نئی دہلی، نامیاتی زراعت کے فروغ کی کہانی نہ صرف بھارت میں بلکہ عالمی سطح پر بھی بڑھتی مانگ کی بدولت اب پوری طرح سے ہمارے سامنے ہے۔ کووڈ کی وبا سے پریشان حال دنیا میں صحت بخش اور محفوظ کھانے کی مانگ پہلے سے ہی مسلسل بڑھتی جارہی ہے، لہٰذا اس خوشگوار صورت حال کے بیان کا یہ بالکل مناسب موقع ہے کہ کس طرح یہ ہمارے کسانوں، صارفین اور ماحولیات کے لئے منفعت بخش سودا ہے۔
بھارت نامیاتی کاشت کاروں کی کل تعداد کے معاملے میں اوّل مقام پر ہے اور نامیاتی کاشت کاری کے تحت کل رقبے کے نقطہ نظر سے نویں مقام پر ہے۔ سکم پوری طرح سے نامیاتی بننے والی دنیا کی پہلی ریاست بن گیا ہے۔ یہی نہیں تری پورہ اور اتراکھنڈ سمیت دیگر ریاستوں نے بھی ٹھیک اسی طرح کے اہداف طے کئے ہیں۔ شمال مشرقی بھارت روایتی طور پر نامیاتی رہا ہے اور یہاں کیمیاجات کی کھپت ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ اسی طرح آدی واسی یا قبائلی و جزیراتی علاقوں کی اپنی نامیاتی کہانی مسلسل جاری رکھنے کے لئے حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
نامیاتی کاشت کاری اپنانے میں کسانوں کی مدد کرنے اور پریمیم پرائزیز کی بدولت محنتانہ بڑھانے کے مقصد سے دو خصوصی پروگرام یعنی شمال مشرقی خطے کے لئے مشن آرگینک ویلیو چین ڈیولپمنٹ (ایم او وی سی ڈی) اور پرمپراگت کرشی وکاس یوجنا (پی کے وی وائی) کا آغاز سال 2015 میں کیا گیا تھا، تاکہ کیمیاجات سے پاک کاشت کاری کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی ایگری – ایکسپورٹ پالیسی (زرعی برآمداتی پالیسی) 2018 کے تحت دیئے گئے خصوصی زور کی بدولت بھارت عالمی نامیاتی بازاروں میں ایک اہم ملک کے طور پر ابھرکر سامنے آسکتا ہے۔ بھارت سے نامیاتی برآمدات خاص طور پر السی کے بیج، تل، سویابین، چائے، دواسازی کے کام میں آنے والے پودوں، چاول اور دالوں کی ہوتی رہی ہے۔ سال 2018-19 میں ہوئی 5151 کروڑ روپئے کی کل نامیاتی برآمدات میں تقریباً 50 فیصد کا قابل ذکر اضافہ کرنے میں معاون ثابت ہوئے تھے۔ آسام، میزورم، منی پور اور ناگالینڈ سے برطانیہ، امریکہ، سوازی لینڈ اور اٹلی کو برآمد کرنے کی جو معمول کی شروعات ہوئی ہے اس میں کل مقدار کو بڑھاکر اور نئی منزلوں تک وسعت دے کر اپنی صلاحیت بخوبی ثابت کرتی ہے۔ دراصل صحت بخش خوردنی اشیاء کی مانگ مسلسل بڑھنے سے ہی یہ ممکن ہوپارہا ہے۔
سرٹیفکیشن، صارفین میں اعتماد پیدا کرنے کے نقطہ نظر سے نامیاتی مصنوعات کا ایک اہم عنصر ہے۔ پی کے وی وائی اور ایم او وی سی ڈی دونوں ہی شراکت داری ضمانتی نظام (پی جی ایس) اور قومی پروگرام برائے نامیاتی پیداوار (این پی او پی) کے تحت سرٹیفکیشن کو بڑھاوا دے رہے ہیں، جو بالترتیب گھریلو اور برآمداتی بازاروں کو پیش نظر رکھ رہے ہیں۔ غذائی تحفظ اور معیارات (نامیاتی خوراک) ضوابط 2017 دراصل این پی او پی اور پی جی ایس کے معیارات پر مبنی ہیں۔ ہر ایک صارف کو پیداوار کے نامیاتی سرٹیفکیشن کی توثیق کرنے کے لئے متعلقہ پیداوار پر ایف ایس ایس اے آئی، جیوک بھارت / پی جی ایس آرگینک انڈیا کے لوگو کو لازماً ڈھونڈنا چاہئے۔ نامیاتی بننے جارہے کیمیاجات سے پاک پیداوار کو پی جی ایس گرین کیا جاتا ہے، جس میں تین سال لگتے ہیں۔
