15.1 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

آل انڈیا ریڈیو پر وزیراعظم کےپروگرام ’من کی بات‘ کا اصل متن

Urdu News

نئی دہلی اگست؛ میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار۔ ایک طرف ملک تہوار میں ڈوبا ہوا ہے اور دوسری طرف سے ہندوستان کے کسی کونے سے جب تشدد کی خبریں آتی ہیں تو ملک کا فکرمند ہونا لازمی ہے۔ یہ ہمارا ملک، بدھ اور گاندھی کا ملک ہے، ملک کی اتحاد کے لیے جی جان لگا دینے والے سردار پٹیل کا ملک ہے۔ صدیوں سے ہمارے باپ دادا نے عوامی زندگی کے اقدار کو، اہنسا کو ، احترام کو اپنایا ہے، ہمارے ذہن میں بھرا ہوا ہے۔ اہنسا پر مو دھرمہ، یہ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں؛ کہتے آئے ہیں۔ میں نے لال قلعہ سے بھی کہا تھا کہ عقیدے کے نام پر تشدد برداشت نہیں ہوگی، چاہے وہ فرقہ وارانہ عقیدہ ہو، خواہ وہ سیاسی خیالات والے دھارا کے تئیں عقیدہ ہو، خواہ وہ شخص کے تئیں عقیدہ ہو، خواہ وہ روایات کے تئیں عقیدہ ہو، عقیدہ کے نام پر، قانون کو ہاتھ میں لینے کا حق نہیں ہے۔ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے ہمیں جو آئین دیا ہے اس میں ہر شخص کو انصاف ملنے کی ہر طرح کے انتظامات ہیں۔ میں ملک کے باشندوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں، قانون ہاتھ میں لینے والے، تشدد کے راستے پر چلنے والے کسی کو بھی، چاہے وہ شخص ہو یا گروپ ہو، نہ یہ ملک کبھی برداشت کرے گا اور نہ ہی کوئی حکومت برداشت کرے گی۔ قانون کے سامنے ہر ایک کو جھکنا پڑے گا، قانون فیصلہ کرے گا اور مجرموں کو سزا دی جائے گی۔

میرے پیارے ہم وطنوں، ہمارا ملک تنوع سے بھرا ہوا ہے اور یہ متنوع کھانوں، طرز زندگی اور انداز میں محدود نہیں ہیں۔ ہم زندگی کے ہر روش میں مختلف حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے تہوار بھی تنوع سے بھرے ہوئے ہیں اور ہزاروں سال پرانا ہمارا ثقافتی ورثہ ہونے کی وجہ سے ثقافتی روایت دیکھیں، سماجی روایت دیکھیں، تاریخی واقعات دیکھیں تو شاید ہی 365 دن میں کوئی دن بچتا ہوگا جب ہمارے یہاں کوئی تہوار سے نہ جڑا ہوا ہو۔ اب آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ ہمارے تمام تہوار، فطرت کے وقت کے مطابق چلتے ہیں۔ فطرت کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے بہت سے تہوار براہ راست کسان سے متعلق ہیں، ماہی گیروں سے منسلک ہیں۔

آج، میں تہواروں کے بارے میں بات کر رہا ہوں، سب سے پہلے میں آپ سب کو مچھامی دُکڑم کہنا چاہوں گا۔ جین سماج میں کل سانوتسیری کا تہوار منایا گیا۔ جین سماج میں بھادر مہینے میں پریوشن تہوار منایا جاتا ہے۔ پریوشن تہوار کے آخری دن سنوتسری کا دن ہوتا ہے۔ یہ سچ میں اپنے آپ میں ایک حیرت انگیز روایت ہے۔ سنوتسری کا تہوار، معافی، عدم تشدد اور دوستی کی ایک علامت ہے۔ اسے ایک طرح سے معافی-وانی کا تہوار بھی کہا جاتا ہے اور اس دن ایک دوسرے کو مچھامی دکڑم کہنے کا رواج ہے۔ ویسے بھی ہمارے شاستروں میں چھما ویرسیہ بھوشنم یعنی معاف کرنا بہادروں کا زیور ہے۔ معاف کرنے والا بہادر ہوتا ہے۔ یہ مباحثہ تو ہم سنتے ہی آئے ہیں اور مہاتما گاندھی تو ہمیشہ کہتے تھے – معاف کرنا تو طاقتور شخص کی خاصیت ہوتی ہے۔

