16.7 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

آل انڈیا ریڈیو پر وزیراعظم کی من کی بات کا متن

Urdu News

نئی دہلی؛ میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار۔ 2018کی پہ پہلی ’من کی بات ‘ ہے اور دو دن پہلے ہی ہم نے یوم جمہوریہ کا تہوار  بہت ہی جوش و خروش کے ساتھ اور تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ 10 ممالک کے سربراہان اس تقریب میں موجود رہے۔

میرے پیارے ہم وطنوں، میں آج جناب پرکاش ترپاٹھی نے نریندر مودی ایپپ پر ایک لمبا خط لکھا ہے اور مجھ سے بہت التجا کی ہے کہ میں ان کے خط میں لکھے گئے موضوع  کا ذکر کروں۔ انہوں نے لکھا ہے   ، یکم فروری کو خلا میں جانے والی کلپنا چاولا کی سالگرہ ہے۔ کولمبیائی خلائی جہاز حادثے میں وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں لیکن دنیا بھر میں لاکھوں نوجوانوں کو ترغیب دے گئیں۔ میں بھائی پرکاش جی کا ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنے لمبے خط میں کلپنا چاولا کی جدائی سے شروعات کی ۔ یہ سب کے لے بہت افسوس کی بات ہے کہ  ہم نے کلپنا چاولا جی کو اتنی کم عمر میں کھو دیا لیکن انہوں نے اپنی زندگی سے پوری دنیا میں خاص طور پر ہندوستان کی ہزاروں لڑکیوں کو، یہ پیغام دیا کہ خواتین  کی طاقت کے لیے کوئی حد نہیں ہے۔ خواہش اور عزم ہو، کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہو تو کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے کہ ہندوستان میں آج خواتین ہر شعبے میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں اور ملک کی شان بڑھا رہی ہیں۔

پرانے زمانے سے ہمارے ملک میں خواتین کی عزت، ان کا سماج میں مقام اور ان کی خدمات، یہ پوری دنیا کو حیرت میں ڈالتی ہے۔ ہندوستان سے محبت کرنے والوں کی لمبی روایت رہی ہے۔ ویدوں کی رچاؤں کو بننے میں ہندوستان کے بہت سی خواتین کا تعاون رہا ہے۔ لوپا مدرا، گارگی، میتریہ نہ جانے کتنے ہی نام ہیں۔ آج ہم ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پرھاؤ‘ کی بات کرتے ہیں لیکن صدیوں پہلے ہمارے شاستروں میں، اسکند پران میں کہا گیا ہے :

دش پُتر، سماکنیا، دش پُتران پروردھین۔

یت پھلم لبھ تے مرتیہ، تت لبھیم کنیہ کیکیا۔

یعنی، ایک بیٹی دس بیٹوں کے برابر ہے۔ دس بیٹوں سے جتنا ثواب ملے گا ایک بیٹی سے اتنا ہی ثواب ملے گا۔ یہ ہمارے  سماج میں خواتین کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اس لیے تو، ہمارے سماج میں خواتین کو ’شکتی‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ خواتین کی شکتی پورے ملک کو، تمام سماج کو، خاندان کو، یکجہتی کے ڈور میں باندھتی ہے۔ چاہے ویدک کال کی خواتین دانشوران لوپ مدرا، گارگی، میتریہ کی دانش مندی ہو یا اکّا مہادیوی اور میرا بائی کا علم اور جذبہ ہو، چاہے اہلیہ بائی ہولکر کا حکومتی نظام ہو یا رانی لکشمی بائی کی بہادری، خواتین کی طاقت ہمیشہ ہمیں ترغیب دیتی ہے۔ ملک کی عزت و وقار کو بڑھاتی آئی ہے۔

