نئی دہلی،؍جون ، ایتھلیٹکس کے اوشا اسکول کے سنتھیٹک ٹریک کے افتتاح کے موقع پر تمام کھیل کود شائقین کو مبارکباد۔
یہ ٹریک اوشا اسکول کی ترقی میں ایک اہم سنگِ میل ہے اور زیر تربیت افراد کو جدید سہولتیں فراہم کرےگا۔ میں اس موقع پر اپنے پایولی ایکسپریس کی ، بھارت کی ‘اُڑن پری’ اور ‘گولڈن گرل’پی ٹی اوشا جی کے تعاون کا ذکر کرنا چاہوں گا، جو انہوں نے اس اسکول کی ترقی میں دیا ہے۔
پی ٹی اوشا بھارت میں کھیل کود کی دنیا میں ایک روشن منارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں متعدد چنوتیوں کا سامنا کیا ہے اور سب چنوتیوں کو پار کرتی ہوئی اولمپک کے فائنل تک پہنچیں اور تمغے کے حصول سے بہت معمولی فرق سے محروم رہیں۔
بھارتی ایتھلیٹکس کی تاریخ میں ان کے جیسا ٹریک ریکارڈ بہت کم کھلاڑیوں کا رہا۔
اوشا جی ملک کو آپ پر فخر ہے۔ اس سے بھی بہتر بات یہ ہے کہ اوشا جی نے کھیل کود کےساتھ اپنی وابستگی برقرار رکھی ہے۔ ان کی ذاتی توجہ اور لگاتار کوششوں کے نتیجے میں نئے اور اچھے نتائج سامنے آنے لگے ہیں اور اب ان کے زیرتربیت شخصیات مثلاً مِس ٹِنٹو لوکا اور مِس جِسنا میتھیو پہلے ہی بین الاقوامی سطح پر اپنی جگہ بنا چکی ہیں۔
اوشا جی کی طرح ، اوشا اسکول بھی سادے اور محدود وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ہر دستیاب موقع پر بہترین فائدہ اٹھا رہا ہے۔
میں اس موقع پر بھارت کی کھیل کود اور نوجوانوں کی امور کی وزارت اور سی پی ڈبلیو ڈی کو بھی مبارکباد پیش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے ایک ایسا پروجیکٹ مکمل کیا ہے، جس کے راستے میں بہت ساری رکاوٹیں تھیں، جس کے نتیجے میں اتنی تاخیر ہوئی۔
تاہم یہاں یہی کہا جا سکتا ہے کہ دیر آید درست آید۔ ہماری حکومت کی اعلیٰ ترجیحات میں سے ایک ترجیح یہ بھی ہے کہ طے شدہ مدت کے اندر تمام پروجیکٹوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
دراصل یہ پروجیکٹ 2011 میں منظور ہوا تھا۔ تاہم سنتھیٹک ٹریک بچھانے کیلئے ورک آرڈر 2015 میں دیا گیا۔ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ٹریک پوری طرح پی یو آر ٹریک ہے۔
اسے اس طرح وضع کیاگیا ہے کہ کھلاڑیوں کو اگر کوئی چوٹ لگتی ہے، تو وہ کم سے کم لگے اور اس ٹریک کو بین الاقوامی معیارات کی کسوٹی پر ، پرکھا جا سکتا ہے۔
کھیل کود ایک معاشرے کے انسانی وسائل کی ترقیات سے قریبی طورپر وابستہ ہوتا ہے۔
میں ہمیشہ اس نظریئے کا قائل رہا ہوں کہ جسم کو تندرست رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیل کود شخصیت کو بھی نکھارتا ہے اور مجموعی ترقی کو ممکن بنا تاہے۔ یہ ایک شخص کےاندر نظم و ضبط پیدا کرتا ہے اور جاں فشانی کا جذبہ جگاتا ہے۔
کھیل کود زندگی کے لئے سبق بھی دیتا ہےاور ہماری فکر کو بھی مہمیز کرتا ہے۔ کھیل کود کا میدان ایک عظیم درس گاہ ہوتی ہے۔ کھیل کود کے میدان میں سب سے عمدہ سیکھ یہ ملتی ہے کہ شکست اور فتح دونوں کو زندگی کا لازمی جز سمجھ کر قبول کیا جائے۔
فتحیاب ہونےپربھی ہمیں انکساری کےساتھ پیش آنا ہوتا ہےا ور ساتھ ہی ساتھ شکست کا سامنا ہونےپر بھی ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا ہوتا ہے۔ شکست ، خاتمے کا دوسرا نام نہیں، بلکہ درحقیقت یہ ایک دوبارہ اٹھ کھڑے ہونےاور درکار نتائج کو حاصل کرنے کے آغاز کا نام ہوتا ہے۔
کھیل کود جذبہ باہم کو فروغ دیتا ہے۔یہ اندازِ فکر میں کھلا پن لاتاہے اور ہمیں دوسروں کی صلاحیتوں کو بھی تسلیم کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ بات لازمی ہے کہ ہم کھیل کود کو اپنے ملک میں نوجوانوں کی زندگی کے ایک جز کےطورپر تسلیم کریں۔