شیکسپیئر نے اپنے ڈرامہ ’دی مرچنٹ آف وینس‘ میں معاف کرنے کی اہمیت کو بتاتے ہوئے لکھا تھا – “Mercy is twice blest, it blesseth himthat gives and him that takes” یعنی معاف کرنے والا اور جسے معاف کیا گیا، دونوں کو خدا کا آشرواد حاصل ہوتا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ان دنوں ہندوستان کے ہر کونے میں گنیش چترتھی کی دھوم مچی ہوئی ہے اور جب گنیش چترتھی کی بات آتی ہے تو عوامی گنیش اتسو کی بات فطری ہے۔ بال گنگادھر لوک مانیہ تلک نے 125 سال پہلے اس روایت کی شروعات کی اور وہ گزشتہ 125 سال سے آزادی کے پہلے وہ آزادی کی تحریک کی علامت بن گئے تھے۔ اور آزادی کے بعد وہ سماج- تعلیم، سماجی شعور کو بیدار کرنے کی علامت بن گئے ہیں۔ گنیش چترتھی کا تہوار 10 دن تک چلتا ہے۔ اس عظیم تہوار کو اتحاد، مساوات اور راستبازی کی علامت کہا جاتا ہے۔ سبھی ہم وطنوں کو گنیش اتسو کی بہت بہت مبارکباد۔ ابھی کیرالہ میں اونم کا تہوار منایا جا رہا ہے۔ بھارت کے رنگا رنگ تہواروں میں سے ایک، ‘اونم’ کیرالہ کا ایک بڑا تہوار ہے۔ اس تہوار کو اس کی سماجی اور ثقافتی اہمیت کے لئے جانا جاتا ہے۔ اونم کا تہوار کیرالہ کی بیش بہا ثقافتی ورثہ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ تہوار ایک نئی امنگ ، نئی امید، لوگوں کے ذہن میں نئے عقیدے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں محبت اور ہم آہنگی کے پیغام کو جنم دیتا ہے اور اب ہمارے تہوار سیاحت کے لیے توجہ کا مرکز بھی بن رہے ہیں۔ اور میں تو ہم وطنوں سے کہوں گا کہ جیسے گجرات میں نوراتری کا تہوار یا بنگال میں درگا پوجا – ایک قسم سے سیاحت کی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں۔ ہمارے تہوار اور بھی، غیر ملکیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک موقع ہے۔ ہم اس سمت میں کیا کر سکتے ہیں، سوچنا چاہئے۔

چند دنوں بعد ان تہواروں کی سیریز میں، ‘عیدالاضحی‘کا تہوار پورے ملک میں منایا جائے گا۔ سبھی ہم وطنوں کو ’عیدالاضحی‘ کی بہت بہت مبارک باد، نیک خواہشات۔ تہوار ہمارے لئے عقیدہ اور یقین کی علامت تو ہیں ہی، ہمیں نئے ہندوستان میں تہوار کو حفظان صحت کی بھی علامت بنانا ہے۔ تہوار اور حفظان صحت سے متعلق خاندان کی زندگی منسلک ہیں۔ تہوار کی تیاری کا مطلب ہے – صفائی یہ ہمارے لئے کوئی نئی چیز نہیں ہے لیکن اسے سماجی مزاج بنانا بھی ضروری ہے۔ عوامی طور پر حفظان صحت کی اپیل صرف گھر میں نہیں، ہمارے پورے گاؤں میں، پورے شہر میں، ہماری ریاست میں، ہمارے ملک میں – حفظان صحت، اسے تہوار کے ساتھ ایک اٹوٹ حصہ بننا ہی چاہیے۔