پی کے وی وائی کے تحت تقریباً 40000 کلسٹروں کی مدد کی جارہی ہے، جن کے تحت تقریباً 7 لاکھ ہیکٹیئر رقبے کو کور کیا جارہا ہے۔ ایم او وی سی ڈی نے تقریباً 80000 ہیکٹیئر میں کاشت کاری کرنے والے 160 ایف پی او کو اپنے دائرے میں لانے کا کام کیا ہے۔ ان کلسٹروں کو پائیدار بنانے کے لئے یہ انتہائی اہم ہے کہ اب سے معاہداتی کاشت کاری طریقہ کار میں بازار کی سرپرستی میں پیداوار شروع کی جائے، تاکہ پیداوار کے لئے ایک تیار بازار ہو اور ضرورت پڑنے پر صنعتی حلقے کو بھی خاطرخواہ مقدار میں متوقع معیار والی پیداوار دستیاب ہوسکے۔ اسے پائیٹو ایکسٹریٹس صنعتوں سمیت تھوک خریداروں کے ساتھ صحیح معنوں میں آگے بڑھایا جارہا ہے۔ سب سے زیادہ صلاحیت والی اشیاء میں ادرک، ہلدی، کالے چاول، مسالے، غذائیت والے اناج، انناس، دواسازی میں کام آنے والے پودے، کوٹو (بک وہیٹ)، بانس کے انکر وغیرہ شامل ہیں۔ میگھالیہ سے مدر ڈیری کے لئے، منی پور سے ریونتا فوڈس اور بگ باسکیٹ سمیت شمال مشرقی خطے سے سپلائی شروع ہوگئی ہے۔ کسان گروپوں کے ذریعے آر ڈبلیو اے میں بازار قائم کرنے اور براہ راست طور پر فروخت کرنے کی مثالیں بڑی تیزی سے مہاراشٹر اور کرناٹک میں معمول کی بات ہوتی جارہی ہے، جہاں کے شہری لوگوں کے ذریعے تازہ نامیاتی مصنوعات کو دھڑلے سے خریدا جارہا ہے اور کسانوں کو بچولیوں کے بغیر بہتر قیمت مل رہی ہے۔ چھوٹے اور منجھلے کسانوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر پیداوار کرنے کے لئے ایگریگیٹروں کی موجودگی ضروری ہے۔ اسے پیش نظر رکھتے ہوئے بازار کی قیادت میں ’ایک ضلع ایک پیداوار‘ کے تصور کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ اسی طرح بڑے شہروں کے نواحی علاقوں میں اور بھی زیادہ کلسٹروں کے فروغ کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، کیونکہ وہاں نامیاتی خوردنی اشیاء کی مانگ بہت زیادہ ہوگی۔
جب وبا کا قہر بھارت میں بڑھا تب معیاری خوردنی اشیاء کا حصول ملک کے لئے اتنا ہی ترجیحی تھا جتنی کہ صحت۔ منڈیوں میں بھیڑ کم کرنے کے لئے ڈائریکٹ مارکیٹنگ کی حمایت کرنے والی جو ایڈوائزری ریاستوں کو جاری کی گئی، اسے دھیان میں رکھتے ہوئے متعدد ریاستوں نے احکامات جاری کئے اور قوانین میں ترامیم کیں، جس سے کسانوں کے لئے بازار میں متبادل کھل رہے ہیں۔ رسد (لوجسٹکس) اور مستقل بازاروں تک رسائی نے خلل اور مانگ میں کمی سے نبردآزما متعدد ریاستوں اور کلسٹروں نے جدت طرازی سے کام لیا اور اس بحران کو ایک موقع میں تبدیل کردیا۔ کوہیما کے گرین کارواں نے سبزیوں، ہینڈ کرافٹ اور ہتھ کرگھوں کے لئے ناگالینڈ کے سبھی گاؤں سے لے کر شہری علاقوں تک بازار روابط قائم کئے۔ (www.instamojo.com) مہاراشٹر میں ایف پی او کے ذریعے پھلوں اور سبزیوں کی آن لائن فروخت کی گئی اور پنجاب میں خاص طور پر ڈیزائن کئے گئے الیکٹرک وین سے صارفین کو گھروں پر ڈیلیوری کی گئی۔ منی پور آرگینک ایجنسی (ایم او ایم اے) نے پیداوار کو اکٹھا کرنے اور امپھال میں سنجین تھونگ اور چنگ میریونگ میں واقع دو تھوک مراکز تک ڈھلائی کے لئے ایم او وی سی ڈی کے سبھی 15 ایف پی سی کو متحد کیا، تاکہ صارفین کو آگے ڈیلیوری کی جاسکے۔