جناب پرکاش ترپاٹھی نے آگے کئی ساری مثالیں پیش کی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہماری بہادر وزیر دفاع نرملا سیتا رمن کے لڑاکا جہاز ’سکھوئی 30‘ میں اڑان بھرنا، انہیں ترغیب دے دیگا۔ انہوں نے ورتکا جوشی کی قیادت میں ہندوستانی بحری فوج کی خواتین عملے کے اراکین آئی این ایس وی ترینی پر پوری دنیا کی جائزہ لے رہی ہیں، اس کا ذکر کیا ہے۔ تین بہادر خواتین بھاونا کنٹھ، موہنا سنگھ اور اونی چترویدی فائٹر پائلٹس بنی ہیں اور سکھوئی 30 میں تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ چھمتا واجپئی کی رہنمائی والی آل ویمن عملے نے دلی سے امریکہ کے سن فرانسسکو اور واپس دلی تک ایئر انڈیا بوئنگ جیٹ میں پرواز کی۔ اور سب کی سب خواتین۔ آپ نے بالکل صحیح کہا – آج خواتین، ہر شعبے میں نہ صرف آگے برھ رہی ہیں بلکہ قیادت کر رہی ہے۔ آج کئی شعبے ایسے ہیں جہاں سب سے پہلے، ہماری خواتین کی شکتی کچھ کر کے دکھا رہی ہے۔ ایک سنگ میل  درج کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں عزت مآب صدر جمہوریہ نے ایک نئی پہلی کی ۔

صدر جمہوریہ نے ان غیر معمولی خواتین کے ایک گروپ سے ملاقات کی جنہوں نے اپنے اپنے شعبے میں سب سے پہلے کچھ کر کے دکھایا۔ ملک کی یہ خواتین ایچیور، مرچنٹ بحریہ کی پہلی خاتون کپتان، مسافر ریل گاڑی کی پہلی خاتون ٹرین ڈرائیور، پہلی خاتون فائر فائٹر، پہلی خاتون بس ڈرائیور، انٹارکٹکا پہنچنے والی پہلی خاتون، ایوریسٹ پر پہنچنے والی پہلی خاتون، اس طرح سے ہر شعبے میں فرسٹ لیڈیز – ہماری ناری شکتی نے سماج کی قدامت پرستی کو توڑتے ہوئے غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کیں، ایک مثال قائم کیا۔ انہوں نے دکھا یا کہ سخت محنت، لگن اور عزم کی قوت سے تمام رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے ایک نیا راستہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا راستہ جو صرف اپنے معاون لوگوں کو بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ترغیب دے گی۔ انہیں ایک نئے جوش اور امنگ سے بھر دیگا۔ اس ویمن ایچیوورس ، فرسٹ لیدیز، پر ایک کتاب بھی تیار کی گئی ہے تاکہ پوری دنیا ان خواتین قوت کے بارے میں جانیں، ان کی زندگی اور ان کے کاموں سے ترغیب حاصل کر سکیں۔ یہ نریندر مودی ویب سائٹ پر بھی ای-بک کی شکل میں  دستیاب ہے۔

آج ملک اور سماج میں ہو رہی مثبت تبدیلی میں ملک کی خواتین کا اہم رول ہے۔ آج جب ہم خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کر رہے ہیں تو میں ایک ریلوے اسٹیشن کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ایک ریلوے اسٹیشن اور خواتین کو بااختیار بنانا، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان دونوں کے درمیان کیا کنکشن ہے۔ ممبئی کا مانٹونگا اسٹیشن ہندوستان کا ایک ایسا پہلا اسٹیشن ہے جہاں سبھی خواتین ورکر ہیں۔ سبھی محکموں میں خواتین اسٹاف – چاہے کمرشیئل ڈیپارٹمنٹ ہو، ریلوے پولیس ہو، ٹکٹ چیکنگ ہو، اناؤنسنگ ہو، پوائنٹ پرسن ہو، پورا 40 سے بھی زیادہ خواتین کا اسٹاف ہے۔ اس بات بہت سے لوگوں نے یوم جمہوریہ کی پریڈ دیکھنے کے بعد ٹوئیٹر پر ایک دوسرے سوشل میڈیا پر لکھا کہ پریڈ کی ایک اہم بات تھی، بی ایس ایف بائکر دستے جس میں سب کی سب خواتین حصہ لے رہیں تھی۔ بہادی سے لبریز مظاہرہ کر رہی تھیں اور یہ منظر، بیرون ملک سے آئے ہوئے مہمانوں کو بھی حیرت میں ڈال رہی تھیں۔ بااختیار بنانا، خود اعتمادی کی ایک ہی شکل ہے۔ آج ہماری خواتین قوت قیادت کر رہی ہے۔ خود مختار بن رہی ہے۔ ویسے ہی ایک بات میرے ذہن میں آئی ہے، چھتیس گڑھ کی ہماری قبائلی خواتین نے بھی کمال کر دیا ہے۔ انہوں نے ایک نئی مثال پیش کی ہے۔ قبائلی خواتین کا جب ذکر آتا ہے تو سبھی کے من میں ایک خاص تصویر ابھر آتی ہے۔ جس میں جنگل ہوتا ہے، پگڈنڈی ہوتی ہیں، ان پر لکڑیوں کا بوجھ سر پر اٹھائے چل رہی خواتین۔ لیکن چھتیس گڑھ کی ہماری قبائلی خواتین، ہماری اس ناری شکتی نے ملک کے سامنے ایک نئی تصویر بنائی ہے۔ چھتیس گڑھ کا دانتے واڑا علاقہ، جو ماؤنوازوں سے متاثر علاقہ ہے۔ تشدد، ظلم، بم، بندوق، پستول – ماؤنوازوں نے اسی کا ایک خطرناک ماحول پیدا کیا ہوا ہے۔ ایسے خطرناک علاقے میں قبائلی خواتین، ای-رکشا چلا کر خود کفیل بن رہی ہیں۔ بہت ہی کم وقت میں بہت سی خواتین اس سے جڑ گئی ہیں۔ اور اس سے تین فائدے ہو رہے ہیں، ایک طرف جہاں خود کا روزگار انہیں بااختیار بنانے کا کام کیا ہے وہیں اس سے ماؤنوازوں سے متاثرہ علاقے کی تصویر بھی بدل رہی ہے۔ اور ان سب کے ساتھ اس سے ماحولیاتی تحفظ کے کام کو بھی طاقت مل رہی ہے۔ یہاں کے ضلع حکام کی بھی ستائش کرتا ہوں ، گرانٹ دستیاب کرانے سے لے کر تربیت دینے تک، ضلع حکام نے ان خواتین کی کامیابی میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔

ہم بار بار سنتے آئے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں –’کچھ بات ہے ایسی کی ہستی مٹتی نہیں ہماری‘۔ وہ بات کیا ہے ، وہ بات ہے فلیکسی بلٹی – لچیلاپن، ٹرانسفورمیشن۔ جو وقت خراب ہے اسے ترک کرنا، جو ضروری ہے اس کی اصلاح کرنا۔ اور ہمارے سماج کی خصوصیت ہے – خود کی اصلاح کرنے کی مسلسل کوشش، خود کی اصلاح، یہ ہندوستانی روایت، یہ ہماری ثقافت ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ کوئی بھی زندگی – سماج کی شناخت ہوتی ہے اس کا سیلف کریکٹنگ  میکینزم ۔ سماج کی غلط روایات غلط رسم و رواج کے خلاف صدیوں سے ہمارے ملک میں ذاتی اور سماجی سطح پر مسلسل کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے بہار نے ایک دلچسپ پہل کی۔ ریاست میں سماج کے غلط رسم و رواج کو جڑ سے مٹانے کے لیے 13 ہزار سے زیادہ کلومیٹر کی دنیا کی سب سے لمبی انسانی-چین، ہیومن چین بنائی گئی۔ اس مہم کے ذریعے لوگوں کو بچوں کی شادی اور جہیز لینے کے رسم جیسی برائیوں کے خلاف بیدا ر کیا گیا۔ جہیز اور بچوں کی شادی جیسی غلط روایات سے پوری ریاست نے لڑنے کا عہد کیا۔ بچے، بزرگ، جوش اور امنگ سے لبریز نوجوان، مائیں، بہنیں ہر کوئی اپنے آپ کو اس جنگ میں شامل کیے ہوئے تھے۔ پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان سے شروع ہوئی انسانی زنجیر ریاستی سرحدوں تک نہ ٹوٹنے والی شکل میں جڑتی چلی گئی۔ سماج کے سبھی لوگوں کو صحیح معنی میں ترقی کا فائدہ ملے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا سماج ان غلط رسم و رواج  سے آزاد ہو۔ آیئے ہم سب مل کر ایسی غلط روایات کو سماج سے ختم کرنے کا عہد لیں اور ایک نیو انڈیا، ایک بااختیار و  قابل ہندوستان کی تعمیر کریں۔ میں بہار کے عوام، ریاست کے وزیراعلیٰ، وہاں کے حکام اور انسانی زنجیر میں شامل ہر انسان کی تعریف کرتا ہوں کہ انہوں نے سماجی بہبود کی سمت اتنی خاص اور وسیع پہل کی۔

