جب ہندستان کو اگتے سورج کی جانب دیکھنا ہوتا ہے ، سورج کے طلوع کو دیکھنا ہوتا ہے توپورے ہندوستان کو سب سے پہلے اروناپردیش کی طرف اپنا منھ کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا پورا دیش ، سوا سو کروڑ ہم وطن کو طلو ع آفتاب دیکھنا ہوتا ہے تو ارونا چل کی طرف نگاہ کئے ہوئے دیکھ نہیں پاتے۔ جس اروناچل سے اندھیرا دور ہوتا ہے ، روشنی پھیلتی ہے، آنے والے دنو ں میں بھی یہاں ترقی کی ایسی روشنی پھیلی گی جو بھارت کو روشن کرنے میں کام آئے گی۔
اروناچل مجھے کئی بار آنے کا موقع ملا ہے، جب تنظیم کا کام کرتا تھا تب بھی آیا، گجرات میں وزیراعلی رہا تب بھی آیا اور وزیراعظم بننے کے بعد آج دوسری بار آپ سب کے درمیان آپ کے درشن کرنے کا مجھے موقع ملا ہے۔
اروناچل ایک ایسی ریاست ہے کہ اگر آپ پورے ہندستان کا سفر کرکے آئیں ، اور ارناچل میں ایک دن قیام کریں ، پورے ہفتے بھر میں پورے ہندستان میں جتنی بار آپ جے ہند سنو گے اس سے زیادہ پورے میں دن میں جے ہند اروناچل پردیش میں سننے کو ملے گا۔ یعنی شاید ہندستان میں ایسی روایت اروناچل میں ملے گی کہ جہاں پر ایک دوسرے کو سلام کرنے کے لئے سماجی زندگی کا طریقہ جے ہند سے شروع ہوگیا اور جے ہند سے جڑ گیا ہے۔ رگ میں بھری ہوئی حب الوطنی ملک کے تئیں پیار ، یہ اپنے آپ میں اروناچل کے باشندوں نے یہ تپسیا کرکے اس کو اپنی رگ رگ کا حصہ بنایا ہے۔
جس طرح سے شمال مشرق میں ہندی بولنے ، سمجھنے کی کوئی ریاست ہے تو میرا اروناچل پردیش ہے۔ اور مجھے حیرانی ہورہی ہے کہ ان دنوں نارتھ ایسٹ میں میرا دورہ ہوتا ہے۔ پہلے تو آپ کو جیسا کہ معلوم ہے کہ وزیراعظموں کو اتنا کام ہوا کرتا تھا کہ وہ یہاں تک آ نہیں پاتے تھے۔ اور میں ایک ایسا وزیراعظم ہوں کہ آپ کے درمیان آئے بغیر نہیں رہ پاتا ہوں۔ لیکن نارتھ ایسٹ میں میں جاتا ہوں تو میں دیکھ رہا ہوں کہ سب نوجوان بینر لے کر کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور مانگ کرنا ہے کہ ہمیں ہندی سیکھنا ہے۔ ہمیں ہندی سکھاؤ ،۔ یہ ایک بڑا انقلاب ہے ۔ اپنے ملک کے لوگوں سے ان کی زبان میں بات چیت کرتا ہوں یہ جو جذبہ ہے یہ اپنے آپ میں بہت بڑی طاقت لے کر آئی ہے۔
آج مجھے یہاں تین پروگرام میں حصہ لینے کا موقع ملا ہے ۔ بھارت سرکار کے بجٹ سے ، بھارت سرکار کی یوجنا سے ، ڈونر وزارت کے ذریعہ یہ برانڈ سوغات اروناچل کی عوام کو ملی ہے۔ سکریٹریٹ کا کام تو شروع ہوچکا ہے۔ کبھی کبھی ہم اخباروں میں دیکھتے ہیں ۔ پل بن جاتا ہے لیکن نیتا کو وقت نہیں۔ اس لئے پل کا افتتاح ہوتا نہیں اور مہینوں تک یوں ہی پڑا رہتا ہے۔ روڈ بن جاتا ہے ، نیتا کو وقت نہیں ہوتا ۔ روڈ ویسے کا ویسا ہی بنا پڑا رہتا ہے۔