میرے عزیز ہم وطنوں ، جدید ہونے کی تعریفیں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ ان دنوں ایک نئے طول و عرض ، ایک نئے پیرامیٹر، آپ کتنے مہذب ہو، کتنے جدید ہو، آپ کی عملی سوچ کتنی ماڈرن ہے، یہ سب جاننے میں ایک پیمانہ بھی کام میں آنے لگا ہے اور وہ ہے ماحولیات کے تئیں کتنے بیدار ہیں۔ آپ کی اپنی سرگرمیوں میں، ایکو فرینڈلی، ماحول دوستی رویہ ہے کہ اُس کے خلاف ہے۔ اگر یہ معاشرے کے خلاف ہے، تو آج اسے برا سمجھا جاتا ہے۔ اور آج اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان دنوں گنیش فیسٹول میں ماحول دوست گنپتی بھی ہے، جیسا کہ ایک بڑی مہم شروع ہوئی ہے۔ اگر آپ یوٹیوب پر جا کر کے دیکھیں گے، ہر گھر میں بچے گنیش جی بنا رہے ہیں، مٹی لا کر کے گنیش جی بنا رہے ہیں۔ اس میں رنگ لگا رہے ہیں۔ سبزیوں کا رنگ ہے، کاغذ کے ٹکڑے چپکا رہے ہیں۔طرح طرح کے ایکسپیریمینٹ ہر خاندان میں کیا جا رہا ہے۔ اس طرح سے، ماحولیاتی بیداری کی اتنی بڑی وسیع تربیت اس گنیش اتسو میں دیکھنے کو ملا ہے، شاید ہی پہلے کبھی ملا ہو۔ میڈیا ہاؤس بھی بہت بڑی تعداد میں ماحول دوست گنیش کی مورتیوں کے لیے لوگوں کو تربیت دے رہے ہیں، بیدار کر رہے ہیں، گائڈ کر رہے ہیں۔ دیکھیے کتنی بڑی تبدیلی آئی ہے اور یہ پرسکون تبدیلی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا ہمارا ملک، کروڑو- کروڑوں روشن دماغ سے بھرا ہوا ہے۔ جب کوئی نیا ہنر جانتا ہے تو یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ مجھے کسی نے بتایا کہ کوئی ایک شخص ہے جو خود انجینئر ہیں، انہوں نے ایک خاص قسم سے مٹی اکٹھی کر کے، اس کو ملا کر گنیش جی بنانے کی تربیت لوگوں کی کی اور وہ ایک چھوٹی سی بالٹی میں ، پانی میں گنیش ویسرجن ہوتا ہے تو اسی میں رکھتے ہیں تو پانی میں فوراً گھل جاتی ہے۔ اور وہ یہاں پر رکے نہیں ہیں اس میں ایک تلسی کا درخت بو دیا اور درخت بو دیے۔ تین سال قبل جب صفائی مہم کا آغاز ہوا تھا، 2 اکتوبر کو اس کو تین سال ہو جائے گا ۔ اور اس کے مثبت نتائج نظر آ رہے ہیں۔ بیت الخلاء کی تعداد 39 فیصد سے تجاوز کر کے 67 فیصد پہنچ گئی ہے۔ 2 لاکھ 30 ہزار سے بھی زیادہ گاؤں کھلے میں رفع حاجت سے اپنے آپ کو مستثنی کر چکے ہیں۔

گذشتہ دنوں گجرات میں خطرناک سیلاب آیا۔ کافی لوگوں کی جانیں چلی گئیں لیکن سیلاب کے بعد جب پانی کم ہوا تو ہر جگہ اتنی گندگی پھیل گئی تھی۔ ایسے وقت میں گجرات کے بناسکانٹھا ضلع کے دھانیرا میں، جمیعت علماء ہند کے کارکنوں نے سیلاب سے متاثرہ 22 مندروں اور 3 مسجدوں کی سلسلے وار طریقے سے صفائی کی۔ اپنا پسینہ بہایا، سب لوگ نکل پڑے۔ صفائی کے لیے اتحاد ایک بہترین مثال، سبھی کو ترغیب دینے والی ایسی مثال، جمیعت علماء ہند کے سبھی کارکنوں نے پیش کی ۔ صفائی کے لیے خود کو وقف کرنے کے نظریے سے کی گئی کوشش، یہ اگر ہمارا مکمل مزاج بن جائے تو ہمارا ملک کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، میں آپ سب سے ایک گزارش کرتا ہوں کہ ایک بار پھر 2 اکتوبر کو گاندھی جینتی سے20-15 دن پہلے سے ہی ‘سوچھتا ہی سیوا’ – جیسے پہلے کہتے تھے ‘جل سیوا ہی پربھو سیوا‘، ’سوچھتا ہی سیوا‘ کی ایک مہم چلائیں۔ پورے ملک میں صفائی کے لیے ماحول بنائیں۔ جیسا موقع ملے، جہاں بھی وقت ملے، ہم موقع تلاش کریں۔ لیکن ہم سبھی جڑیں۔ اسے ایک طرح سے دیوالی کی تیاری مان لیں، اسے ایک طرح سے نوراتری کی تیاری مان لیں، درگا پوجا کی تیاری مان لیں۔ محنت کا عطیہ دیں۔ چھٹی کے دن یا اتوار کو یکجا ہو کر ایک ساتھ کام کریں۔ آس پڑوس کی بستی میں جائیں، نزدیک کے گاؤں میں جائیں، لیکن اسے ایک تحریک کے طور پر کریں۔ میں سبھی غیر سرکاری تنظیموں کو، اسکولوں کو، کالجوں کو، سماجی، ثقافتی، سیاسی قیادت کو، حکومت کے افسروں کو ، کلیکٹروں کو، سرپنچوں کو ہر کسی سے گزارش کرتا ہوں کہ 2 اکتوبر مہاتما گاندھی کی یوم پیدائش سے پہلے ہی، 15 دن، ہم ایک ایسا صفائی کا ماحول بنائیں، ایسی صفائی کھڑی کر دیں کہ 2 اکتوبر صحیح معنی میں گاندھی کے خوابوں والی 2 اکتوبر ہو جائے۔ پینے کا پانی اور صفائی کی وزارت ، مائی گوو ڈاٹ ان پر ایک سیکشن بنایا ہے جہاں بیت الخلاء تعمیر کرنے کے بعد آپ اپنا نام اور اس خاندان کا نام داخل کر سکتے ہیں، جس کی آپ نے مدد کی ہے۔ میرے سوشل میڈیا کے دوست کچھ تخلیقی مہم چلا سکتے ہیں اور حقیقی دنیا کا روئے زمین پر کام ہو، اس کی ترغیب بنا سکتے ہیں۔ صفائی کے عہد سے سوچھ سدھی مقابلہ، پینے کے پانی اور صفائی کی وزارت کے ذریعے یہ مہم جس میں آپ مضمون نگاری کا مقابلہ ہے، چھوٹی فلمیں بنانے کا مقابلہ ہے، پینٹنگ کے مقابلوں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ اس میں آپ مختلف زبانوں میں مضامین لکھ سکتے ہیں اور اس میں کوئی عمر کی قید نہیں ہے، کوئی ایج لمیٹ نہیں ہے۔ آپ شارٹ فلم بنا سکتے ہیں، اپنے موبائل سے بنا سکتے ہیں۔ 3-2 منٹ کی فلم بنا سکتے ہیں جو صفائی کے لیے ترغیب کا باعث بنے ۔ وہ کسی بھی زبان میں ہو سکتی ہے، وہ سائلنٹ بھی ہو سکتی ہے۔ جو مقابلہ میں حصہ لیں گے اس میں سے جو بہتر تین لوگ چنے جائیں گے، ضلع سطح پر تین ہوں گے، ریاستی سطح پر تین ہوں گے ان کو انعام دیا جائے گا۔ تو میں ہر کسی کو دعوت دیتا ہوں کہ آیئے، صفائی کے اس مہم کے اس روپ میں بھی آپ جڑیں۔

