نئی دلّی، نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم۔ وینکیا نائیڈو نے بھارتی اقدار اور بھارتی پس منظر کے ساتھ تاریخ لکھے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ”بر طانوی مورخوں نے 1857 کو پہلی جنگ آزادی کے طور پر کبھی بھی تسلیم نہیں کیا ہے اور اسے محض سپاہیوں کی ایک بغاوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ جناب نائیڈو نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا استحصال کرنے میں برطانیہ کے اپنے خود کے مفاد شامل تھے اور اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے تاریخ کو ایک ہتھیار یا اوزار بنا لیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے تعلیمی نظام کو بھارتی ثقافت اور روایات کا عکاس اور آئینہ دار ہونا چاہئیے۔ نائب صدر جمہوریہ ہند نے یہ کلمات دلّی تمل اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے طلباء سے آج نئی دلّی میں خطاب کرتے ہوئے ادا کئے۔
اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہ بھارت میں 19,500 سے زائد زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں، جناب نائیڈو نے اس بات پر زور دیا کہ اس مالا مال لسانی ورثے کو مستحکم کرنے اور تقویت دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ بھارت کی خوش بختی ہے کہ یہ متعدد زندہ زبانوں سے مالا مال ملک ہے اور ہمیں اس پر فخر ہونا چاہئیے۔انہوں نے کہا کہ ہر بچے کو بنیادی اسکولی تعلیم اس کی مادری زبان میں ملنی چاہئیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے نہ صرف سیکھنے کے بہتر نتائج بر آمد ہوں گے بلکہ اس سے طویل منظر نامے میں ہماری زبانوں کا تحفظ بھی ہو گا۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے طلباء کو ملک کے مستقبل کا رہنما تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں نہ صرف اپنی تعلیم میں مہارت حاصل کرنی چاہئیے بلکہ ملک کو درپیش مسائل سے بھی نبرد آزما ہونا چاہئیے۔ انہوں نے طلباء سے کہا کہ انہیں اپنی تعلیم محض کلاس روم تک محدود نہیں رکھنی چاہئیے،انہوں نے نصیحت کی کہ وہ اپنا وقت باہر بھی گزاریں خاص طور پر فطرت کی گود میں۔ ’فطرت آپ کو بہتر شخص بننے میں مدد کرے گی… ایک غور و فکر کرنے والی شخصیت چھوٹی سے چھوٹی تخلیق کے تئیں بھی حساس ہے۔ انہوں نے ترقی کے لئے ایک پائیدار راستہ اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
جناب نائیڈو نے طلباء سے کھیلوں میں دل چسپی لے کر جسمانی طور پر چاق و چوبند رہنے کے لئے کہا۔ انہوں نے کہا کہ غیر متعدی بیماریوں میں اضافے کی اہم وجہ لائف اسٹائل کی تبدیلی ہے اور نو جوان نسل کو یوگا اور بھارتی روایتی کھانوں کے صحتی فوائد کے تئیں حساس ہونا چاہئیے ۔ انہوں نے وزیر اعظم کے ذریعہ لانچ کئے گئے فٹ انڈیا موومنٹ کے پیغام کو پھیلانے کے لئے بھی طلباء سے اپیل کی۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے یہ یاد دہانی کراتے ہوئے کہ بھارت کسی زمانے میں وشو گورو یا استاد عالم کے طور پر جانا جاتا تھا، کہا کہ بھارت کو ایک بار پھر بن جانا چاہئیے اورساتھ ہی اختراعات اور نالج کا ایک ہب بھی بننا چاہئیے۔ اس کے لئے انہوں نے اکیسویں صدی کے طلباء کو در پیش مسائل کا سامنا کرنے کے لئے تعلیمی نظام میں اصلاحی تبدیلیوں کا مشورہ دیا۔ انہوں نے طلباء کو یہ بھی تلقین کی کہ وہ مستقبل کی کوششوں کے لئے ا ’انڈیا فرسٹ‘ کا منتر پنے ذہن میں رکھیں۔