میرے لئے کھیل کود درج ذیل خواص پر مشتمل ہوتےہیں:
میں کھیل کود کی اصطلاح کے جو معنی سمجھتا ہوں، اسے میں آپ کے سامنے بیان کرنا چاہوں گا۔ ایس برائے اِسکل یعنی ہنرمندی۔
پی برائے تحمل
او برائےرجائیت
آر برائے لچک
ٹی برائے پائیداری
ایس برائے اسٹیمنا یا قوت
کھیل کود، کھیل کود کا ایک جذبہ بھی پیدا کرتا ہے، جو کھیل کے میدان کے اندر اور کھیل کے میدان کے باہر دونوں جگہ اہمیت رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میں اکثر کہتا ہوں، جو کھیلے وہ کھلے یعنی جو کھیلتے ہیں، وہی چمکتے ہیں۔
اس باہمی طور پر منحصر اور مربوط دنیا میں ملک کا سافٹ پاور بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ملک کی معیشت اور فوجی قوت ، ایک ملک کا سافٹ پاور اس کی مرکزی شناخت بھی ہوتا ہے۔ کھیل کود سافٹ پاور کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔
مختلف طرح کے کھیل کود اور کھلاڑیوں کو عالمی پیمانےپر کافی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی ہے اور اس کے ذریعے سے کوئی بھی ملک کھیل کود کے توسط سے مطلع عالم پراپنا ایک مخصوص مقام بنا سکتاہے۔
کسی بھی کھیل کود میں کامیاب ہونےوالے افراد ترغیب کیلئے عالمی وسیلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نوجوان ان کی کامیابی اور ان کی جدو جہد سے ترغیب حاصل کرتے ہیں۔ ہر ایک بڑے بین الاقوامی مقابلے میں خواہ وہ اولمپک کا مقابلہ ہو یا ورلڈ کپ یا ایسا ہی کوئی دیگر فورم، پوری دنیا دیگر ممالک کی کامیابیوں کا جشن مناتی ہےخواہ وہ کتنا ہی چھوٹا یا بڑا کیوں نہ ہو۔
کھیل کود میں متحد کرنے کی یہ قوت مضمر ہے۔کھیل کود اور ثقافت تغیراتی مضمرات کے حامل ہوتے ہیں اور عوام سے عوام کے مابین گہرے روابط اور تعلقات استوار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت میں اندرون ملک ہی ایک واحد کھلاڑی پورے ملک میں مقبول ہو جاتا ہے، اس کی کارکردگی، خواہ وہ عورت ہو یا مرد ایک متحد کرنےوالی قوت کا کام کرتی ہے۔ ہر شخص اس کے لئے دعا کرتا ہےے، جب وہ مرد یا عورت کھیل کے میدان میں اترتاہے۔
ان کھلاڑیوں کی مقبولیت ان کے بعد بھی برقرار رہتی ہے۔ برسوں سے کھیل کود جیسے کہ علم کی جستجو کی جاتی ہے، یہ بھارتی ثقافت اور روایت کا حصہ رہا ہے۔
کھیل کود کی سرگرمیاں مثلاً تیر اندازی، تلواربازی، کشتی، مالکھمب، کشتیوں کی دوڑ کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔
کیرالا میں کھیل کود مثلا کُٹیوم کولم، کلاری، کافی مقبول رہے ہیں۔
مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ کیچڑ میں کھیلا جانے والا فٹبال کس قدر مقبول ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ میں سے بہت سارے افراد سگول کنگ جیئ کے بارے میں جانتے ہوں گے، جو اصلاً منی پور سے متعلق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کھیل پولو سے بھی قدیم ہےاور معاشرے کے مختلف طبقات میں مقبول رہا ہے۔
ہمیں اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارے روایتی کھیل کود اپنی مقبولیت سے محروم نہ ہو جائیں۔ دیسی کھیلوں کو بھی فروغ دینا چاہئے ، کیونکہ یہ ہمارے اپنے انداز حیات کی دین ہیں۔