میں پھر ایک بار کہنا چاہتا ہوں کہ اس بار 2 اکتوبر گاندھی جی کی یوم پیدائش کو ’سوچھ 2 اکتوبر‘بنانے کا عہد کریں اور اس کے لیے 15 ستمبر سے ہی ’سوچھتا ہی سیوا‘ اس منتر کو گھر گھر پہنچائیں۔ صفائی کے لیے کوئی نہ کوئی قدم اٹھائیں۔ خود محنت کر کے اس میں حصہ دار بنیں۔ آپ دیکھیے، گاندھی جی کی یوم پیدائش کا یہ 2 اکتوبر کیسے چمکے گا۔ آپ امید کر سکتے ہیں 15 دن کے صفائی کے اس مہم کے بعد، ‘سوچتھا ہی سیوا’ کے بعد ، 2 اکتوبر کو جب ہم گاندھی جی کے یوم پیدائش منائیں گے تو باپو کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ہمارے اندر کتنی پاکیزہ خوشی ہوگی۔ میرے پیارے ہم وطنوں، میں آج ایک خاص طور سے آپ سب کا قرض قبول کرنا چاہتا ہوں۔ دل کی گہرائیوں سے میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، اس لیے نہیں کہ اتنے لمبے عرصے تک آپ ’من کی بات‘ سے جڑے رہے۔ میں اس لیے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، قرض قبول کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ’من کی بات‘ کے اس پروگرام کے ساتھ ملک کے ہر کونے سے لاکھوں لوگ جڑ جاتے ہیں۔ سننے والوں کی تعداد تو کروڑوں میں ہے ، لیکن لاکھوں لوگ مجھے خط لکھتے ہیں، کبھی میسج بھیجتے ہیں، کبھی فون پر میسیج آ جاتا ہے ، میرے لیے ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔ ملک کے باشندوں کے من کو جاننے کے لیے یہ میرے لیے ایک بہت بڑا ذریعہ بن گیا ہے ۔ آپ جتنا ’من کی بات‘ کا انتظار کرتے ہیں اس سے زیادہ میں آپ کے میسج کا انتظار کرتا ہوں۔ میں بے چین رہتا ہوں کیونکہ آپ کی ہر بات سے مجھے کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ میں جو کر رہا ہوں اس کو کسوٹی پر کسنے کا موقع مل جاتا ہے۔ بہت سی باتوں کو نئے طریقے سے سوچنے کے لیے آپ کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی مجھے کام آتی ہیں اور اس لیے میں آپ کے اس تعاون کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ کا قرض قبول کرتا ہوں اور میری کوشش رہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ آپ کی باتوں کو میں خود دیکھوں، سنوں، پڑھوں، سمجھوں اور ایسی ایسی باتیں آتی ہیں۔ اب دیکھیے، اب اس فون کال سے آپ بھی اپنے آپکو کو-ریلیٹ کرتے ہوں گے۔ آپ کو بھی لگتا ہوگا ہاں یار، آپ نے کبھی ایسی غلطی کی ہے۔ کبھی کبھی تو کچھ چیزیں ہماری عادت کا ایسا حصہ بن جاتی ہیں کہ ہمیں لگتا ہی نہیں کہ ہم غلط کرتے ہیں۔