میرے پیارے ہم وطنوں، میسور، کرناٹک کے جناب درشن نے مائی گوو پر لکھا ہے – ان کے والد کے علاج پر مہینے میں دوائیوں کا خرچ چھ ہزار روپے ہوتا تھا۔ انہیں پہلے وزیراعظم جن اوشدھی منصوبہ کے بارے میں جانکاری نہیں تھی۔ لیکن اب جب انہیں جن اوشدھی مرکز کے بارے میں جانکاری ملی اور انہوں نے وہاں سے دوائیاں خریدی تو ان کی دوائیوں کا خرچ 75 فیصد تک کم ہو گیا۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس کے بارے میں من کی بات پروگرام میں بات کروں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس کی جانکاری پہنچے اور وہ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ گزشتہ کچھ وقت سے بہت سے لوگ مجھے اس موضوع میں لکھتے رہتے تھے، بتاتے رہتے ہیں۔ میں نے بھی کئی لوگوں کے ویڈیو، سوشل میڈیا پر بھی دیکھے ہیں جنہیں اس منصوبہ کا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ اور اس طرح کی جانکاری جب ملتی ہے تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ ایک گہرا سکون ملتا ہے۔ اور مجھے  بھی بہت اچھا لگتا ہے کہ جناب درشن جی کے من میں یہ خیال آیا کہ جو انہیں ملا ہے، وہ دوسروں کو بھی ملے۔ اس منصوبہ کے پیچھے مقصد ہے –حفظان صحت کو قابل اسطاعت بنانا اور اور ایز آف لیونگ کو فروغ دینا۔ جن اوشدھی مرکزوں پر ملنے والی دوا بازار میں بکنے والی برانڈیڈ دوائیوں سے تقریباً 50 فیصد سے 90 فیصد تک سستی ہے۔ اس سے عام لوگ، خاص طور پر روزانہ دوائی لینے والے بزرگوں کی بہت مالی مدد ہوتی ہے، بہت بچت ہوتی ہے۔ اس میں خریدی جانے والی جینیرک دوائیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے طے کردہ معیار کے مطابق ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھی کوالٹی کی دوائیں سستی قیمت پر مل جاتی ہیں۔ آج ملک میں تین ہزار سے زیادہ جن اوشدھی مراکز کا قیام کیا جا چکا ہے۔ اس سے نہ  سستی مل رہی ہیں بلکہ انفرادی طور پر کاروبار کرنے والوں کے لیے بھی روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ سستی دوائیاں وزیراعظم بھارتی جن اوشدی مراکز اور اسپتالوں کے ’امرت اسٹورس‘ پر دستیاب ہیں۔ ان سب کے پیچھے صرف ایک مقصد ہے – ملک کے غریب سے غریب انسان کو معیاری اور قابل اسطاعت صحت کی خدمات دستیاب کروانا ہے تاکہ ایک صحت مند اور خوشحال ہندوستان کی تعمیر کی جا سکے۔

