نئی دہلی۔ صدر جمہوریہ جناب رام ناتھ کووند نے دلی یونیورسٹی کے 94ویں تقسیم اسناد کی تقریب میں شرکت کی اور اس سے خطاب کیا۔
اس موقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے کہا کہ دلی یونیورسٹی مختلف طریقے سے ہندوستان کی یونیورسٹی ہے۔ یہاں ہر ایک ریاست اور علاقے کی نمائندگی ہوتی ہے۔ ہر سال ہزاروں لڑکے اور لڑکیاں دلی آتی ہیں اور دلی یونیورسٹی اور اس سے ملحق کالجوں میں داخلے کے لیے درخواست دیتے ہیں۔ شمال مشرق کے بہت سے نوجوان طلبہ کے لیے یہ یونیورسٹی کشش کا مرکز ہے۔ یہ طالب علم یونیورسٹی احاطہ اور دلی شہر کے کمال میں اضافہ کرتے ہیں۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں داخل ہو رہے ہیں جہاں مصنوعی ہوش تبدیل ہو رہا ہے اور یہ تبدیلی ہمارا سماج کیسے کام کرتا ہے کہ طرز پر نہیں بلکہ کیسے سوچتا ہے کے طرز پر رونما ہو رہی ہے۔ ہمارے سامنے بہت سے چیلنج اور مواقع ہیں۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ اہم ادارے مثلاً دلی یونیورسٹی کو بھی اس کے موافق ہونے کی ضرورت ہے۔ اسے اختراع کرنے کی بھی ضرورت ہے اور یہ تعلیمی اور فراہمی کے میکانزم سے متعلق ہو۔ روایتی رکاوٹیں ختم ہو رہی ہیں۔ اگر ہمارے تعلیمی نظام کو آئندہ 25 یا تیس سال کی ضرورت کے موافق ہونا ہے تو نئے کورس اور پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ فزیکل کلاس روم کی صلاحیت محدود ہے۔ ہمیں وہ طریقہ کار وضع کرنا ہے جس سے ہم اسکالرشپ اور تعلیم کو مزید آگے لے جانے کے لیے ٹیکنالوجی کے لیے استعمال کر سکیں۔ دلی یونیورسٹی نے دنیا کی دیگر یونیورسٹیوں کی طرح اوپن آن لائن کورس شرع کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم سے متعدد مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ یہ تعلیم طلبا کو مارکیٹ کی ملازمت کے لیے تیار کرتی ہے۔ لیکن یہ اعلیٰ تعلیم کا صرف ایک مقصد ہے۔ یونیورسٹیاں اگر تدریس اور علم کی تلاش کی کوشش کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں تو وہ حقیقتاً معنی خیز ہیں۔ بلواسطائی اختراع عالمی درجے کے اعلیٰ تعلیمی نظام اور ادارہ کی آزمائش ہے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ کالج پرنسپل اور سینئر فیکلٹی پوزیشن کے لیے بعض اسامیاں ہیں صدر جمہوریہ کو یقین ہے کہ یونیورسٹی حکام اور کالج مینجمنٹ ان اسامیوں کو پر کرنے کے لیے جلد اقدامات کریں گے۔