’’وزیراعظم جی، میں پنے سے اپرنا بول رہی ہوں۔ میں اپنی ایک سہیلی کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں۔ وہ ہمیشہ لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس کی ایک عادت دیکھ کر میں حیران ہو جاتی ہوں۔ میں ایک بار اس کے ساتھ شاپنگ کرنے مال گئی تھی۔ ایک ساڑی پر اس نے دو ہزار روپے بڑے آرام سے خرچ کر دیے اور پیزا پر 450 روپے، جبکہ مال تک جانے کے لیے جو آٹو لیا تھا، اس آٹو والے سے بہت دیر تک پانچ روپئے کے لیے مول بھاؤ کرتی رہی۔ واپس لوٹتے ہوئے راستے میں سبزی خریدی اور ہر سبزی پر پھر سے مول بھاؤ کر کے 5-4 روپئے بچائے۔ مجھے بہت برا لگتا ہے۔ ہم بڑی بڑی جگہ ایک بار بھی بنا پوچھے بڑی بڑی رقم ادا کر دیتے ہیں اور ہمارے محنت کش بھائی بہنوں سے تھوڑے سے روپئے کے لیے جھگڑا کرتے ہیں۔ ان پر یقین نہیں کرتے ہیں۔ آپ اپنے ’من کی بات’ میں اس بارے میں ضرور بتا ئیں۔

اب یہ فون کال سننے کے بعد، مجھے پختہ یقین ہے کہ آپ حیران ہو گئے ہوں گے، چوکنے بھی ہو گئے ہوں گے اور ہو سکتا ہے آگے سے ایسی غلطی نہ کرنے کا من میں تہیہ بھی کر لیے ہوں گے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا ہے کہ جب ہم، ہمارے گھر کے آس پاس کوئی سامان بیچنے کے لیے آتا ہے، کوئی پھیری لگانے والا آتا ہے، کسی چھوٹے دکاندار سے، سبزی بیچنے والوں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے، کبھی آٹو رکشا والے سے واسطہ پڑتا ہے – جب بھی ہمارا کسی محنت کش شخص کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے تو ہم اس سے بھاؤ کا تول مول کرنے لگ جاتے ہیں، مول بھاؤ کرنے لگ جاتے ہیں – نہیں اتنا نہیں، دو روپے کم کرو، پانچ روپئے کم کرو۔ اور ہم ہی لوگ جب کسی بڑی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے جاتے ہیں تو بل میں کیا لکھا ہے دیکھتے بھی نہیں ہیں، ایک دم سے پیسے دے دیتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں شو روم میں ساڑی خریدنے جائیں، کوئی مول بھاؤ نہیں کرتے ہیں لیکن کسی غریب سے اپنا واسطہ پڑ جائے تو مول بھاؤ کیے بغیر رہتے نہیں ہیں۔ غریب کے من کو کیا ہوتا ہوگا، یہ کبھی آپ نے سوچا ہے؟ اس کے لیے سوال دو روپئے – پانچ روپئے کا نہیں ہے۔ اس کے دل کو چوٹ پہنچتی ہے کہ آپ نے وہ غریب ہے اس لیے اس کی ایمانداری پر شک کیا ہے۔ دو روپئے – پانچ روپئے سےآپ کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے لیکن آپ کی یہ چھوٹی سی عادت اس کے من کو کتنا گہرا دھکا لگاتا ہوگا کبھی یہ سوچا ہے؟ محترمہ، میں آپ کا شکرگزار ہوں آپ نے دل کو چھو لینے والا فون کال کر کے ایک میسج مجھے دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے ہم وطن بھی غریب کے ساتھ ایسا سلوک کرنے کی عادت ہوگی تو وہ ضرور چھوڑ دیں گے۔ میرے پیارے نوجوان ساتھیوں، 29 اگست کو پورا ملک قومی کھیل کے دن کے طور پر مناتا ہے۔ یہ عظیم ہاکی کھلاڑی اور ہاکی کے جادوگر میجر دھیان چند جی کا یوم پیدائش ہے۔ ہاکی کے لیے ان کا تعاون بیش قیمتی تھا۔ میں اس بات کو اس لیے یاد کرا رہا ہوں کہ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کی نوجوان نسل ، کھیل سے جڑے۔ کھیل ہماری زندگی کا حصہ بنے۔ اگر ہم دنیا کے نوجوان ملک ہیں تو ہماری یہ قابلیت کھیل کے میدان میں بھی نظر آنی چاہیے۔ کھیل یعنی فزیکل فٹنس، مینٹل الرٹ نیس، پرسنیلٹی انہا نسمنٹ ، میں سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ کیا چاہیے؟ کھیل ایک طرح سے دلوں کے میل کی ایک بہت بڑی جڑی بوٹی ہے۔ ہمارے ملک کی نوجوان نسل اسپورٹس کی دنیا میں آگے آئیں اور آج کمپیورٹر کے زمانے میں تو میں آگاہ بھی کرنا چاہوں گا کہ پلیئنگ فلڈ، پلے اسٹیشن سے زیادہ اہم ہے۔ کمپیوٹر پر فیفا کھیلیے لیکن باہر میدان میں بھی تو کبھی فٹبال کے ساتھ کرتب کر کے دکھایئے۔ کمپیوٹر پر کرکٹ کھیلتے ہوں گے لیکن کھلے میدان میں آسمان کے نیچے کرکٹ کھیلنے کا لطف کچھ اور ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب خاندان کے بچے باہر جاتے تھے تو ماں پہلے پوچھتی تھی کہ تم کب واپس آؤگے۔ آج حالت یہ ہو گئی ہے کہ بچے گھر میں آتے ہی ایک کونے میں یا تو کارٹون فلم دیکھنے میں لگ جاتے ہیں یا تو موبائل گیم پر چپک جاتے ہیں اور تب ماں کو چلا کر کہنا پڑتا ہے – تو کب باہر جائے گا۔ وقت وقت کی بات ہے، وہ بھی ایک زمانہ تھا جب ماں بیٹے کو کہتی تھی کہ تم کب آؤگے اور آج یہ حال ہے کہ ماں کو کہنا پڑتا ہے بیٹا تم کب باہر جاؤگے؟