نائب صدر جمہوریہ ہند کی تقریر کا متن حسب ذیل ہے:
پیارے دوستو،
آج آپ لوگوں کے درمیان آکر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔
مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ دلّی تمل اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن طلباء کی بہبود کے لئے خا ص طور پر دلّی میں تعلیم حاصل کر رہے جنوبی ہند کے طلباء کی بہبود کے لئے بہت اچھا کام کر رہی ہے۔
پیارے طلباء،
آپ اس ملک کا مستقبل ہیں۔ آپ وہ توانائی ہیں جو کل اس قوم کی قیادت کریں گے۔ اس لئے آپ کو نہ صرف اپنی تعلیم میں مہارت حاصل کرنی چاہئیے بلکہ قوم کو در پیش مسائل کے تئیں بھی آگاہ رہنا چاہئیے۔ اس سے آپ کو مستقبل میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی تیاری میں مدد ملے گی۔ یہ ایک عام فہم حقیقت ہے کہ ہمارے عظیم ترین رہنماؤں نے اپنے بہترین اسباق اپنے طالب علمی کے زمانے میں ملک کے لئے لڑتے ہوئے سیکھے تھے۔
ابھی جب کہ آپ اپنے تشکیل کے دور سے گزر رہے ہیں، میں آپ سیکھنے کا مشورہ دوں گا جتنا بھی زیادہ سے زیادہ آپ سیکھ سکتے ہیں۔۔ اور سیکھنا صرف کتابوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ نلکہ میں چاہوں گا کہ آپ اپنا نصف وقت کلاس روم کے باہر گزاریں۔ آپ کو فطرت سے قریب اور ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے۔ فطرت آپ کو بہترین سبق دیتی ہے۔ یہ آپ کو بہتر شخصیت بننے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ فطرت کے تئیں حساس شخص چھوٹی سے چھوٹی مخلوق کے تئیں حساس ہوتا ہے، نہ کہ صرف انسان کے لئے۔ ہمارا ترقیاتی ماڈل ماحولیات سے ہم آہنگ ہونا چاہئیے اور اسے ایک پائیدار راستے کی پیروی کرنی چاہئیے۔
مزید برآں، میں کہنا چاہوں گا کہ سب کو کھیلوں کے تئیں بھی متحرک ہونا چاہئیے۔ ایک یا زائد کھیل اپنی پسند کے مطابق چن لیجئے اور ہر روز کم از کم ایک گھنٹہ کھیل کے میدان میں گزاریں۔میں خود ہر روز ایک گھنٹہ بیڈ منٹن کھیلا کرتا ہوں۔۔۔ یہاں تک کہ اس عمر میں بھی۔ آپ ذہنی طور پر فٹ نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ جسمانی طور پر فٹ نہیں ہیں۔ ہمارے دور قدیم کے رشی منیوں نے اس بات کو سمجھا اور یوگا کی شکل میں ہمیں عظیم حکمت بخشی۔ ہمارے وزیر اعظم نے فنٹ انڈیا موومنٹ لانچ کی ہے اور میں آپ سے اسے وسیع پیمانے پر اپنانے کے لئے کہتا ہوں،اور آپ کے ہر شناساکے لئے بھی۔ آپ اپنی مثال دے کر دوسروں کو تحریک و ترغیب دیں۔
نو جوان دوستو،
آپ کو نہ صرف عہد حاضر کے مسائل میں دل چسپی لینی چاہئیے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی کے بارے میں بھی حساس ہونا چاہئیے۔ تاریخ در حقیقت، وہ نہیں ہے جو کہ اہل برطانیہ نے ہمیں پڑھائی اور سکھائی ہے۔ بھارت میں حکومت کرنے کے ان کے اپنے مفادات تھے، جس کے لئے انہوں نے بڑے پیمانے پر انسانی اور قدرتی وسائل کا استحصال کیا۔ ان کی پالیسیاں اس لالچ کی مرہون منت تھیں۔ یہاں تک کہ تاریخ بھی اس مقصد کے حصول کے لئے ایک ہتھیار یا اوزار بن گئی تھی۔ برطانوی مورخوں نے 1857 کو کبھی بھی پہلی جنگ آزادی کے طور پر تسلیم نہی کیا، بلکہ انہوں نے اسے سپاہیوں کی بغاوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو، ان کا اصول بن گیا تھا۔ ہمیں بھارتی اقدار اور بھارتی پس منظر نامے کے ساتھ تاریخ کو سمجھنے کے ضرورت ہے۔