عوام ان کھیلوں کو فطری طورپر اپناتے ہیں اور انہیں کھیلے جانےسے نشو و نماکے مراحل سے گزررہے اذہان کی شخصیت پر زبردست مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کی جڑیں مضبوط ہوتی جائیں گی۔ آج دنیا یوگا میں از سرنو دلچسپی لے رہی ہے۔ یوگا کو فٹنس اور چاق و چوبند رہنے کے ایک ذریعے کےطورپر دیکھا جا رہا ہے۔اسے تناؤ کم کرنے کا ذریعہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ایتھلیٹس کو بھی یوگا کو اپنے روز مرہ کی تربیت میں شامل کرنا چاہئے۔ اس کے غیر معمولی نتائج ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔
چونکہ یہ یوگا کا گھر ہے، لہذا ہماری اضافی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم یوگا کو پوری دنیا میں زیادہ سے زیادہ مقبول بنائیں اور جیسا کہ یوگا مقبول عام ہوا ہے، ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہم اپنے روایتی کھیل کود کو عالمی پیمانےپر کس طریقے سے مقبول عام بنا سکتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ کس طرح سے کبڈی جیسے کھیل پہلے بین الاقوامی مقابلوں کا حصہ بنے اور اب ملک کے اندر بڑے پیمانےپر کبڈی مقابلوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ کارپوریٹ گھرانے ان ٹورنامنٹوں کو اسپانسر کر رہے ہیں اور مجھے بتاگیا ہے کہ ان ٹورنامنٹس کو بڑی تعداد میں لوگ دیکھ رہے ہیں۔
کبڈی کی طرح ہی ہمیں دیگر مقامی کھیل کود کو ملک کے مختلف گوشوں سے تلاش کر کے قومی سطح پر لانا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ ساتھ کھیل کود سے وابستہ دیگر انجمینیں اور سوسائٹیوں کو بھی ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔
ہمارا ملک مالامال اور گوناگوں ثقافت کا حامل ہے اور اس میں تقریباً 100زبانیں اور 16سوسے زائد بولیاں رائج ہیں۔ کھانے پینے کے مختلف عادات ، مختلف لباس اور تیوہار وغیرہ منائے جانے کا چلن ہے۔ کھیل کود ہمیں متحد کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
لگاتار رابطہ، مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے سفر، میچوں کا اہتمام، تربیت وغیرہ ہمیں اپنے ملک کے دیگر خطوں کی ثقافت کو سمجھنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔
اس سے ایک بھارت-سریشٹھ بھارت کے احساس کو تقویت ملتی ہے اور قومی یکجہتی کو زبردست تعاون ملتا ہے۔
ہمارے یہاں ہونہار لوگوں کی کمی نہیں ہے ۔ تاہم ہمیں صحیح طرح کے مواقع فراہم کرنے ہیں اور ایک ایسے معیشت حیوانات کا نظام قائم کرنا ہے، جو صلاحیتوں کو فروغ دے سکے۔ ہم ‘کھیلو انڈ’یا نام کا ایک پروگرام شروع کیا ہے۔اس پروگرام کے تحت اسکول اورکالج اور قومی سطح پر مختلف کھیلوں میں مقابلوں کا اہتمام کیاجائےگا۔ توجہ اس بات پر مرکوز کی جائےگی کہ باصلاحیت افراد کی شناخت کی جا سکےاور ان کی صلاحیت کو تعاون دے کر جلا بخشی جا سکے۔
کھیلو انڈیا، کھیل کود کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تعاون دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں خواتین نے ہر شعبے میں کامیابیاں حاصل کرکے ہمارا سر فخر سے بلند کیا ہےا ور کھیل کود میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
ہمیں اپنے بیٹیوں کو بطور خاص حوصلہ دینا چاہئے اور انہیں موقع فراہم کرنا چاہئے کہ وہ کھیل کود میں باقاعدہ طورسے شریک ہو سکیں۔ اس سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ پیرالمپکس میں ہمارے کھلاڑیوں نے اب تک کی اپنی بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
کھیل کود اور حصولیابیوں سے اوپر اٹھ کر ، پیرالمپکس اور ہمارے ایتھلیٹس کی کارکردگی نے ہمارے دویانگ بھائیو اور بہنوں کے تئیں ، ہمارے رجحانات کو بدل دیا ہے۔ دیپا ملک نے ، جب انہیں تمغہ سے نوازا گیاتھا، جو کچھ کہاتھا، میں اسے کبھی نہیں بھول سکتا۔