نوجوان دوستوں، کھیل کی وزارت نے کھیلوں کی صلاحیت کی تلاش اور انہیں بہتر بنانے کے لیے ایک اسپورٹس ٹیلنٹ سرچ پورٹل تیار کیا ہے، جہاں پورے ملک سے کوئی بھی بچہ جس نے کھیل کے شعبے میں کچھ کامیابی حاصل کی ہے، ان میں ٹیلنٹ ہو – وہ اس پورٹل پر اپنا بایو ڈاٹا یا ویڈیو اپ لوڈ کر سکتا ہے۔ منتخب ابھرتے ہوئے کھلاڑی کو کھیل کی وزارت ٹریننگ دے گی اور وزارت کل ہی اس پورٹل کو لانچ کرنے والی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے لیے تو خوشی کی خبر ہے کہ ہندوستان میں 6 سے 28 اکتوبر تک فیفا انڈر 17 ورلڈ کپ منعقد ہونے جا رہا ہے۔ دنیا بھر سے 24 ٹیمیں ہندوستان کو اپنا گھر بنانے جا رہی ہے۔

آیئے، دنیا سے آنے والے ہمارے نوجوان مہمانوں کا، کھیل کے تہوار کے ساتھ استقبال کریں، کھیل کا لطف لیں، ملک میں ایک ماحول بنائیں۔ جب میں آج کھیل کی بات کر رہا ہوں تو میں گذشتہ ہفتے ایک میرے من کو بڑا ہی چھو جانے والا واقعہ پیش آیا ۔ ہم وطنوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے بہت ہی چھوٹی عمر کی کچھ بیٹیوں سے ملنے کا موقع ملا اور اس میں سے کچھ بیٹیاں تو ہمالیہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ سمندر سے جن کا کبھی ناطہ بھی نہیں تھا۔ ایسی ہماری ملک کی چھ بیٹیاں جو نیوی میں کام کرتی ہیں – ان کا جذبہ، ان کا حوصلہ ہم سب کو تحریک دینے والا ہے۔ یہ چھ بیٹیاں ، ایک چھوٹی سی بوٹ لے کر کے آئی این ایس تارینی اس کو لے کر کے سمندر پار کرنے کے لیے نکل پڑے گی۔ اس مہم کا نام دیا گیا ہے ’’ناویکا ساگر پریکرما‘‘ اور یہ پوری دنیا میں گھومنے کے بعد مہینوں بعد ، کئی مہینوں کے بعد ہندوستان لوٹیں گی۔ کبھی ایک ساتھ 40-40 دن پانی میں بتائیں گی۔ کبھی –کبھی 30-30 دن پانی میں بتائیں گی۔ سمندر کی لہروں کے درمیان ہمت کے ساتھ ہماری یہ چھ بیٹیاں اور یہ کام دنیا میں پہلی بار انجام دے رہی ہیں۔ کون ہندوستانی ہوگا جنہیں ہماری ان بیٹیوں پر ناز نہ ہو۔ میں ان بیٹیوں کے جذبے کو سلام کرتا ہوں اور میں نے ان سے کہا ہے کہ وہ تمام ملک کے ساتھ اپنے تجربات کو شیئر کریں۔ میں بھی نریندر مودی ایپ پر ان کے تجربات کے لیے ایک الگ انتظام کروں گا تاکہ آپ ضرور اسے پڑھ پائیں کیونکہ یہ ایک طرح سے بہادری کی کہانی ہے، خود کے تجربے کی کہانی ہوگی اور مجھے خوشی ہوگی ان بیٹیوں کی باتوں کو آپ تک پہنچانے میں۔ میری ان بیٹیوں کو بہت بہت مبارکباد ، بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں، 5 ستمبر کو ہم سب ٹیچرس ڈے مناتے ہیں۔ ہمارے ملک کے سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر رادھا کرشنن جی کی یوم پیدائش ہے۔ وہ صدر تھے لیکن زندگی بھر ایک استاد کے طور پر ہی اپنے آپ کو پیش کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ استاد کے طور پر جینا پسند کرتے تھے۔ وہ استاد کے تئیں وقف تھے۔ ایک دانشور ، ایک سفارتکار، ہندوستان کے صدر جمہوریہ لیکن ہر لمحہ ایک جیتے جاگتے استاد۔ میں ان کو پرنام کرتا ہوں۔