میرے پیارے ہم وطنوں، مہاراشٹر سے جناب منگیش نے نریندر مودی موبائل ایپ پر ایک فوٹو، شیئر کی۔ وہ فوٹو ایسی تھی کہ میری توجہ اس فوٹو کی جانب کھینچی چلی گئی۔ وہ فوٹو ایسی تھی جس میں ایک پوتا اپنے دادا کے ساتھ ’کلین مورنا ریور‘ صفائی مہم میں حصہ لے رہا تھا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اکولا کے رہنے والے نے ’سووچھ بھارت مہم‘ کے تحت مورنا ندی کو صاف کرنے کے لیے صفائی مہم کا انعقاد کیا تھا۔ مورنا ندی پہلے بارہ مہینے بہتی تھی لیکن اب وہ سیزنل ہو گئی ہے۔ دوسری دکھ کی بات ہے کہ ندی پوری طرح سے جنگلی گھاس ، جل کنبھی سے بھر گئی تھی۔ ندی اور اس کے کنارے پر کافی کوڑا  پھینکا جا رہا تھا۔ ایک ایکشن پلان تیار کیا گیا اور مکر سنکرانتی سے ایک دن پہلے 13 جنوری کو ’مشن کلین مورنا‘ کے پہلے مرحلےکے  تحت چار کلومیٹر کے رقبے  میں چودہ جگہوں پر مورنا ندی کے ساحل کے دونوں کناروں کی صفائی کی گئی۔ ’مشن کلین مورنا‘ کے اس نیک کام میں اکولا کے چھ ہزار سے زائد عوام، سو سے زائد این جی اوز، کالجز، طلبا ، بچے، بزرگ، مائیں- بہنیں ہر کسی نے اس میں حصہ لیا۔ 20 جنوری 2018 کو بھی یہ صفائی مہم اسی طرح جاری رکھا گیا اور مجھے بتایا گیا ہے کہ جب تک مورنا ندی پوری طرح سے صاف نہیں ہو جاتی، یہ مہم ہر ہفتے کی صبح کو چلے گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر انسان کچھ کرنے کا عہد کر لے تو ناممکن کچھ بھی نہیں ہے۔ عوامی تحریک کے ذریعے سے بڑی سے بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ میں اکولا کے عوام کو، وہاں کے ضلع و میونسپل کارپوریشن کے حکام کو اس کام کو عوامی تحریک بنانے کے لیے جڑے ہوئے سبھی عوام کو، آپ کی ان کوششوں کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں اور آپ کی یہ کوشش ملک کے دیگر لوگوں کو بھی ترغیب دے گا۔

میرے پیارے ہم وطنوں ، ان دنوں پدم اعزازات سے متعلق کافی گفتگو آپ بھی سنتے ہوں گے۔ اخباروں میں بھی اس موضوع میں، ٹی وی پر بھی اس پر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ لیکن اگر تھوڑی باریکی سے دیکھیں گے تو آپ کو فخر ہوگا۔ فخر اس بات کا کہ کیسے کیسے عظیم لوگ ہمارے درمیان میں ہیں اور یقینی طور پر اس بات کا بھی فخر ہوگا کہ کیسے آج ہمارے ملک میں عام انسان بغیر کسی سفارش کے ان اونچائیوں تک پہنچ رہے ہیں۔ ہر سال پدم اعزاز دینے کی روایت رہی ہے لیکن گزشتہ تین سالوں میں اس کا پورا عمل تبدیل ہو گیا ہے۔ اب کوئی بھی شخص کسی کو بھی نومینیٹ کر سکتا ہے ۔ پورا عمل آن لائن ہو جانے سے شفافیت آ گئی ہے۔ ایک طرح سے ان انعاموں کو منتخب کرنے کے عمل کا پورا ٹرانسفارمیشن ہو گیا ہے۔ آپ کا بھی اس بات پر دھیان  گیا ہوگا کہ بہت عام انسان کو پدم اعزاز مل رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پدم اعزاز دیئے گئے ہیں جو عام طور پر بڑے بڑے شہروں میں، اخباروں میں، ٹی وی میں، اجلاس میں نظر نہیں آتے ہیں۔ اب انعام دینے کے لیے فرد کی پہچان  نہیں، اس کے کام کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ آپ نے سنا ہوگا جناب اروند گپتا جی کو، آپ کو جان کر کے خوشی ہوگی، آئی آئی ٹی کانپور کے طلبا رہے اروند جی نے بچوں کے لیے کھلونے بنانے میں اپنی ساری زندگی گزار دی۔ وہ چار دہائیوں سے کچرے سے کھلونے بنا رہے ہیں تاکہ بچوں میں سائنس کے تئیں تجسس بڑھا سکیں۔ ان کی کوشش ہے کہ بچے بیکار کی چیزوں سے سائنسی تحقیق کی جانب راغب ہوں، اس کے لیے وہ ملک بھر کے تین ہزار اسکولوں میں جاکر 18 زبان میں بنی فلمیں دکھا کر بچوں کو راغب کر رہے ہیں۔ کیسی   حیرت انگیز زندگی، کیسی حیرت انگیز سپردگی۔ ایک ایسی ہی کہانی کرناٹک کے ستوا جودّدتی کی ہے۔ انہیں خواتین کو بااختیار بنانے کی دیوی ایسے ہی نہیں کہا گیا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے بیلاگوی میں انہوں نے بے شمار خواتین کی زندگی سنوارنے میں عظیم تعاون دیا ہے۔ انہوں  نے سات سال کی عمر میں ہی خود کو دیوداسی کے طور پر وقف کر دیا تھا ۔ لیکن پھر دیوداسیوں کے فروغ کے لیے ہی اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ اتنا ہی نہیں، انہوں نے پسماندہ خواتین کے فروغ کے لیے بھی بے مثال کام کیے ہیں۔ آپ نے نام سنا ہوگا مدھیہ پردیش کے بھجو شیام کے بارے میں ، جناب بھجو شیام کی پیدائش بالکل غریب کنبے، قبائلی خاندان میں ہوئی تھی۔ وہ زندگی بسر کرنے کے لیے عام سی نوکری کرتے تھے لیکن ان کو روایتی قبائلی پینٹنگ بنانے کا شوق تھا۔  آج اسی شوق کی وجہ سے ان کی ہندوستان ہی نہیں ، پوری دنیا میں عزت ہے۔ نیدرلینڈ، جرمنی، انگلینڈ، اٹلی جیسے کئی ممالک میں ان کی پینٹنگ کی نمائش  ہو چکی ہے۔ غیرممالک میں ہندوستان کا نام روشن کرنے والے بھجو شیام جی کی مہارت کو پہچان  لیا گیا اور انہیں پدم شری اعزاز دیا گیا۔

