مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے آج جموں میں کہاکہ اسٹارٹ اپ میں خود روزگار کے کئی مواقع سرکاری نوکریوں کے مقابلے کہیں زیادہ دلکش ہیں اور ضرورت صرف اس ذہنیت کو بدلنے کی ہے جو معمولی تنخواہ اور تھوڑے وقت کی سرکاری نوکری کو ترجیح دیتی ہے۔ اس کی بجائے خود روزگار کے لیے اسٹارٹ اپ سے متعلق پہل سے شروعات سے ہی نسبتاً کئی گنا زیادہ رٹرن حاصل کیا جا سکتا ہے۔
سی ایس آئی آر-انڈین انسٹی ٹیوٹ آف انٹیگریٹو میڈیسن (آئی آئی آئی ایم) میں سی ایس آئی آر-اروما مشن مرحلہ- دوئم کے تحت کسانوں کے لیے یک روزہ بیداری و تعلیمی پروگرام کا انعقاد کرنے کے بعد زرعی اسٹارٹ اپ، نوجوان صنعت کاروں اور کسانوں کے ساتھ بات چیت کے دوران ڈاکٹر جتیندر سنگھ کو ایک نوجوان صنعت کار نے بتایا کہ انہوں نے کھیتی میں جدید تکنیک کا استعمال کرکے محض ایک ہیکٹیئر زمین سے 3 لاکھ روپے سالانہ کمانا شروع کر دیا تھا۔ جب کہ دو بی ٹیک گریجویٹ انجینئروں نے کہا کہ اسی طرح کی اسٹارٹ اپ پہل کے ذریعے ان کی آمدنی محض پانچ مہینے کی معمولی مدت میں دو گنی ہو گئی تھی۔
اس کے جواب میں وزیر موصوف نے کہا کہ یہ ان بھٹکے ہوئے نوجوانوں کے لیے ایک پیغام ہے جو دہاڑی مزدوری والی نوکری کے لیے جدوجہد کرتے ہیں جس سے انہیں ۶۰۰۰ روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں مل سکتا ہے۔ جب کہ ہمارے پاس ایسے نوجوان اسٹارٹ اپ ہیں جو نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے ساتھیوں کے لیے بھی دلکش معاش حاصل کر رہے ہیں۔ وزیر موصوف نے کہا کہ نوجوانوں اور ان کے والدین کے لیے واضح طور پر ترجیحات طے کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کوئی بھی حکومت ہر ایک نوجوان کو سرکاری نوکری نہیں دے سکتی ہے، لیکن وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت والی ایک ذمہ دار سرکار نے نوجوانوں کے لیے خود روزگار کے ذریعے معاش حاصل کرنے کے انوکھے مواقع پیدا کیے ہیں۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ڈپارٹمنٹ آف پرسنل اور ٹریننگ (ڈی او پی ٹی) نے سرکاری نوکریوں میں انٹرویو کو ختم کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں انٹرویو کے نمبرات میں ہیر پھیر کرکے اقربا پروری، امتیاز یا کسی دیگر طریقے سے نوکری حاصل کرنے کی گنجائش کم سے کم ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے میں ہر ایک شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو بالکل وضاحت کے ساتھ اپنی ترجیحات طے کرنے کے لیے بیدار کرے اور یہ طے کرے کہ کیا اس کے پاس سرکاری نوکری کے لیے قابلیت اور صلاحیت ہے یا وہ سرکاری شعبہ کے باہر کسی پیشہ کے ذریعے معاش حاصل کرنے کے لیے ہنرمندی اور لیاقت حاصل کرے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے ادارہ کی تاریخی حصولیابیوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ انہوں نے تجارتی طور پر بڑے پیمانے پر استعمال کیے جانے والے پودینے کے پودے کا خاص طور سے ذکر کیا جو ادارہ کی وراثت کا ایک حصہ ہے۔ اس مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں لیوینڈر کی کھیتی کی وسعت کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ادارہ نے بھارت میں بینگنی انقلاب میں ایک اہم رول ادا کیا ہے جو کاشت کار برادری کو ان کی آمدنی بڑھانے اور معاش میں بہتری کرنے میں مدد کرر ہا ہے۔
سال 2022 تک کسانوں کی آمدنی دو گنی کرنے کے لیے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے ذریعے کی گئی اپیل کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ جموں و کشمیر امدادی شعبوں اور آئی آئی آئی ایم جموں جیسے اداروں کی مدد سے کسانوں کی آمدنی میں لگاتار بہتری آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت اور متعلقہ شعبوں اور محققین کی توجہ پیداوار کی بجائے پیداواریت پر ہونی چاہیے۔
مارچ 2021 تک جموں علاقے (جیسے ڈوڈہ بھدرواہ) میں 800 سے زیادہ کسانوں کو 200 ایکڑ سے زیادہ زمین کے لیے لیوینڈر کے 13 لاکھ سے زیادہ جڑ والے پودے فراہم کیے گئے۔ ادارہ کے اندازے کے مطابق، لیوینڈر کو اپنانے والے کسانوں کی آمدنی تقریباً 20000 روپے فی ایکڑ سے بڑھ کر تقریباً 180000 روپے فی ایکڑ ہو چکی ہے۔