عظیم سائنسداں البرٹ آئنسٹن نے کہا تھا It is the supreme art of the teacher to awaken joy in creative expression and knowledge ۔ اپنے شاگردوں میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ اور علم کی خوشی کا لطف جگانا ہی ایک استاد کی سب سے اہم قابلیت ہے۔ اس بار جب ہم ٹیچر ڈے منائیں ۔ کیا ہم سب مل کر ایک عہد کر سکتے ہیں؟ ایک مشن موڈ میں ایک مہم چلا سکتے ہیں؟ ٹیچ ٹو ٹرانسفورم، ایجوکیٹ ٹو ایمپاور، لرن ٹو لیڈ، اس عہد کے ساتھ اس بات کو آگے بڑھا سکتے ہیں کیا؟ ہر کسی کو 5 سال کے لیے، کسی عہد سے جوڑیے، اسے ثابت کرنے کا راستہ دکھائیے اور 5 سال میں وہ حاصل کر کے رہے ، زندگی میں کامیاب ہونے کا لطف اٹھائیے۔ ایسا ماحول ہمارے اسکول، ہمارے کالج، ہمارے استاد، ہمارے تعلیمی ادارے یہ کر سکتے ہیں اور اپنے ملک میں جب ہم ٹرانسفارمیشن کی بات کرتے ہیں تو جیسے خاندان میں ماں کی یاد آتی ہے ویسے ہی سماج میں استاد کی یاد آتی ہے۔ ٹرانس فارمیشن میں استاد کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ ہر استاد کے زندگی میں کہیں نہ کہیں ایسے واقعات ہیں کہ جن کی کوششوں سے کسی کی زندگی کے ٹرانس فارمیشن میں کامیابی ملی ہوگی۔ اگر ہم ایک ساتھ مل کر کوشش کریں گےتو ملک کے ٹرانس فارمیشن میں ہم بہت اہم کردار ادا کریں گے۔ آیئے ٹیچ ٹو ٹرانسفورم کے اس منتر کو لے کر کے چل پڑیں۔

‘‘پرنام پردھان منتری جی۔ میرا نام ڈاکٹر اننیا اوستھی ہے۔ میں ممبئی شہر کی رہنے والی ہوں اور ہاورڈ یونیورسٹی کے انڈین ریسرچ سینٹر کے لیے کام کرتی ہوں۔ ایک ریسرچر کی حیثیت سے میری خاص دلچسپی رہی ہے اقتصادی انویسٹمنٹ میں، جس کو ہم اقتصادی شمولیت ان سے ریلیٹڈ سوشل اسکیمس کو لے کر اور میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ 2014 میں جو جن دھن یوجنا لانچ ہوئی کیا آپ کہہ سکتے ہیں ، کیا اعداد و شمار یہ دکھاتے ہیں کہ آج تین سال بعد ہندوستان اقتصادی طور پر زیادہ محفوظ ہے یا زیادہ طاقت ور ہے اور کیا یہ تفویض اختیارات اور سہولتیں ہماری خواتین کو، کسانوں کو، مزدوروں کو گاؤں اور قصبوں تک بھی حاصل ہو پائی ہیں۔ شکریہ۔’’