ہم نے آکر ایک نیا کلچر شروع کیا ۔ ہم نے نیا کلچر یہ شروع کیا کہ آپ نیتا کا انتظار نہیں کرو، وزیراعظم کا انتظار نہیں کرو، اگر یوجنا پوری ہوچکی ہے ، استعمال کرنا شروع کردو، جب آنے کا موقع ملے گا اس دن عوام کی نذر کر دیں گے۔ کام روکنا نہیں چاہئے۔ اور میں پریما جی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے کام شروع کردیا اور عوام کی نذر کرنے کا کام آج ہورہا ہے۔ پیسے کیسے بچ سکتے ہیں ، پیسوں کا کیسے جائز استعمال ہوسکتا ہے ، اس بات کو ہم اچھی طرح سے چھوٹے سے فیصلے سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اب سرکار جب بکھری بکھری ہوتی ہے ، کوئی محکمہ یہاں کوئی ادھر بیٹھا ہوتا ہے ، مکان بھی پرانا، جو افسر بیٹھتا ہے وہ بھی سوچتا ہے جلدی گھر کیسے جاؤں ۔ اگر ماحول ٹھیک ہوتا ہے ، تو اس کے کام کرنے کے طریقہ پر بھی مثبت اثر ہوتا ہے ۔ جتنی صفائی ہوتی ہے ، فائلیں ڈھنگ سے رکھی ہوئیں ہیں ورنہ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ جب دفتر جاتا ہے تو پہلے کرسی کو پٹ پٹ کرتا ہے تاکہ مٹی اڑ جائے تب بیٹھتا ہے۔ لیکن اس کو معلوم نہیں وہ ایسے اڑاتا ہے بعد میں وہ وہیں پڑتی ہے۔ لیکن ایک اچھا دفتر رہنے کے سبب اور ایک ہی احاطہ میں سارے یونٹ آنے کی وجہ سے اب گاؤں سے کوئی شخص آتا ہے ، سکریٹریٹ میں کوئی کام ہے تو اس بیچارے کو وہ نہیں کہتا کہ ادھر نہیں دور جاؤ تو اس کو وہاں سے دو کلو میٹر دور جانا پڑے گا پھر وہاں جائے گا کوئی کہے گا یہاں نہیں پھر دو کلو میٹر دور تیسرے دفتر میں جانا پڑے گا۔ اب وہ یہاں کسی غلط محکمہ میں پہنچ گیا تو وہ کہے گا کہ آپ آئے تو اچھی بات ہے لیکن یہ بغل والے کمرے میں چلے جائیے ، عام آدمی کو بھی اس انتظام سے بھی بہت آسانی ہوگی۔
دوسرا، سرکاری یوں ہی نہیں چل سکتی سب ملکر ایک سمت چلتے ہیں جب مل کر سرکار نیتجہ خیز بنتی ہے۔ لیکن اگر تکنیکی انداز میں اشتراک و تعاون ہوتا رہتا ہے تو اس کی طاقت تھوڑی کم ہوتی ہے لیکن اگر اچھی طرح سے اشتراک اور تعاون ہوتا ہے توا س کی طاقت بہت اچھی ہوتی ہے۔ ایک ہی کیمپس میں سب دفتر ہوتے ہیں ، تو اچھی طرح سے ملنا جلنا ہوتا ہے۔ کنٹین میں بھی افسر ایک ساتھ چلے جاتے ہیں ، ایک دوسرے کی پریشانیوں کا چرچہ کرکے حل کرلیتے ہیں۔ یعنی کام کے فیصلے کے عمل میں کوآرڈی نیشن بڑھتا ہے۔ ڈلیوری نظام تیز ہوجاتا ہے۔ فیصلہ سازی کا عمل بہت آسان ہوجاتاہے اور اس لئے نئے سکریٹریٹ کے سبب اروناچل کے لوگوں کی زندگی کی امیدوں اور توقعات کو پورا کرنے کا کام کیا جائے گا ۔ اسی طرح سے آج ایک اہم کام اور میں اپنے آپ میں اس کے سبب فخر محسوس کرتا ہوں ۔ جناب دورجی کھانڈو ، ریاستی کنونشن سینٹر ، ایٹا نگر کا آج افتتاح کرتے ہوئے۔ یہ صرف ایک عمارت کا افتتاح نہیں ہے یہ ایک قسم سے اروناچل پردیش کا جیتا جاگتا تونائی مرکز بن سکتا ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں کانفرنسوں کے لئے، آسانی ہوگی ، ثقافتی سرگرمی کے لئے آسانی ہوگی اور اگر ہم اروناچل میں سیاحت کو بڑھانا چاہتے ہیں تو میں بھی بھارت سرکار کی مختلف کمپنیوں کو کہوں گا کہ یہاں کنونشن سینٹر بنا ہے آپ کی جنرل بورڈ کی میٹنگ جاؤ ااروناچل پردیش میں کرو۔ میں پرائیوٹ لوگوں کو بتاؤ کا بھئی ٹھیک ہے یہ دہلی ، ممبئی میں بہت کرلیا ، ذرا جائیے تو صحیح میرا کتنا پیارا اروناچل پردیش ہے۔ ذرا اگتے سور ج کو وہاں جاکر دیکھئے ، میں لوگوں کو دھکہ لگاؤ ں گا اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا آنا جانا شرو ع ہوگا۔ آج کل ٹورزم کا ایک شعبہ ہوتا ہے کانفرنس ٹورزم ۔ ایسا انتظام اگر ہوتا ہے تو سب لوگوں کا آنا بڑا اچھا ہوتا ہے۔
ہم لوگوں نے بھی سرکار میں بھی ایک نیا عمل شروع کیا ہے۔ ہماری سرکار دہلی سے 70 سال تک چلی ہے اورلوگ دہلی کی طرف دیکھتے تھے ۔ ہم نے آکر سرکار کو ہندستان کے ہر کونے میں لے جانے کا بیڑا ااٹھایا۔ اب سرکار دہلی سے نہیں ، ہندستان کے ہر کونے کو لگنا چاہئے کہ سرکار وہ چلا رہے ہیں۔ ہم نے اپنا ایک ایگریکلچر ل سمٹ کیا تو سکم میں کیا۔ پورے ملک کے وزیروں کو بلایا ، ہم نے کہا ذرا دیکھو۔ ذرا سکم دیکھو، کیسے نامیاتی زراعت کا کام ہوا ہے۔ آنے والے دنوں میں شمال مشرق کی الگ الگ ، بھارت سرکار کے الگ الگ شعبوں کے وزیروں کی بڑی بڑی میٹنگ باری باری سے الگ الگ جگہوں پر ہوگی۔ نارتھ ایسٹ کونسل کی میٹنگ میں شاید مرارجی بھائی ڈیسائی ، آخری وزیراعظم آئے تھے۔ اس کے بعد کسی کو فرصت ہی نہیں ملی۔ بہت مصروف ہوتے ہیں نہ وزیراعظم ؟ ۔ لیکن میں آ پ کے لئےہی تو آیا ہوں، آپ کی وجہ سے آیا اور آپ کے لئے آیا ہوں۔
اس لئے نارتھ ایسٹ کونسل کی میٹنگ میں میں رہا، تفصیلی بات چیت کی ، اتنا ہی نہیں ، ہم نے دہلی سرکار میں سے وزیروں کو حکم دیا کہ باری باری سے ہر وزیر اپنے اسٹاف کو لے کر شمال مشرق کے الگ الگ ریاستوں میں جائیں گے ۔مہینے میں کوئی ہفتہ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ بھارت سرکار کا کوئی نہ کوئی وزیر شمال مشرق کی کسی نہ کسی ریاست کے کسی نہ کسی کونے میں گیا نہیں ہے اور پچھلے تین سال سے لگاتار چل رہا تھا۔
اتنا ہی نہیں ڈونر وزارت دہلی میں بیٹھ کر نارتھ ایسٹ کا بھلا کرنے میں لگا ہوا تھا۔ ہم نے کہا اچھا کیا، اب ایک اور کا م کرو پورا ڈونر وزارت ہر مہینے اس کا پورا سکریٹریٹ نارتھ ایسٹ میں آتا ہے۔ الگ الگ ریاستو ں میں جاتا ہے۔ وہاں روکتا ہے، اور ناتھ ایسٹ کی ترقی کے لئے سرکار، حکومت ہند نے کیا کرنا چاہئے مل بیٹھ کر بات چیت ہو۔
آج یہاں پر ایک میڈیکل کالج، میڈیکل اسپتال ، اس کے سنگ بنیاد کا مجھے موقع ملا ہے۔ ہمارے ملک میں ہیلتھ کیئر کے شعبے میں بہت کرنے کی ضرورت ہے ۔ایک ہوتا انسانی ترقی کی فلاح و بہبود، دوسرا ہوتا ہے انفراسٹرکچر، تیسرا ہوتا ہے موسٹ موڈرن ٹکنالوجی ایکووپمنٹس، ہم ان تینوں سمتوں میں ہیلتھ سیکٹر کو طاقت دینے کی سمت میں کام کررہے ہیں۔
