نئی دہلی ؍اکتوبر۔اسلامی جمہوریہ افغانستان کے صدر عزت مآب عالی جناب اشرف غنی نے صدر جمہوریہ ہند، جناب رام ناتھ کووند سے آج 24 اکتوبر 2017 کو راشٹرپتی بھون میں ملاقات کی۔
صدر جمہوریہ ہند نے افغان صدر کا بھارت میں خیرمقدم کرتے ہوئے ان کی تعریف کی کہ انہوں نے افغانستان کو مشکل حالات میں ایک دانشمندانہ قیادت فراہم کی۔ انہوں نے جناب غنی کی اس بات کیلئے بھی تعریف کی کہ انہوں نے بھارت اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنایا۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ بھارت کیلئے افغانستان محض ایک اہم شراکت دار ملک ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا ملک ہے جو اسے حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے دسمبر 2016 میں امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا چوٹی کانفرنس کے دوران صدر غنی کی تقریر اور ان کے گولڈن ٹمپل کے دورے کا ذکر کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تہذیبی رشتوں اور عوام سے عوا م کے درمیان رشتوں سے ہماری ہمیشہ ترقی پاتی ہوئی دوستی کو ایک مضبوط بنیاد فراہم ہوتی ہے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ حالیہ دنوں میں دونوں ملکوں نے اپنی اہم شراکت داری میں گہرائی پیدا کی ہے۔ بھارت اور افغانستان کی تجارت اور سرمایہ کاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے تجارتی رشتوں میں قربت آئی ہے اور ہمارے درمیان تجارت 20 کروڑ امریکی ڈالر سے زیادہ کی مالیت اختیار کرگئی ہے۔
صدر جمہوریہ نے قندھار ، کابل اور دلّی کے درمیان ہوائی راہداری شروع کیے جانے پر خوشی کااظہار کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے شہر مزار شریف اور ہرات ،ہوائی راستے کے ذریعے دلّی سے براہِ راست مربوط ہوگئے ہیں۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ دیرپا امن اور سلامتی افغانستان کو اس کی معیشت کی بحالی اور ترقی کے راستے پر گامزن کرنے میں بنیادی عناصر کی اہمیت رکھتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ افغانستان کے عوام پر عقل وفہم سے عاری تشدد تھوپا جارہا ہے۔ صدر جمہوریہ جناب کووند نے کابل ، قندھار ، غزنی اور پکتیا صوبوں سمیت افغانستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی ۔ جن کے نتیجے میں 200 سے زیادہ بے قصور لوگ مارے گئے تھے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ کئی دہائیوں سے خود بھارت بھی ، سرکار کی پشت پناہی میں سرحد کے اس پار سے کی جانے والی دہشت گردی کا شکار بنتا رہا ہے۔ ہم امن قائم کرنے کی افغانستان کے عوام کی اُمنگوں کا پوری طرح ساتھ دے سکتے ہیں۔ بھارت کا خیال ہے کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے جو بھی اقدامات کیے جارہے ہیں وہ خود افغانستان کی قیادت میں کیے جائیں اور ان پر افغانستان کا کنٹرول ہو۔