آپ پچھلے 36 گھنٹوں سے مسلسل ، رکے بغیر چیلنج بھرے مسائل کو حل کرنے کے لئے کام کررہے ہیں، آپ کی توانائی کو سلام۔ میں آپ کے چہروں پر تھکن نہیں دیکھتا بلکہ تازگی ہی تازگی ہے۔
میں ایک اچھی طرح مکمل کئے گئے کام کا اطمینان دیکھتا ہوں، میرے خیال میں اطمینان کا یہ احساس چنئی کے خاص ناشتے – اِڈلی ، ڈوسا، وڈا سانبر سے بھی ملتا ہے۔ چنئی شہر کی میزبانی میں غیر معمولی گرم جوشی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہاں ہر کوئی شخص ، خاص طور پر سنگاپور سے آئے مہمانوں نے چنئی کا پورا لطف اٹھایا ہوگا۔
میں ہیکاتھان میں جیت حاصل کرنے والوں کو مبارک باد دیتا ہوں اور میں یہاں موجود ہر ایک نوجوان دوستوں کو خاص طور پر میرے طالب علم دوستوں کو مبارک باد دیتا ہوں۔ چیلنجوں کا سامنا کرنے اور ان کے لئے قابل عمل حل تلاش کرنے کے لئے آپ کی خواہش ، آپ کی توانائی اور آپ کا جوش اس مقابلے کو جیتنے سے کہیں زیادہ قابل قدر ہے۔
میرے نوجوان دوستوں یہاں ہم نے آج کئی مسائل حل کئے ہیں، مجھے خاص طور پر ایسے کیمروں کا حل زیادہ اچھا لگا ہے جویہ پتا لگاتا ہے کہ کون توجہ مرکوز کررہا ہے اور اب آپ دیکھئے کہ کیا ہوگا، میں پارلیمنٹ میں اپنے اسپیکر سے اس کے بارے میں بات کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ارکان پارلیمنٹ کے لئے کار آمد ہوگا۔
میرے لئے آپ میں سے ہر کوئی فاتح ہے۔ آپ جیت حاصل کرنے والے ہیں کیونکہ آپ خطرہ مول لینے سے گھبراتے نہیں ہیں، آپ نتائج کی پرواہ کئے بغیر اپنی کوششوں کے تئیں عہد بستہ ہیں۔
میں اس موقع پر سنگاپور حکومت میں وزیر تعلیم جناب اونگ یے کنگ اور نانیانگ ٹیکنیکل یونیورسٹی (این ٹی یو) کا خاص شکریہ ادا کروں گا جن کی مدد اور تعاون سے بھارت – سنگاپور ہیکا تھان نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔
بھارت کی جانب سے انسانی وسائل کے فروغ کی وزارت میں اختراعات کے شعبے ،آئی آئی ٹی مدراس اور آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن نے بھارت – سنگاپور ہیکا تھان کی انتہائی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے شاندار کا م انجام دیا ہے۔
کچھ چیزیں بہت اطمینان بخش ہیں کیونکہ کسی بھی کوشش کا آغاز ہی ایک تابناک اور شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔
میں نے سنگاپور کے اپنے پچھلے دورے کے دوران مشترکہ ہیکاتھان کا یہ نظریہ پیش کیا تھا۔ پچھلے سال اس کا اہتمام ننیانگ ٹیکنیکل یونیورسٹی نے سنگاپور میں کیا تھا۔ اس سال اس کا اہتمام آئی آئی ٹی مدراس کے تاریخی لیکن جدید کیمپس میں کیا گیا ہے۔
مجھے پچھلے سال بتایا گیا تھا کہ ہیکا تھان کا توجہ کا مرکز مقابلہ آرائی تھا۔ اس مرتبہ ہر ٹیم میں دونوں ملکوں کے طلباء شامل تھے جنہوں نے مسائل کو حل کرنے کے لئے مل کر کام کیا۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم مقابلہ آرائی سے آگے بڑھ کر اشتراک تک پہنچ گئے ہیں۔
یہی وہ قوت ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے، یعنی مشترکہ طور پر ان چیلنجوں کا سامنا کرنا جو ہم دونوں ملکوں کو درپیش ہیں۔
اس طرح کی ہیکاتھان نوجوانوں کے لئے بہت اہم ہے۔ اس میں شرکت کرنے والوں کو عالمی مسائل کے حل کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور انہیں یہ کام ایک مقررہ وقت میں کرنا ہوتا ہے۔
شرکت کرنے والے اپنے نظریات ، اپنی اختراعی صلاحیتوں کو جانچ سکتے ہیں اور مجھے پورا یقین ہے کہ آج کی ہیکاتھان میں دریافت کردہ حل کل کے اسٹارٹ اپ کا آئیدیا ہوں گے۔