ہمارا ایک خواب ہے کہ ہم ہندستان میں تین پارلیمانی اسمبلیوں کے درمیان کم سے کم ایک بڑا اسپتال اور ایک اچھے میڈیکل کالج بن جائیں۔ ہندستان میں اتنے بڑی تعداد میں میڈیکل کالج بنیں گے اور وہیں کا مقامی بچہ، اسٹوڈینٹ، اگر وہاں میڈیکل کالج میں پڑھتا ہے تو وہاں کی بیماریاں، قدرتی طور پر ہونے والی بیماریاں، اس کو اس کا اتا پتا ہوتا ہے۔
وہ دلی میں پڑھ کر آئے گا ، تو دوسرا سبجیکٹ پڑھے گا اور اروناچل کی بیماری کچھ اور ہوگی، لیکن اروناچل میں پڑھے گا، تو اس کو پتہ ہوگا کہ یہاں کے لوگوں کو معمول کے مطابق یہ چار پانچ قسم کی تکلیفیں ہوتی ہیں، اس کے سبب علاج میں ایک معیاری بہتری آتی ہے، کیونکہ انسانی وسائل کی ترقی میں مقامی ٹَچ ہوتا ہے اور اس لئے ہم طبی تعلیم کو دوردراز کے اندرونی علاقوں میں لے جانا چاہتے ہیں اور دوسرا جب وہیں پر وہ میڈیکل کالج میں پڑھ کر نکلتا ہے، تو بعد میں بھی وہ وہیں رہنا پسند کرتا ہے، ان لوگوں کی فکر کرنا پسند کرتا ہے اور اس کے سبب اس کی بھی روزی روٹی چلتی ہے اور لوگوں کو بھی صحت کی سہولتیں ملتی ہیں، تو مجھے خوشی ہے کہ آج اروناچل پردیش میں ویسے ہی ایک تعمیری کام کا افتتاح کرنے کا مجھے موقع ملا ہے، جس کا اس کیلئے آنے والے دنوں میں فائدہ ہوگا۔
ہندسرکار نے ہر گاؤں میں صحت کی سہولت اچھی ملے، اس کو دوردراز تک ، کیونکہ ہر کسی کو بڑی بیماری نہیں ہوتی ہے۔ عام بیماریوں کی طرف منفی سوچ، سہولت کے فقدان کے باعث چلو تھوڑے دن میں ٹھیک ہو جائیں گے، پھر ادھر اُدھر کی کوئی چیز لے کر چلالینا ، گاڑی پھر نکل جائے اور پھر بیمار ہونا اور سنگین بیمار ی ہونے تک اس کو پتہ ہی نہ چلے، اس حالت کو بدلنے کیلئے اس بجٹ میں حکومت ہند نے ہندوستان کی 22ہزار پنچایتوں میں، میں آنکڑا شاید کچھ میرا غلط ہو گیا ہے، ڈیڑھ لاکھ یا دو لاکھ جہاں پر ہم ویلنیس سینٹر کرنے والے ہیں، ویلنیس سینٹر تاکہ آس پاس کے دو تین گاؤں کے لوگ اس سینٹر کا فائدہ اٹھا سکیں اور اس سینٹر سے وہاں پر کم سے کم پیرا میٹر کی چیزیں، سہولیات، انتظامات، اسٹاف فراہم ہونا چاہئے، یہ بہت بڑا کام دیہی ہیلتھ سیکٹر کو اس بار بجٹ میں ہم اعلان کیا ہے۔ ویلنس سینٹر کا تقریباً ہندوستان کی سبھی پنچایت تک پہنچنے کی یہ ہماری کوشش ہے۔
اور آج میں 22ہزار کہہ رہا تھا، وہ کسانوں کیلئے، ہم جدید مارکیٹ کیلئے کام کرنے والے ہیں ملک میں تاکہ آس پاس کے بارہ، پندرہ –بیس گاؤں کے لوگ اس منڈی میں آکر کسان اپنا مال بیچ سکیں، تو ہر پنچایت میں ویلنس سینٹر اور ایک بلاک میں 2 ہا 3 قریب قریب 22 ہزار کسانوں کیلئے خرید ، بکری کے بڑے سینٹرس ، تو یہ دونوں طرف ہم کام دیہی سہولت کیلئے کر رہے ہیں۔
