مجھے صدر لوکاشنکو کا بھارت میں خیر مقدم کرتے ہوئے بہت مسرت ہورہی ہے ۔ ان کا یہ دورہ دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کے اس سال 25 برس مکمل ہونے کےموقع پر ہو ا ہے۔
اس سے قبل 1997 اور 2007 میں ہم صدر لوکاشنکو کا خیر مقدم کرچکے ہیں ۔ اس دورے کے دوران مجھے توقع ہے کہ آپ بھارت میں ہورہی تبدیلی کو ملاحظہ بھی کریں گے اور اس کا احساس بھی کریں گے۔
آج کی ہماری گفت و شنید کثیر موضوعات پر مبنی امید افزا رہی۔ گفت و شنید کے دوران 25 برس سے زائد کے ہمارے تعلقات کی گرمجوشی کا اثرقائم رہا ۔ ہم نے باہمی موضوعات اور علاقائی اور باہمی پیش رفتوں پر گفت و شنید کی۔ ہم نے اپنے دوستانہ تعلقات کے تانے بانے پر نظر ڈالی ۔ ہم نے اسے مزید توسیع دینے کے امکانات اور نظریات پر غور کیا۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تعاون کے لحاظ سے ہم اپنے باہمی تعلقات کو مزید وسعت دیں گے۔
مجھے صدر لوکاشنکو کی شخصیت میں بھی ویسی ہی گرمجوشی محسوس ہوئی اور میں نے پایا کہ ہمارے عوام کے فائدے کے لئے وہ بھی ہماری شراکت داری کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ہم گوناگوں اور اقتصادی روابط بالیدہ بنانے کے لئے کام کریں گے۔ خصوصی توجہ فطری انداز میں ایک دوسرے کے معاون بننے پر ہوگی۔
ہماری کمپنیوں کو خریدار اور فروخت کار کی سطح سے اوپر اٹھ کر زیادہ گہرے روابط قائم کرنے ہوں گے۔ ادویہ ، تیل اور گیس ، بھاری مشینر ی اور سازو ساما ن کے شعبے میں وافر کاروباری اور سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں۔ گزشتہ برس بھارتیہ کمپنیوں نے ادویہ سازی کے شعبے میں تین مشترکہ کمپنیاں قائم کرکے ایک مثبت آغاز کیا ہے۔
شراکت داری کے امکانات ٹائر، زرعی صنعتی مشنری ، کانکنی سازومان کے شعبوں میں بھی موجود ہیں۔ اسی طریقہ سےہیوی ڈیوٹی تعمیراتی شعبے میں بھی بھارت میں بڑھتی ہوئی مانگ ہے اور بیلاروس کے پاس صنعتی قوت موجود ہے۔
ہم میک ان انڈیا پروگرام کے تحت دفاعی شعبے میں مشترکہ ترقیات اور مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ ہم نے 2015 میں بیلا روس کےمخصوص پر وجیکٹوں کے لئے سو ملین امریکی ڈالر کے بقدر قرض فراہم کرایا تھا اور ہم نے اس کے استعمال کے سلسلہ میں گفت و شنید میں پیش رفت حاصل کی ہے۔
بھارت ، بیلاروس کے ساتھ کثیر پہلو ئی اقتصادی پہل قدمیوں سے وابستہ ہے جن میں یوریشیائی اقتصادی یونین (ای ای یو) اور بین الاقوامی شمال جنوب نقل و حمل گلیارہ شامل ہیں۔ بھارت ای ای یو کے ساتھ کھلی تجارت کے سلسلہ میں معاملات طےکررہا ہے ۔
دوستو!
سائنس اور تکنالوجی باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کا ایک دوسر ا شعبہ ہے۔ بیلاروس اس شعبے میں دیرینہ شراکت دار رہا ہے۔ دھات سازی، سازو سامان، نینو سازوسامان، بائیولوجیکل اور طبی سائنسز اور کیمیکل انجینئرنگ کے شعبوں میں جدت طرازی اور فروغ دینے کے امور پر خاطر خواہ توجہ مرکوز کی جائے گی ۔ ہم اس عمل میں نوجوانوں کو شریک کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ ہم اس امر کے لئے بھی امکانات تلاش کررہے ہیں کہ بھارت میں ایک تکنالوجی ڈمانسٹریشن مرکز قائم کیا جائے جہاں بیلاروس کی تکنالوجی کی نمائش کی جاسکے۔
بیلاروس اور بھارت کی شراکت داری کا ایک دوسر ا ذریعہ باہمی تعاو ن ہے۔ بیلاروس بھارت کی تکنیکی اور اقتصادی تعاون کے پروگرام میں ایک سرگرم شراکت دار ہے۔ بین الاقوامی فورموں میں ہمارے دونوں ممالک کے مابین قریبی تال میل بنا رہتا ہے اور باہمی مفادات کے معاملے میں ہمارے انداز فکر مشترک ہوتے ہیں۔ْ بھارت اور بیلا روس کثر پہلوئی فورموں میں ایک دوسرے کوباہمی تعاون دیتے رہیں گے۔
دوستو!
صدر لوکاشنکو اور میں نے ہمارے دونوں ممالک کے عوام کے مابین مالا مال تاریخی اور ثقافتی روابط پر گفت و شنیدکی ہے جس کی بنیاد پر خیرسگالی کا ماحول ساز گار ہوا ہے۔ مجھے یہ جان کر مسرت ہوئی کہ بیلاروس کے بہت سے باشندے بھارتیہ ثقافت، یہاں کے کھانوں، یہاں کی فلموں، موسیقی، رقص ، یوگ اور آیوروید میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
میں اپنے ملک میں سیاحت کو بڑھانے اور عوام سے عوام کے مابین تبادلوں میں وسیع مضمرات دیکھتا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ دنوں ممالک کے مابین ا س شعبے میں ہمارے تعلقات میں مزید استحکام پیدا ہوگا۔
آخر میں ، میں صدر لوکاشنکو کے ذریعہ یہاں ہمارا مہمان بننے کے لئے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ بھارت مستقل قریب میں بیلا روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرکے کام کرے گا اور آج جن امور پر اتفاق ہوا ہے اور جو نتائج برآمد ہوئے ہیں انہیں ہم عملی جامہ پہنائیں گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ صدر لوکاشنکو کا بھارت میں قیام ان کے لئے یاد گار اور خوشگوار رہے گا ۔