کیرال کی قبائلی خاتون لکشمی کُٹّی کی کہانی سن کر آپ کو حیرت ہوگی۔ لکشمی کٹی ، کلّار میں ٹیچر ہیں اور اب بھی گھنے جنگلوں کے درمیان قبائلی علاقے میں تاڑ کے پتوں سے بنی چھونپڑی میں رہتی ہیں۔ انہوں نے اپنی یادداشت کی بنیاد پر ہی پانچ سو ہربل ادویات بنائی ہیں۔ جڑی بوٹی سے دوائیاں بنائی ہیں۔ سانپ کاٹنے کے بعد استعمال کی جانے والی دوائی بنانے میں انہیں مہارت حاصل ہے۔ لکشمی جی ہربل دواؤں کی اپنی جانکاری سے مسلسل سماج کی خدمت کر رہی ہیں۔ اس گم نام شخصیت کو پہچان کر سماج میں ان کے تعاون کے لیے انہیں پدم شری سے نوازا گیا۔ مجھے آج ایک اور نام کا بھی ذکر کرنے کا میرا من کرتا ہے۔ مغربی بنگال کی 75 سالہ سبھاسنی مستری کو بھی۔ انہیں انعام کے لیے منتخب کیا گیا۔ سبھاسنی مستری ایک ایسی خاتون ہیں، جنہوں نے اسپتال بنانے کے لیے دوسروں کے گھروں میں برتن صاف کیے، سبزی بیچی۔ جب یہ 23 سال کی تھیں تو علاج نہیں ہونے کی وجہ سے ان کے شوہر کی موت ہو گئی تھی اور اسی حادثہ سے انہیں غریبوں کے لیے اسپتال بنانے کے لیے ترغیب ملا۔ آج ان کی سخت محنت سے بنائے گئے اسپتال میں ہزاروں غریبوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری بہورتنا وسوندھرا میں ایسے کئی مرد رتن ہیں، کئی خاتون رتن ہیں جن کو نہ کو ئی جانتا ہے، نہ کوئی پہچانتا ہے۔ ایسے افراد کی پہچان نہ بننا، اس سے سماج کا بھی نقصان ہو جاتا ہے۔ پدم اعزاز ایک ذریعہ ہے لیکن میں ہم وطنوں کو بھی کہوں گا کہ ہمارے آس پاس سماج کے لیے جینے والے ، سماج کے لیے کھپنے والے، کسی نہ کسی خصوصیت  کو لے کر کے زندگی بھر کام کرنے والے ہدف کو پانے والے لوگ ہیں۔ کبھی نہ کبھی ان کو سماج کے درمیان لانا چاہیے۔ وہ عزت کے لیے کام نہیں کرتے ہیں لیکن ان کے کام کی وجہ سے ہمیں ترغیب ملتی ہے۔ کبھی اسکولوں میں ، کالجز میں ایسے لوگوں کو بلا کر کے ان کے تجربوں کو سننا چاہیے۔ انعامات سے بھی آگے، سماج میں بھی کچھ کوشش ہونی چاہیے۔