کسانوں کو خوردہ اور تھوک خریداروں سے براہ راست جوڑنے کے لئے آرگینک ای-کامرس پلیٹ فارم www.jaivikkheti.in کو مضبوط کیا جارہا ہے۔ وبا کے دوران ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا بڑے پیمانے پر استعمال کئے جانے کی سخت ضرورت محسوس کی گئی ہے اور یہ یقیناً خوش آئند ہے، کیونکہ اس سے اطلاعات کے اشتراک کی کوالٹی سے کوئی سمجھوتہ کئے بغیر سفر، لاجسٹکس وغیرہ پر ہونے والے اخراجات میں بچت ہوگی۔ دراصل ویڈیو کانفرنسنگ اور ویبینار نے فیلڈ یا متعلقہ خطے میں کئی اور لوگوں سے رابطے کو ممکن بنادیا ہے، جس سے ان کے کاموں میں کوئی خاص رخنہ بھی نہیں پڑتا ہے اور جو وجودی (فیزیکل) میٹنگوں میں قطعی ممکن نہیں تھا۔ شمال مشرقی ریاستوں نے آئی سی اے آر کے ذریعے تیار کئے گئے مربوط نامیاتی کاشت کاری ماڈلوں کے موضوع پر منعقدہ ایک ویبینار میں شرکت کی، جس کا مقصد پیداواریت اور مربوط غذائی عناصر کو بڑھانا اور کیڑے مکوڑوں کا بندوبست کرنا اور اس طرح سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کرنا ہے۔ کمپنیوں کو درپیش مسائل کو سمجھنے اور ریاستوں و کلسٹروں کو ضروری سہارا دینے کی ذمے داری سنبھالنے والی علاقائی کونسلوں کے ساتھ بات چیت کو تقویت دینے کے لئے ویڈیو کانفرنسیز منعقد کی جارہی ہیں اور اس عمل میں کسانوں / کسانوں کے گروپوں سے براہ راست خرید کے لئے نئی شراکت داریاں کی جارہی ہیں۔
بھارت میں قدرتی کاشت کاری کوئی نیا تصور نہیں ہے، اس پر عمل کرتے ہوئے کسان قدیم زمانے سے ہی کیمیاجات کا استعمال کئے بغیر ہی خاص طور پر حیاتیاتی باقیات، گائے کے گوبر، قدرتی کھاد وغیرہ پر انحصار کرتے ہوئے اپنی زمین پر کاشت کاری کررہے ہیں۔ مٹی، پانی، مائیکروبس (انتہائی چھوٹے جراثیم) اور فضلہ جات پیداواروں، جنگل کاری اور زراعت جیسے عناصر کی یکجائی والی نامیاتی کاشت کاری میں پنہاں تصور دراصل قدرتی وسائل کے پائیدار استعمال کے لئے صحیح نسخہ ہے، جن پر خورد و نوش اور زراعت پر مبنی صنعتوں کے لئے خام مال کی مسلسل بڑھتی ضرورت کے سبب دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ یہ پائیدار ترقیاتی اہداف کے موافق بھی ہے، جس میں بھکمری کو ختم کرنے، غذائی تحفظ کے حصول اور غذائیت میں بہتری لانے اور پائیدار زراعت کو بڑھاوا دینے جیسے اہداف رکھے گئے ہیں۔
لہٰذا بیداری اور بین الاقوامی معیارات پر عمل درآمد کے لئے پیداوری کام کرنے والوں کی ضروری صلاحیت سازی کے ساتھ بھارت کے نامیاتی کاشت کار جلد ہی عالمی زرعی تجارت میں اپنے صحیح مقام کو ازسرنو حاصل کرسکیں گے۔