لیکن اس سے آگے ایک بڑا کام ہمارے ملک میں بیمار شخص کی فکر کرنےکیلئے ہم کئی قدم اٹھائے ہیں، زبردست قدم اٹھائے ہیں، ٹکروں میں نہیں، جیسے ایک طرف انسانی وسائل کی ترقی، دوسری طرف اسپتال بنانا، میڈیکل کالج بنانا، بنیادی ڈھانچہ کھڑا کرنا، تیسری طرف آج غریب کو اگر بیماری گھر میں آگئی، متوسط طبقے کا کنبہ ہو، بیٹی کی شادی کرانا طے کیا ہو، کار خریدنا طے کیا ہو، بس اگلی دیوالی میں کار لائیں گے طے کیا ہو اور اچانک پتہ چلے کہ گھر میں کسی کو بیماری آئی ہے، تو بیٹی کی شادی بھی رُک جاتی ہے۔ متوسط طبقے کا کنبہ کار لانے کا خواب بیچار ا چھوڑ کر کے سائکل پر آ جاتا ہے اور سب سے پہلے گھر کے شخص کی بیماری کی فکر کرتا ہے ۔ اب یہ حالت ، اتنی مہنگی دوائیاں، اتنے مہنگے آپریشن، متوسط طبقے کا انسان بھی ٹِک نہیں سکتا ہے۔
اِس سرکار نے خاص کر کے، کیونکہ غریبوں کیلئے کئی اسکیمیں ہیں، سودمند، لیکن متوسط طبقے کیلئے پریشانی ہو جاتی ہے۔ ہم نے پہلے اگر ہارٹ کی بیماری ہوتی ہے، اسٹنٹ لگانا ہوتا تھا، تو اس کی قیمت لاکھ، سوا لاکھ، ڈیڑھ لاکھ ہوتی تھی اور وہ بیچارا جاتا تھا، ڈاکٹر کو پوچھتا تھا کہ صاحٹ اسٹنٹ کا ، توڈاکٹر کہتا تھا یہ لگاؤ گے، توڈیڑھ، یہ لگاؤ گے تو ایک لاکھ، پھر وہ پوچھتا تھا، صاحب یہ دونوں میں کیا فرق ہے، تو وہ سمجھاتا تھا کہ ایک لاکھ والا تو پانچ سال ، سال تو نکال دے گا، لیکن ڈیڑھ لاکھ والے میں کوئی فکر نہیں زندگی بھر رہے گا۔ اب کون کہے گا کہ پانچ سال کیلئے جیوں، کہ زندگی پوری کروں، وہ ڈیڑھ لاکھ والا ہی کرے گا۔
ہم کہا بھئی اتنا خرچ کیسے ہوتا ہے، ہماری سرکار نے میٹنگ کی، بات چیت کی، ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور میرے پیارے ہم وطنو، میرے پیارے اروناچل کے بھائیو ، بہنو، ہم نے اسٹنٹ کی قیمت 70سے 80فیصد کم کر دی ہے، جو لاکھ-ڈیڑھ لاکھ میں تھی، وہ آج 15ہزار20ہزار، 25 ہزار میں آج اسی بیماری میں اس کا ضروری علاج ہوجاتا ہے۔
دوائیاں ہم نے قریب قریب 800دوائیاں، جو روزمرہ کی ضرورت ہوتی ہے، تین ہزار کے قریب اسپتالوں میں سرکار کی طرف سے جَن اوشدھی اسکیمیں شروع کی ہیں، پردھان منتری بھارتیہ جن اوشدھی یوجنا، پی ایم بی جے پی اب اس میں 800 کے قریب دوائیاں-پہلے جو دوائی 150روپے میں ملتی تھی، وہ دوائی، وہی کوالٹی صرف 15 روپے میں مل جائے، ایسا انتظام کرنے کا کام کیا ہے۔
اب ایک کام کیا ہے کہ غریب شخص اس کے باوجود بھی 10کروڑ کنبے ایسے ہیں کہ بیمار ہونے کے بعد نہ وہ دوائی لیتے ہیں، نہ ان کے پاس پیسہ ہوتا ہے اور اس ملک کا غریب اگر بیمار ہوگا، تو وہ روزی روٹی ہی نہیں کما سکتا ہے۔ پورا گھر بیمار ہو جاتا ہے اور پورے سماج کو ایک طرح سے بیماری لگ جاتی ہے۔ قومی زندگی کو بیماری لگ جاتی ہے۔ مالی صورتحال کو روکنے والی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس لئے سرکار نے ایک بہت بڑا کام اٹھایا ہے۔ ہم نے ایک آیوشمان بھارت اور اس اسکیم اور اس کے تحت غریبی کی سطح کے نیچے جینے والے، جو کنبے ہیں، اس کے کنبے میں کوئی بھی بیماری آئے گی، تو سرکار اس کا انشورنس نکالے گی اور 5 لاکھ روپے تک ایک سال میں پانچ لاکھ روپے تک ، اگر دوائی کا خرچ ہوا، تو وہ پیمنٹ اس کو انشورنس سے اس کو مل جائے گا۔ اس کو خود کو اسپتال میں ایک روپیہ نہیں دینا پڑے گا۔