انہوں نے کہا تھا‘‘اس تمغے کے ذریعے میں نے خودمعذوری کو شکست دی ہے ’’ اس جملے میں زبردست قوت پوشیدہ ہے۔ ہمیں کھیل کود کیلئے ایک عوامی بنیاد فراہم کرنے کیلئے لگاتار کام کرنا ہے۔
اب سے قبل کی دہائیوں میں کھیل کود کے شعبے میں حاصل کی گئی کامیابی کو بطور کریئر نہیں اپنایا جا سکتا تھا، اب یہ نظریہ بدلنے لگا ہے۔ جلد ہی اس کے نتائج کھیل کے میدان میں نظر آئیں گے۔ ایک مضبوط کھیل کود کا ماحول کھیل کود کی معیشت کے فروغ میں بھی معاون ہو سکتا ہے۔ کھیل کود بطور کُل وقتی ایکو نظام بڑے پیمانےپرہماری معیشت کو فروغ دے سکتاہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع بھی پیدا کرسکتا ہے۔ کھیل کود کی صنعت کا شعبہ مختلف عناصر، مثلاً پیشہ ورانہ لیگ ، کھیل کود کے سازوسامان اور سرفیسز، کھیل کود سائنس، میڈیسن، معاون عملے، لباس ، تغذیہ، ہنرمندی ترقیات، کھیل کود انتظام وغیرہ کے سلسلے میں مختلف مواقع فراہم کرنے کے معاملے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
کھیل کود اربوں ڈالر کی عالمی صنعت ہے، جو بڑے پیمانےپر صارفین کے مطالبات پر چلتی ہے۔عالمی کھیل کود صنعت کا تخمینہ 600؍ارب امریکی ڈالر کے بقدر کا لگایا گیا ہے۔ بھارت میں مجموعی کھیل کود شعبے کا تخمینہ محض دو ارب امریکی ڈالر کے بقدر ہے۔
تاہم بھارت میں کھیل کود کے معاملے میں زبردست مضمرات موجود ہیں۔ بھارت ایک کھیل کود کا شائق ملک رہا ہے، جس جوش و جذبے کے ساتھ میرے نوجوان دوست جاری کرکٹ چمپئنس شپ ٹرافی کے مقابلے کو دیکھتے ہیں، اسی جوش و جذبے سےوہ ای پی ایل فٹبال یا این بی اے باسکٹ بال، فکسچروں اور ایف آئی ریسز کو بھی دیکھتے ہیں۔
اور جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہے ہوں کہ یہ لوگ کبڈی جیسے کھیلوں کی طرف بھی راغب ہو رہے ہیں۔ ہمارے کھیل کود کے میدان اور اسٹیڈیم ایسے ہونے چاہئے کہ ان کا زیادہ سے زیادہ استعمال ممکن ہو سکے۔ چھٹیوں کے دوران بھی ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ باہر جا کر کھیل کو دکو اپنایا جا سکے۔ اسکولوں اور کالجوں کے گراؤنڈ اور ضلع میں واقع اسٹیڈیم کی جدید ترین سہولتوں کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔
اس سے قبل کہ میں اپنی بات ختم کروں، کھیل کود کے میدان میں کیرالا کے تعاون کی تعریف کرناضروری ہے۔ میں ہر اُس کھلاڑی کو مبارکباد دیتا ہوں، جس نے بھارت کیلئے کھیلا ہے۔ میں ان کھلاڑیوں کے جوش و جذبے اور پکے ارادے کو سلام کرتاہوں ، جنہوں عمدگی کے حصول کیلئے محنت کی ہے۔
میں اوشا اسکول کے تابناک مستقبل کی تمنا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ نیا سنتھیٹک ٹریک اسے نئی بلندیوں تک لے جائےگا اور مجھے یہ بھی امید ہے کہ بین الاقوامی کھیل کود کے مقابلوں کیلئے تیاری میں مددگار ہوگا، جس میں 2020میں ٹوکیومیں منعقد ہونے والا اولمپکس بھی شامل ہے۔
میں کھیل کود برداری سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ کھیل کود کے میدان میں اپنا ایک نصب العین مقرر کریں اور جب ملک 2022 میں آزادی کے 75 برس مکمل کرے، تو وہ ان تمام نصب العینوں کو حاصل کرنے کیلئے عہد بھی کریں۔
مجھے پورا یقین ہے کہ اوشا اسکول اولمپکس اور دیگر عالمی مقابلوں میں ٹریک اور فیلڈ مقابلوں کیلئے اور زیادہ تعداد میں چمپئنس نکالےگا۔حکومت ہند پوری طرح سے آ پ کو تعاون دے گی اور ایتھلیٹکس میں عمدگی کے حصول کےلئے ہر ممکن امداد فراہم کرےگی۔