16.7 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

وزیر اعظم نے ایسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز کی 95ویں سالانہ میٹنگ اور وائس چانسلروں کے قومی سمینار سے خطاب کیا

Urdu News

نئی دہلی، وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ایسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز کی 95ویں سالانہ میٹنگ اور وائس چانسلروں کے قومی سمینار سے خطاب کیا۔ انھوں نے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر سے  متعلق چار کتابوں کا اجرا بھی کیا، جن کی تصنیف جناب کشور مکوانا نے کی ہے۔ گجرات کے گورنر، وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم اور مرکزی وزیر تعلیم اس موقع پر موجود لوگوں میں شامل تھے۔ تقریب کی میزبانی ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر اوپن یونیورسٹی، احمدآباد نے کی۔

وزیر اعظم نے ممنون قوم کی جانب سے بھارت رتن بابا صاحب ڈاکٹر امبیڈکر کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ان کی جینتی اس موقع پر پڑرہی ہے جب ملک آزادی کا امرت مہوتسو منارہا ہے، اس سے ہمیں ایک نئی توانائی ملتی ہے۔

جناب مودی نے زور دے کر کہا کہ بھارت دنیا میں جمہوریت کی ماں رہی ہے اور جمہوریت ہماری تہذیب اور طرز زندگی کا لازمی جزو رہی ہے۔ بابا صاحب نے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی جمہوریت وراثت کو مضبوط کرنے کے لئے ٹھوس بنیاد رکھی۔

بابا صاحب کے فلسفے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ڈاکٹر امبیڈکر علم، عزت نفس اور نرمی کو اپنے تین مقدس دیوتا تصور کرتے تھے۔ عزت نفس علم کے ساتھ آتی ہے اور یہ انسان کو اپنے حقوق سے آگاہ کرتی ہے۔ مساوی حقوق سے سماجی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور ملک ترقی کرتا ہے۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام اور یونیورسٹیوں کی ذمے داری ہے کہ وہ ملک کو بابا صاحب کے ذریعے دکھائی گئی راہ پر آگے لے جائیں۔

قومی تعلیمی پالیسی کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا کہ ہر طالب علم کے اندر مخصوص صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ یہ صلاحیتیں طلباء اور اساتذہ کے سامنے تین سوال کھڑے کرتی ہیں۔ پہلا – وہ کیا کرسکتے ہیں؟ دوسرا – اگر مناسب طریقے سے تعلیم دی جائے تو ان کے اندر کیا امکانات ہیں؟ اور تیسرا – وہ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ پہلے سوال کا جواب طلباء کی اندرونی قوت ہے۔ تاہم اگر اس میں ادارہ جاتی قوت کو جوڑ دیا جائے تو ان کی ترقی کا دائرہ وسیع ہوجائے گا اور وہ اس لائق ہوجائیں گے جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کا حوالہ پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی کا مقصد ڈاکٹر رادھا کرشنن کے تعلیم کے تصور کی تکمیل ہے جو طلباء کو آزادی دیتی ہے اور انھیں اس چیز کا اختیار دیتی ہے کہ وہ قومی تعمیر و ترقی کے کام میں حصہ لے سکیں۔ تعلیم کا بندوبست پوری دنیا کو ایک اکائی تصور کرتے ہوئے کیا جانا چاہئے، تاہم اس میں خصوصی توجہ بھارت کے تعلیمی کردار پر ہونی چاہئے۔

ابھرتے ہوئے آتم نربھر بھارت میں ہنرمندیوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کو مستقبل کے مصنوعی ذہانت، انٹرنیٹ آف تھنگس، بگ ڈیٹا، 3ڈی پرنٹنگ، ورچول ریئلٹی اینڈ روبوٹکس، موبائل ٹیکنالوجی، جیو- انفارمیٹکس، اسمارٹ ہیلتھ کیئر اینڈ ڈیفنس سیکٹر کے مرکز کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ہنرمندیوں سے متعلق ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ملک کے تین بڑے میٹرو پولیٹن شہروں میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسکلس کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ ممبئی میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسکلس کے پہلے بیچ کا آغاز ہوچکا ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ 2018 میں نیسکام  کے ساتھ مل کر فیوچر اسکلس انشیٹو کا آغاز کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سبھی یونیورسٹیاں کثیر- موضوعاتی ہوں، کیونکہ ہماری خواہش طلباء کو لچیلے پن سہولت دستیاب کرانے کی ہے۔ انھوں نے وائس چانسلروں سے اس ہدف کے لئے کام کرنے کی اپیل کی۔

جناب مودی نے سبھی کے لئے مساوی حقوق اور مساوی مواقع کے تئیں بابا صاحب کی عہد بستگی پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ جن دھن کھاتوں جیسی اسکیمیں ہر شخص کے لئے مالی شمولیت کی راہ ہموار کرتی ہیں اور ڈی بی ٹی کے توسط سے پیسہ براہ راست ان کے کھاتوں میں پہنچتا ہے۔ وزیر اعظم نے بابا صاحب کے پیغام کو ہر شخص تک پہنچانے کے تئیں ملک کی عہد بستگی کا اعادہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ پنچ تیرتھ جیسے بابا صاحب کی زندگی سے منسلک مقامات کا فروغ اس سمت میں ایک قدم ہے۔ انھوں نے کہا کہ جل جیون مشن، مفت رہائش گاہ، مفت بجلی، وبا کے دوران مددجیسے اقدامات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے پہل بابا صاحب کے خوابوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی زندگی پر جناب کشور مکوانا کے ذریعہ تحریر کردہ درج ذیل چار کتابوں کا اجرا کیا:

  1. ڈاکٹر امبیڈکر جیون درشن،
  2. ڈاکٹر امبیڈکر ویکتی درجن،
  3. ڈاکٹر امبیڈکر راشٹر درشن، اور
  4. ڈاکٹر امبیڈکر آیام درشن

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ کتابیں جدید کلاسک سے کم نہیں ہیں اور بابا صاحب کے آفاقی تصور کو پھیلانے کا کام کرتی ہیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء بڑے پیمانے پر ایسی کتابوں کا مطالعہ کریں گے۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More