ہمیں اپنی نو جوان نسل کو اس حقیقت سے آشکارہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری قوم معلومات اور دانش مندی کا خزانہ ہے اور کسی زمانے میں بھات وشو گورو یا استاد عالم کے طور پر گردانا جاتا تھا۔ ہمارے لرننگ سینٹر مثلاً نالندہ اور ٹیکسلا پوری دنیا میں مشہور تھے اور علم کے متلاشی دنیا بھر سے یہاں آیا کرتے تھے اور لرننگ کے ان مندروں میں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔
ہمارا قدیم گوروکل تعلیمی نظام اپنے گورو۔ چیلے کی روایت کے ساتھ اقدار پر مبنی روحانی تعلیم مہیا کراتا تھا اور افراد کو با اختیار بنایا کرتا تھا۔
بھارت ایک بار پھر وشو گورو یا استاد عالم بن سکتا ہے اور اختراعات و نالج کا ہب بن سکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں اپنے تعلیمی نظام کی تیزی سے تجدید نو کرنی ہو گی اور اپنے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کو عالمی معیار کے مطابق بنانا ہو گا۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو مکمل طور پر تبدیل کو اکیسویں صدی کو در پیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ہم آہنگ بنانا ہوگا۔ ہمیں ایک ایسے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو کہ طلباء کو ایک مکمل انسان بنا دے جو کہ حساس ہو اور معاشرے کے کم تر طبقے کے لئے ہمدردی سے بھر پور ہو۔
پیارے دوستو،
میں ایک بار پھر اپنے مالا مال لسانی ورثے کو بچانے کی اہمیت پر زور دیتا ہوں۔ بھارت ایک خوش بخت ملک ہے جس میں بے شمار زبانیں اور بولیاں زندہ ہیں۔ زائد از 19,500 زبانیں اور بولیاں ہمارے ملک میں مادری زبان کے طور پر بولی جاتی ہیں۔ ہمیں اس تنوع کو آگے بڑھانا ہے، ہمیں اسے تقویت دینی ہے… ہمیں اس پر فخر کرنا چاہئیے۔ میرا یہ نظریہ ہے کہ ہر بچے کو بنیادی اسکولی تعلیم اس کی مادری زبان میں ملنی چاہئیے۔ اس نہ صرف سیکھنے کے بہتر نتائج بر آمد ہوں گے بلکہ اس طویل مدتی طور پر ہماری زبانوں کو تحفظ حاصل ہو گا۔
پیارے دوستو،
مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ دلّی تمل اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن اقتصادی طور پر کم زور طلباء کو وظائف فراہم کراتی ہے اور انہیں آگے بڑھنے کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کراتی ہے۔
تعلیم کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں یہ تشویش ناک ہے۔ تعلیم ایک بنیادی ضرورت ہے اور اسے قابل بر داشت اور قابل استطاعت ہونا چاہئیے۔ آج کا بھارت نو جوان سے اور خواہشات سے بھر پور ہے اور ہمیں ان با صلاحیت نو جوانوں کی خواہشات کی تکمیل کے لئے ماحول کو ساز گار بنانا چاہئیے۔
یہ ایک مسرت آمیز امر ہے کہ دلّی تمل اسٹوڈنٹس ایسو سی ایشن کشمیر سے کنیا کماری تک، ہم ایک ہیں کے جذبات کو فروغ دینے کی غرض سے دلّی میں ثقافتی پروگراموں کا انعقاد کرتی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس اچھے کام کو قومی یک جہتی کے لئے جاری رکھیں گے اور انڈیا فرسٹ کا منتر آپ کے مستقبل کی رہنمائی کرتا رہے گا۔