نئی دہلی۔؛ میرے پیارے ہم وطنوں، آپ سب کو نمسکار، آکاشوانی کے ذریعے ’من کی بات‘ کرتے کرتے تین سال پورے ہو گئے ہیں۔ آج یہ 36واں ایپی سوڈ ہے۔ من کی بات ایک طرح سے ہندوستان کی جو مثبت قوت ہے، ملک کے کونے کونے میں جو جذبات بے پڑے ہیں، خواہشات ہیں، امید ہیں، کہیں کہیں شکایات بھی ہیں۔ اک جن من میں جو جذبات امڑتے رہتے ہیں، من کی بات نے ان سب جذبات سے مجھے جڑنے کا ایک بہت اچھا موقع دیا اور میں نے کبھی یہ نہیں کہا ہے کہ میرے من کی بات ہے۔ یہ من کی بات ہم وطنوں کے من سے جڑی ہیں، ان کے جذبات سے جڑی ہیں، ان کی امیدوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ اور جب من کی بات میں باتیں میں بتاتا ہوں تو اسے ملک کے ہر کونے سے جو لوگ مجھے اپنی باتیں بھیجتے ہیں، آپ کو تو شاید میں بہت کم کہہ پاتا ہوں لیکن مجھے تو بھرپور خزانہ مل جاتا ہے۔ چاہے ای میل پر ہو، ٹیلی فون پر ہو، مائی گوو پر ہو، نریندر مودی ایپ پر ہو، اتنی باتیں مجھے تک پہنچتی ہیں۔ زیادہ تر تو مجھے ترغیب دینے والی ہوتی ہیں۔ بہت ساری ، حکومت میں اصلاحات کے لیے ہوتی ہیں۔ کہیں ذاتی شکایت بھی ہوتی ہیں تو کہیں مجموعی مسائل پر توجہ مرکوز کرایا جاتا ہے۔ اور میں مہینے میں ایک بار نصف گھنٹہ آپ کا لیتا ہوں، لیکن لوگ، تیسوں دن من کی بات کے اوپر اپنی باتیں پہنچاتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ حکومت میں بھی حساسیت، سماج کے دور دراز کیسی کیسی قوتیں پڑی ہیں، اس پر اس کی توجہ جانا، یہ تجربہ ہو رہا ہے۔ اور اس لیے من کی بات کے تین سال کا یہ سفر ہم وطنوں کا، جذبات کا، احساس کا ایک سفر ہے۔ اور شاید اتنے کم وقت میں ملک کے عام انسان کے جذبوں کو جاننے سمجھنے کا جو مجھے موقع ملا ہے اور اس کے لیے میں ہم وطنوں کا بہت شکرگزار ہوں۔ من کی بات میں میں نے ہمیشہ آچاریہ ونوبا بھاوے کی اس بات کو یاد رکھا ہے۔ آچاریہ ونوبا بھاوے ہمیشہ کرتے تھے ا- سرکاری، اثرکاری۔ میں نے بھی من کی بات کو اس ملک کے لوگوں کو مرکز میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ سیاست کے رنگ سے اس کو دور رکھا ہے۔ حالیہ، جو گرمی ہوتی ہے، غصہ ہوتا ہے، اس میں بھی بہہ جانے کے بجائے ، ایک سکون من سے ، آپ کے ساتھ جڑے رہنے کی کوشش کی ہے۔ میں ضرور مانتا ہوں، اب تین سال بعد سوشل سائنٹسٹ، یونیورسٹیز، ریسرچ اشکالر ، میڈیا ایکسپرٹ ضرور اس کا تجزیہ کریں گے۔ پلس – مائنس ہر چیز کو باہر لائیں گے۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ گفت و شنید مستقبل من کی بات کے لیے بھی زیادہ سود مند ہوگا، اس میں ایک نئی قوت اور توانائی ملے گی۔ اور میں نے جب ایک بات من کی بات میں کہی تھی کہ ہمیں کھانہ کھاتے وقت فکر کرنی چاہیے کہ جتنی ضرورت ہے اتنا ہی لیں، ہم اس کو برباد نہ کریں۔ لیکن اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ملک کے ہر کونے سے مجھے اتنے خط آئے، مختلف عوامی تنظیم، مختلف نوجوان پہلے سے ہی اس کام کو کر رہے ہیں۔ جو کھانہ تھالی میں چھوڑ دیا جاتا ہے اس کو جمع کر کے ، اس کا صحیح استعمال کیسے ہو اس میں کام کرنے والے اتنے لوگ میرے اتنے ذہن میں آئے، میرے من کو اتنا بڑا سکون نہوا، اتنی خوشی ہوئی۔
ایک بار میں من کی بات میں مہاراشٹر کے ایک ریٹائرڈ ٹیچر جناب چند کانت کلکرنی کی بات کہی تھی، جو اپنے پنشن میں سے سولہ ہزار روپئے کا پنشن ملتا تھا روپیوں کا پنشن ملتا تھ اس میں پانچ ہزار روپیہ وہ ، 51 پوسٹ ڈیٹڈ چیک دے کر کے، صفائی کے لیے انہوں نے تعاون دے دیا تھا۔ اور اس کے بعد تو میں نے دیکھا کہ صفائی کے لیے، اس طرح کے کام کرنے کے لیے کتنے لوگ آگے آئے۔