میرے پیارے ہم وطنوں، ہر سال 9 جنوری کو ہم غیر ممالک میں رہنے والے ہندوستانیوں کا دن مناتے ہیں، یہی 9 جنوری ہے، جب عزت مآب مہاتما گاندھی جنوبی افریقہ سے ہندوستان لوٹے تھے۔ اس روز ہم ہندوستان اور دنیا بھر میں رہ رہے ہندوستانیوں کے درمیان، اٹوٹ بندھن کا جشن مناتے ہیں۔ اس سال غیرممالک میں مقیم ہندوستانی کے دن پر ہم نے ایک پروگرام منعقد کیا تھا جہاں دنیا بھر میں رہ رہے ہندوستانی لوگوں کے سبھی ممبر پارلیمان کو اور میئروں کو مدعو کیا تھا۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس پروگرام میں ملیشیا، نیوزی لینڈ، سوئیزرلینڈ، پرتگال، ماریشس، فیجی، تنزانیہ، کینیا، کنیڈا، برطانیہ، سوری نام، جنوبی افریقہ اور امریکہ سے، اور بھی کئی ممالک سے وہاں جہاں جہاں ہمارے میئر ہیں ہندوستانی، جہاں جہاں پارلیمنٹ کے رکن ہیں خاص ہندوستانی، ان سب نے حصہ لیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ مختلف ممالک میں رہ رہے ہندوستانی نسل کے لوگ ان ممالک کی خدمات تو کر رہی رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ، وہ ہندوستان کے ساتھ بھی اپنے مضبوط تعلقات بنائے رکھے ہیں۔ اس بار یوروپی یونین، یوروپی یونین نے مجھے کلینڈر بھیجا ہے جس میں انہوں نے یوروپ کے مختلف ممالک میں رہ رہے ہندوستانیوں کے ذریعے مختلف شعبوں میں ان کے تعاون کو ایک اچھے ڈھنگ سے ظاہر کیا ہے۔ ہمارے ہندوستانی لوگ جو یوروپ کے مختلف ممالک میں رہ رہے ہیں۔ کوئی سائبر سکیورٹی میں کام کر رہا ہے، تو کوئی آیوروید کے لیے وقف ہے، کوئی اپنے موسیقی سے سماج کے من کو ڈولاتا لاتا ہے تو کوئی اپنی کویتاؤں سے۔ کوئی کلائمٹ چینج پر تحقیق کر رہا ہے تو کوئی ہندوستانی گرنتھوں پر کام کر رہا ہے۔ کسی نے ٹرک چلاکر گرو دوارا کھڑا کیا ہے تو کسی نے مسجد بنائی ہے۔ یعنی جہاں بھی ہمارے لوگ ہیں ، انہوں نے وہاں کی سرزمین کو کسی نہ کسی طریقے سے سجایا ہے۔ میں شکریہ ادا کرنا چاہوں گا یوروپی یونین کے اس اہم کام کے لیے، ہندوستان کے لوگوں کو پہچان دلانے کے لیے اور ان کے ذریعے سے دنیا بھر کے لوگوں کو جانکاری فراہم کرنے کے لیے بھی۔

30 جنوری کو بابائے قوم کی سالگرہ ہے، جنہوں نے ہم سبھی کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔ اس دن ہم شہید دوس کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن ہم ملک کی حفاظت میں اپنی جان گنوانے والے عظیم شہیدوں کو 11 بجے خراج عقدیت پیش کرتے ہیں۔ امن اور عدم تشدد کا راستہ، یہی باپو کا راستہ۔ چاہے ہندوستان ہو یا دنیا، چاہے انسان ہو یا کنبہ ہو یا سماج – باپو جن اقدار کو لے کر کے جیے، عظیم باپو نے جو باتیں ہمیں بتائی، وہ آج بھی بے حد موزوں ہیں۔ وہ صرف اصول نہیں تھے۔ موجودہ وقت میں بھی ہم قدم قدم پر دیکھتے ہیں کہ باپو کی باتیں کتنی صحیح تھیں۔ اگر ہم عہد کریں کہ باپو کے راستے پر چلیں گے جتنا چل سکیں، چلیں – تو اس سے بڑی خراج عقیدت کیا ہو سکتی ہے۔؟

میرے پیارے ہم وطنوں، آپ سب کو 2018 کی مبارکباد دیتے ہوئے، میں اپنی بات کو یہیں ختم کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔ نمسکار۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More