ہم بھارت میں پچھلے پانچ برسوں سے اسمارٹ انڈیا ہیکاتھان منعقد کررہے ہیں۔
یہ پہل سرکاری محکموں، صنعت سے جڑے لوگوں اور تمام اہم اداروں کو یکجا کرتی ہے۔
ہم اسمارٹ انڈیا ہیکاتھان میں تجویز کردہ حل کو پروان چڑھاتے ہیں، فنڈ فراہم کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور انہیں اسٹارٹ اپ میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ انہی خطوط پر این ٹی یو ، ایم ایچ آر ڈی اور اے آئی سی ٹی ای اس مشترکہ ہیکا تھان سے حاصل ہونے والے نظریات پر مشترکہ پروجیکٹ قائم کرنے کے امکانات تلاش کریں گے۔
آج بھارت 50 گھر ڈالر کی معیشت بننے کے لئے تیار ہے اس کے لئے اسٹارٹ اپ اور اختراعات اہم رول ادا کریں گے۔
بھارت پہلے ہی اسٹارٹ اپ حامی ماحول والے تین اعلیٰ ترین ملکوں میں شامل ہے۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران ہم نے جدت طرازی اور پرورش کی حوصلہ افزائی پر خاص زور دیا ہے۔
اٹل انوویشن مشن ، پی ایم ریشر فیلو شپ ، اسٹارٹ انڈیا ابھیا جیسے پروگرام 21 ویں صدی کے بھارت کی بنیاد ہیں۔ ایک ایسے بھارت کی جو اختراعات کے کلچر کو فروغ دیتا ہے۔
ہم اب مشین لرننگ ، مصنوعی ذہانت اور بلاک چین جیسی جدید ترین ٹیکنالوجی سے اپنے طلباء کو ابتدائی دور میں یعنی چھٹے درجے میں ہی متعار ف کرانے کی کوشش کرہے ہیں۔
اسکول سے لے کر اعلیٰ تعلیم میں تحقیق تک ایک ایسا ماحول تیار کیا جارہا ہے جو اختراعات کا ذریعہ بن سکے۔
ہم جدت طرازی اور پرورش کو دو بڑی وجوہات سے حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ پہلی یہ کہ ہم زندگی کو زیادہ آسان بنانے کے لئے بھارت کو درپیش مسائل کے آسان حل چاہتے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم بھارت میں پوری دنیا کے لئے حل تلاش کرنے کے خواہش مند ہیں۔
عالمی استعمال کے لئے بھارتی حل – یہی ہمارا مقصد اور ہمار ا عہد ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے کم لاگت والے حل غریب ترین ملکوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دستیاب ہوں- بھارت کی اختراعات انتہائی غریب اور انتہائی محروم افراد کی مدد کے لئے ہیں، اس سے کوئی مطلب نہیں کہ وہ کہاں رہتے ہیں۔
دوستوں مجھے یقین ہے کہ ٹیکنالوجی لوگوں کو متحد کرتی ہے، یہاں تک کہ ملکوں اور بر اعظموں کے درمیان بھی متحد کرتی ہے۔ میں وزیر موصوف اونگ کی تجاویز کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
میں اس موقع پر یہ تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں کہ دیگر ایشیائی ممالک کی ، جو شرکت میں دلچسپی رکھتے ہیں، اسی طرح کی ہیکاتھان حکومت سنگاپور ، این ٹی یو اور حکومت ہند کی مدد سے منعقد کی جاسکتی ہیں۔
آیئے ہم ایشیائی ملکوں کے بہترین دماغوں کو اس مقابلہ آرائی کے لئے مدعو کریں کہ وہ عالمی حرارت اور آب وہوا میں تبدیلی کو کم کرنے کے لئے اختراعی حل پیش کرسکیں۔
آخر میں میں ایک بار پھر اس ہیکاتھان میں شریک ہونے والوں اور اس کو شاندار کامیابی سے ہمکنار کرنے والوں کو مبارک باد دیتا ہوں۔
آپ چنئی میں ہیں، جو ثقافت سے مالا مال ہے، عظیم وراثت کا حامل ہے اور انواع اقسام کے کھانے پیش کرتا ہے۔ میں تمام شرکت کرنے والوں ، خاص طور پر اپنے سنگاپور کے دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ چنئی میں اپنے قیام کا پورا لطف اٹھائیں۔ اس موقع کو مہا بلی پورم جیسے مقامات دیکھنے کے لئے استعمال کریں جو پتھر پر نقاشی اور پتھر سے بنائے گئے مندروں کے لئے مشہور ہے۔ ان مندروں کو یونیسکو کی عالمی وراثت کا درجہ حاصل ہے۔