میک اِن ان ڈیا پہل قدمی کے تحت زرعی تحقیقی کی بھارتی کونسل (آئی سی اے آر) –انڈین ویٹیرینری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی وی آر آئی) نے دو تشخیصی کٹ وضع کیے ہیں ، ان کے نام بلوٹانگ سینڈوِچ ایلیسا (ایس ایلیسا) اور جاپانی انسیفلائٹس 1 جی ایم ایلیسا کٹ رکھے گئے ہیں جو سوائن کو کنٹرول کریں گے اور انٹیجین کا پتہ لگائیں گے۔ ان دونوں کٹوں کو مویشی پالن اور دودھ کی صنعت کے محکمے کے سکریٹری جناب اتل چترویدی اور ڈی اے آر ای کے سکریٹری نیز آئی سی اے آر کے ڈ ی جی ڈاکٹر ٹی مہاپاترا نے آج کرشی بھون میں جاری کیا۔ مذکورہ دونوں کٹوں کی تیاری میں دیسی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ یہ دونوں نو وضع کردہ کٹ لاگت بچائیں گے یعنی غیرملکی زرمبادلہ کی بچت کریں گے بلکہ درآمد شدہ کٹوں کے مقابلے میں ان کی لاگت دس گنا کم ہوگی اور ان کی مدد سے غیر ملکی زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔
اس موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ترلوچن مہاپاترا نے مذکورہ دونوں کٹوں کے اہم نکات کی وضاحت کی۔جاپانی انسیفلائٹس (دماغی سوزش اور گردون توڑ بخار) (جے ای) ایلیسا کٹ (1 جی ایم )برائے سوائن کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مہاپاترا نے کہا کہ جے ای بار بار اُبھرنے والی وائرل کی شکل میں پھیلنے والی بیماری ہے جس کے نتیجے میں ملک میں ہر سال بچوں کی اموات رونما ہوجاتی ہیں۔ آئی سی اے آر اور انڈین ویٹیرینری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے جو کٹ وضع کیے ہیں وہ اصل معنوں میں جے ای وائرس کے تجزیے میں معاون ہوں گے۔ یعنی خنزیروں کی آبادی اور ان میں وائرس کی موجودگی کا پتہ لگانا آسان ہوگا جس کے ذریعے انسانوں میں جے ای کا مرض پھوٹ پڑتا ہے۔ بازار میں 52 ہزار روپئے کی قیمت پر دستیاب کاروباری کٹ کے مقابلے میں آئی سی اے آر – آئی وی آر آئی کے ذریعے تیار کیے گئے مذکورہ دونوں کٹ کاشتکاروں کو محض پانچ ہزار کی قیمت پر دستیاب ہیں۔ ڈائرکٹر جنرل موصوف نے کہا کہ ہر ایک کٹ کا مطلب یہ ہے کہ اس کٹ کی مدد سے تقریباً 45 نمونوں کا تجزیہ یا جانچ کی جاسکتی ہے۔
دوسرے کٹ یعنی بلوٹانگ سینڈ وچ ایلیسا کے اہم نکات کو نمایاں کرتے ہوئے جس کا استعمال اینٹی جین کی تشخیص کے لیے کیا جاتا ہے ڈاکٹر مہاپاترا نے کہا کہ بلوٹانگ (بی ٹی) وائرس ایک ایسا مرض ہے جو کیڑے مکوڑوں کی وجہ سے جو گھرو ں میں پائے جاتے ہیں، وائرل یعنی وبائی شکل میں پھیلتا ہے اور اس کے پھیلانے میں جنگلی پودے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ بیماری بھیڑوں، بکریوں ، مویشیوں ، بھینسوں اور اونٹوں میں پائی جاتی ہیں۔ کٹ کی مدد سے بلوٹانگ وائرس پر قابو حاصل کیا جاسکتا ہے یعنی متاثرہ جانوروں کو ٹیکہ لگاکر مخصوص ادویہ والا پانی پلاکر اور متاثرہ جانور کو الگ تھلگ کرکے اس وائرس پر قابو حاصل کیا جاسکتا ہے اس کے لئے بہترین انتظام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹیکہ کاری کے علاوہ جلد از جلد تشخیص اور متاثرہ جانوروں کو الگ تھلگ کردینا سب سے پہلا اصول ہے جسے تدارکی طریقہ کار کے تحت زیر تجویز لایا جاتا ہے تاکہ اس بیماری کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔
جناب اتل چترویدی نے آئی سی اے آر اور میویشی پالن کے محکمے کی مشترکہ کوششوں اور پہل قدمیوں کی ستائش کی اور کہا کہ یہ ایک لاثانی پہل قدمی ہے۔ جناب چترویدی نے کہا کہ دونوں کٹوں کے اجراء سے نہ صرف یہ کہ کاشتکار برادری کو فائدہ حاصل ہوگا بلکہ پورے معاشرے کو اس کا فائدہ ملے گا۔ معاشروں میں ہر سال مہلک ترین امراض کے نتیجے میں رونما ہونے والی اموات کی تعداد کا حوالہ دیتے ہوئے سکریٹری موصوف نے کہا کہ یہ کٹ صحیح معنوں میں بہت مدد گار ثابت ہوں گے۔
جناب سشیل کمار جو ڈی اے آر ای کے سکریٹری اور آئی سی اے آر کے بھی سکریٹری ہیں ، انہوں نے آئی سی اے آر اور مویشی پالن محکمے کی ستائش کی اور کہا کہ ان دونوں اداروں نے اس سمت میں بہت اچھا قدم اٹھایا ہے۔ جناب کمار نے کہا کہ ان کٹوں کو بڑے احتیاط سے تیا رکیا گیا ہے ۔ انہوں نے دونوں اداروں کے سائنسدانوں کے اس تحقیقی کام کی تعریف کی اور کٹوں کے اجراء سے پہلے ان کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔ ان کٹوں کی جانچ مخصوص وائرس اور امراض کے سلسلے میں بھی کی گئی جو جانوروں کے ذریعے پھیلتے ہیں۔
انڈین ویٹیرینری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر آر کے سنگھ نے زور دیکرکہا کہ چڑیوں ، خنزیروں اور جانوروں کے ذریعے وبائی شکل میں پھیلنے والی مہلک بیماریوں کی روک تھام کے لئے ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انسانوں کو چھوت کے ذریعے اکثر امراض لاحق ہوجاتے ہیں اور انسان اس سے سب سے زیادہ متاثرہوتے ہیں۔ انہو ں نے ایسے مختلف معاملات کے تئیں اپنی تشویش کااظہار کیا جن میں بچوں کو بڑوں کےمقابلے میں بیماریاں جلدی پکڑ لیتی ہیں اور بچے ہی زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کٹ درکار امداد فراہم کریں گے اور ہم اپنے نشانوں کو مؤثر طریقے اور بہتر اثرانگیزی کے ساتھ حاصل کرسکیں گے۔