میرے پیارے ہم وطنوں، ‘پردھان منتری جن دھن یوجنا’ اقتصادی شمولیت ، یہ ہندوستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں اقتصادی دنیا کے ماہرینوں کے لیے بحث کا موضوع رہا ہے۔ 28 اگست، 2014 کو من میں ایک خواب لے کر اس مہم کا آغاز کیا تھا۔ کل 28 اگست کو اس ’پردھان منتری جن دھن یوجنا‘ کے مہم کو تین سال ہو رہے ہیں۔ 30 کروڑ نئے کنبوں کو اس کے ساتھ جوڑا ہے ، بینک اکاؤنٹ کھولا ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں کی آبادی سے بھی زیادہ یہ نمبر ہے۔ آج مجھے ایک بہت بڑا حل ہے کہ تین سال کے اندر اندر سماج کے اس آخری کنارےپر بیٹھا ہوا میر غریب بھائی، ملک کی معیشت کے مین اسٹریم کا حصہ بنا ہے، اس کی عادت بدلی ہے، وہ بینک میں آنے جانے لگا ہے۔ وہ پیسوں کی بچت کرنے لگا ہے، وہ پیسوں کی بچت کو محسوس کر رہا ہے۔ کبھی پیسے ہاتھ میں رہتے ہیں، جیب میں رہتے ہیں، گھر میں ہیں تو بیکار خرچ کرنے کا من کر جاتا ہے۔ اب ایک اطمینان کا ماحول بنا ہے اور آہستہ – آہستہ اس کو بھی محسوس ہونے لگا ہے کہ پیسے کہیں بچوں کے کام آ جائیں گے۔ آنے والے دنوں میں کوئی اچھا کام کرنا ہے تو پیسے کام آئیں گے۔ اتنا ہی نہیں، جو غریب اپنے جیب میں روپے کارڈ دیکھتا ہے تو امیروں کی برابری میں اپنے آپ کو پاتا ہے کہ ان کے جیب میں کریڈٹ کارڈ ہے، میری جیب میں بھی روپے کارڈ ہے – اسے ایک فخر کا احساس ہوتا ہے۔ پردھان منتری جن دھن یوجنا میں ہمارے غریبوں کے ذریعے تقریباً 65 ہزار کروڑ روپے بینکوں میں جمع ہوا ہے۔ ایک طرح سے غریب کی یہ بچت ہے، یہ آنے والے دنوں میں اس کی طاقت ہے۔ اور پردھان منتری جن دھن یوجنا کے ساتھ جس کا اکاؤنٹ کھلا اس کو انسورنش کا بھی فائدہ ملا ہے۔ پردھان منتری جیون جیوتی بیمہ یوجنا، پردھان منتری سرکشا بیما یوجنا – ایک روپے ، تیس روپیے بہت معمولی سا پریمیم آج وہ غریبوں کی زندگی میں ایک نیا یقین پیدا کرتا ہے۔ کئی خاندانوں میں، ایک روپئے کے بیمے کی وجہ سے اب غریب آدمی پر مشکل حالات آیا ، کنبے کے اہم شخص کی زندگی ختم ہو گئی ، کچھ ہی دنوں میں اسے 2 لاکھ روپے مل گئے۔ پردھان منتری مدرا یوجنا، ’اسٹارٹ اپ یوجنا، اسٹینڈ اپ یوجنا – درج فہرست ذات کے ہوں، درجہ فہرست قبائل کے ہوں، خواتین ہو، تعلیم یافتہ نوجوان ہو، اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر کچھ کرنے کا ارادہ رکھنے والا نوجوان ہو، کروڑوں کروڑوں نوجوانوں کو پردھان منتری مدرا یوجنا سے بینکوں سے بغیر کوئی گارنٹی پیسے ملے اور وہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے اتنا ہی نہیں، ہر کسی نے ایک آدھ، ایک آدھ دو کو روزگار دینے کی کامیاب کوشش بھی کی ہے۔ گذشتہ دنوں بینک کے لوگ مجھے ملے تھے، جن دھن یوجنا کے سلسلے میں، انشورنس کے سلسلے میں، رو پے کارڈ کے سلسلے میں، پردھان منتری مدرا یوجنا کے سلسلے میں ، عام لوگوں کو کیا فائدہ ہوا ہے اس کا انہوں نے سروے کروایا اور بڑی تحریک آمیز رپورٹیں ملی۔ آج اتنا وقت نہیں ہے لیکن میں ضرور ایسے واقعات کو بینک کے لوگوں سے کہوں گا کہ وہ مائی گووڈاٹ ان پر اس کو اپ لوڈ کریں، لوگ پڑھیں، لوگوں کو اس سے ترغیب ملے گی کہ کوئی منصوبہ، کسی شخص کی زندگی میں کیسے ٹرانس فارمیشن لاتا ہے، کیسے نئی توانائی بخشتا ہے، کیسے نئی یقین دہانی کراتا ہے، اس کی سینکڑوں مثالیں میرے سامنے آئی ہیں۔ آپ تک پہنچانے کی میں پوری کوشش کروں گا اور ایسے تحریک آمیز واقعات ہیں کہ میڈیا کے لوگ بھی اس کا پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ بھی ایسے لوگوں سے انٹرویو کر کے نئی نسل کو نئی ترغیب دے سکتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں، ایک مرتبہ پھر آپ کو مچھامی دکڑم۔ بہت بہت شکریہ ۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More