اور اسکے سبب پرائیویٹ لوگ اب اسپتال بنانے کیلئے بھی آگے آئیں گے اور میں تو سبھی ریاستی سرکاروں سےا پیل کرتا ہوں کہ آپ اپنے یہاں صحت کے شعبے کی نئی پالیسی بنائیے، پرائیویٹ لوگ اسپتال بنانے کیلئے آگے آئیں، تو ان کو زمین کیسے دیں گے، کس طرح سے کریں گے، کیسی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کریں، ان کو ہمت کرائیے اور ہر ریاست میں 50-50، 100-100نئے اسپتال آجائیں، اس سمت میں بڑے بڑے صوبے کام کر سکتے ہیں۔
اور ملک میں میڈیکل سیکٹر ، تو ایک بہت بڑا انقلاب لانے کی امید اس آیوشمان بھارت اسکیم کے اندر ہے، اور اس کے سبب سرکاری اسپتال بھی تیز چلیں گے، پرائیویٹ اسپتال بھی آئیں گے اور غریب سے غریب آدمی کو پانچ ہزار روپے تک بیماری کی حالت میں ہر سال کنبے کا کوئی بھی ممبر بیمار ہو جائے، آپریشن کرنے کی ضرورت پڑے، اس کی فکر ہوگی، تو یہ آج ہند سرکار نے بڑے مشن موڈ میں اٹھایا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کا فائدہ ملے گا۔
بھائیو بہنو آج میں آپ کے بیچ میں آیا ہوں، تین پروگرام کی تو آپ کو اطلاع تھی، لیکن ایک چوتھی سوغات بھی لے کر کے آیا ہوں بتاؤں اور یہ چوتھی سوغات ہے، نئی دلی سےنہارلاگون ایکسپریس اب ہفتے میں دو دن چلے گی اور اس کا نام اروناچل ایکسپریس ہوگا۔
آپ ابھی ہمارے وزیراعلیٰ جی بات کر رہے تھے کہ کنیکٹی ویٹی چاہے ڈیجیٹل کنیکٹی ویٹی ہو ، چاہے ایئر کنیکٹی ویٹی ہو، چاہے ریل کنیکٹی ویٹی ہو، چاہے روڈ کنیکٹی ویٹی ہو، ہمارے نارتھ ایسٹ کے لوگ اتنے طاقتور ہیں، اتنے صلاحیت والے ہیں، اتنے طاقتور ہیں، اتنے تیجسوی ہیں، اگر یہ رابطہ مل جائے، ناتوپورا ہندوستان ان کے یہاں آ کر کے کھڑا ہو جائے گا، اتنی امید ہے۔
اور اس لئے جیسے ابھی ہمارے منتری جی، ہمارے نتن گڈکری جی کی بھر پور تعریف کر رہے تھے، 18ہزار کروڑروپے کے الگ الگ پروجیکٹ ان دنوں اکیلے اروناچل پردیش میں چل رہے ہیں۔ 18ہزار کروڑروپے کے بھارت سرکار کے پروجیکٹ چل رہے ہیں، چاہے روڈ کوچوڑا کرنا ہو، چار لائن کرنا ہو، چاہے گاؤں سڑک بنانا ہو، چاہے قومی شاہراہ بنانا ہو، ایک بڑا مشن موڈ میں آج ہم نے قدم اٹھایا ہے، ڈیجیٹل کنیکٹی ویٹی کیلئے۔
