو اصل دھارے میں  لاسکتے ہیں اورانہیں  کھلے ہاتھوں سے گلے لگاسکتے ہیں ۔ جموں وکشمیر  زمین کی  جنت ہے اور میں ہر ایک کو  یہ یقین دلاتا ہوں کہ  بھارت کے تمام قوانین  لاگو ہونے کے بعد  یہ اسی طرح برقرار دہے گی۔

وزیر داخلہ نے ایوان سے اپیل کی کہ وہ ان تمام نکات پر غوروخوض کرے اور جموں وکشمیر کے لوگوں کو ترقی کے اصل دھارے میں لانے کے لئے حکومت کا ساتھ دے ۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More