اور میں وزیراعلیٰ کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں ، کچھ چیزیں انہوں نے ایسی کی ہیں، جو شاید یہ اروناچل پردیش، دلی کے پاس میں ہوتا نا ، تو روز پیماکھانڈو ٹی وی پر دکھائی دیتے، سب اخباروں میں پیماکھانڈو کو فوٹو دکھائی دیتا، لیکن اتنے دور ہیں کہ لوگوں کا دھیان نہیں جاتا۔ انہوں نے 2027 ، دس سال کے اندر اندر اروناچل کہاں پہنچنا چاہئے، کیسے پہنچنا چاہئے، اس کیلئے صرف سرکار کی حد میں نہیں، انہوں نے تجربے کار لوگوں کو بلایا،ملک بھر سےلوگوں کو بلایا، پرانے جانکار لوگوں کو بلایا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر صلاح و مشورہ کیا اور ایک بلیو پرنٹ بنایا کہ اب اسی راستے پر جانا ہے اور 2027 تک ہم اروناچل پردیش کو یہاں لے کر کے جائیں گے۔ اچھی حکمرانی کیلئے یہ بہت بڑا کام وزیراعلیٰ جی نے کیا ہے اور میں ان کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور مبارکباد دیتاہوں، ان کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
دوسرا بھارت سرکار بدعنوانی کیخلاف لڑائی لڑ رہی ہے اور مجھے خوشی ہے کہ پیماکھانڈو جی کی طرف سے مجھے اس کام میں بھرپور تعاؤن مل رہا ہے، شفافیت، جوابدہی اس ملک میں ، وسائل کی کمی نہیں ہے، اس ملک میں پیسوں کی کمی نہیں ہے، لیکن جس بالٹی میں پانی ڈالو، لیکن بالٹی کے نیچے چھیدہو، تو بالٹی بھرے گی کیا، ہمارے ملک میں پہلے ایسا ہی چلا ہے، پہلے ایسا ہی چلا ہے۔
ہم نے آدھار کارڈ کا استعمال کرنا شروع کیا، فائدے کی براہ راست منتقلی کا کام کیا، آپ حیران ہوں گے، ہمارے ملک میں بیواؤں کی، جو فہرست تھی، نا، بیواؤں کی، جن کو ہند سرکار کی طرف سے ہر مہینے کوئی نا کوئی پیسہ ملتا تھا، پنشن جاتی تھی، ایسے ایسے لوگوں کے اس میں نام تھے کہ جو بچی کبھی اس سرزمین پر پیدا ہی نہیں ہوئی، لیکن سرکاری دفتر میں وہ بیوہ ہو گئی تھی اور اس کے نام سے پیسے جاتے تھے، اب بتائیے وہ پیسے کہاں جاتے ہوں گے، کوئی تو ہوگا نا۔
اب ہم نے فائدے کی براہ راست منتقلی کر کے سب بند کر دیا اور ملک کا قریب قریب ایسی اسکیموں میں، قریب قریب 57 ہزار کروڑروپے بچا ہے۔ بتائیے 57ہزار کروڑروپے۔ اب یہ پہلے کسی کی جیب میں جاتا تھا، اب ملک کی ترقی کے کام آر ہا ہے۔ اروناچل ترقی کے کام آ رہا ہے۔ ایسے کئی قدم اٹھائے ہیں، ایسے کئی قدم اٹھائے ہیں۔
اور اس لئے بھائیو بہنو میرا جو خیر مقدم کیا گیا، مجھے بھی آپ نے ، اروناچلی بنا دیا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ ہندوستان کو روشنی جہاں سے ملنے کی شروعات ہوتی ہے ، وہیں ترقی کا سورج طلوع ہو رہا ہے، جو ترقی کا سورج طلوع پورے ملک کو ترقی کی روشنی سے جگمگا دے گا، اس لئے یقین کے ساتھ میں آپ سب کو بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں، ۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ کرتا ہے ہوں۔
میرے ساتھ بولیئے جے ہند!
اروناچل کا جے ہند، توپورے ہندوستان کو سنائی دیتا ہے۔
جے ہند-جے ہند
جے ہند-جے ہند
جے ہند-جے ہند
جے ہند-جے ہند
بہت بہت شکریہ!