ایک بار میں نے ہریانہ کے ایک سرپنچ کی سیلفی ود ڈاؤٹر کو دیکھا اور میں نے من کی بات میں سب کے سامنے رکھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف ہندوستان میں ، پورے ملک میں سیلفی ود ڈاؤٹر ایک بڑی مہم چل پڑی۔ یہ صرف سوشل میڈیا کا مدعا نہیں ہے۔ ہر بیٹی کو ایک نیا خود اعتما د، نیا فخر پیدا کرنے والا یہ واقعہ بن گیا۔ ہر ماں باپ کو لگنے لگا کہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ سیلفی لوں۔ ہر بیٹی کو لگنے لگا کہ میرا کوئی مہاتمیہ ہے ، میری کوئی حیثیت ہے۔
گذشتہ دنوں میں ہندوستانی حکومت کے وزارت سیاحت کے ساتھ بیٹھا تھا۔ میں نے جب سیاحت پر جانے والے لوگوں سے کہا تھا کہ آپ انکریڈیبل انڈیا پر، جہاں جہاں بھی جائیں، وہاں کی ایک فوٹو بھیجیے۔ لاکھوں تصویریں، بھارت کے ہر کونے کی، ایک طرح سے سیاحت کے شعبے میں کام کرنے والوں کی ایک بہت بڑی امانت بن گئی۔ چھوٹا سا واقعہ کتنی بڑی تحریک کھڑا کر دیتا ہے، یہ من کی بات میں میں نے محسوس کیا ہے۔ آج دل میں آیا، کیونکہ جب سوچ رہا تھا تین سال ہو گئے، تو گذشتہ تین سال کے کئی واقعات میرے من مین چھا گئے۔ ملک صحیح سمت میں جانے کے لیے ہر وقت آگے ہے۔ ملک کا ہر شہری دوسرے کی بھلائی کے لیے سماج کی اچھائی کے لیے ملک کی ترقی کے لیے ، کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے یہ میرے تین سال کے من کی بات کی مہم میں، میں نے ہم وطنوں سے جانا ہے، سمجھا ہے، سیکھا ہے، کسی بھی ملک کے لیے یہ سب سے بڑی پونجی ہوتی ہے ، ایک بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ میں دل سے ہم وطنوں کو دل سے نمن کرتا ہوں۔
میں نے ایک بار من کی بات میں کھادی کے بارے میں چرچا کیا تھا۔ کھادی ایک لباس نہیں بلکہ ایک سوچ ہے۔ اور میں نے دیکھا کہ ان دنوں کھادی کے تئیں کافی دلچسپی بڑھی ہے۔ میں نے کہا تھا کہ میں کوئی کھادی دھاری بننے کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں لیکن طرح طرح کے کپڑے ہوتے ہیں تو ایک کھادی کا کپڑا کیوں نہ ہو؟ گھر میں چادر ہو ، رومال ہو، پردہ ہو۔ تجربہ یہ آیا ہے کہ نوجوان نسل میں کھادی کے تئیں کشش میں اضافہ ہوا ہے۔ کھادی کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کے باعث غریب کے گھر میں سیدھا روزگار جڑ گیا ہے۔ دو اکتوبر سے کھادی کپڑے میں چھوٹ دی جاتی ہے، بہت کچھ رعایت پر ملتی ہے، میں ایک بار پھر درخواست کروں گا ، کھادی کی جو مہم چلی ہے اس کو ہم مزید آگے بڑھائیں۔ کھادی خرید کر کے غریب کے گھر میں دیوالی کا دیا جلائیں، اس جذبے کو لے کر ہم کام کریں ۔ ہمارے دیش کے غریب کو اس کام سے ایک طاقت ملے گی اور ہمیں کرنا چاہیے اور اس خرید کے تئیں دلچسپی بڑھنے کے باعث کھادی کے شعبے میں کام کرنے والوں میں، پیداوار میں اضافہ کیسے ہو، شمسی ہتھ کرگھا کیسے لے آئیں، یہ رجحان بڑھا ہے۔ پرانی جو وراثت تھی جو بالکل ہی بیس ، پچیس، تیس سال سے بند پڑی تھی اس کو دوبارہ زندی کیا جائے ۔
اتر پردیش کے وارانسی سیواپور میں ، سیوا پوری کا کھادی آشرم 25 سال سے بند پڑا تھا۔ لیکن آج اسے پھر شروع کیا گیا ہے۔ کئی طرح کے رجحان کو جوڑا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو روزگار کے مواقعے دیئے گئے۔ کشمیر کے پمپور میں کھادی اور گرام ادیوگ نے بند پڑے تبیتی مرکز کو پھر سے شروع کیا اور کشمیر کے پاس تو اس شعبے میں دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اب یہ تربیتی مرکز پھر سے شروع ہونے کے باعث نئی نسل کو جدید طریقے سے تعمیر کے کام کرنے میں مدد ملے گی۔ اور مجھے اچھا لگ رہا ہے کہ جب بڑے بڑے کارپوریٹ ہاؤس بھی دیوالی میں جب گفٹ دیتے ہیں تو ان دنوں کھادی کی چیزیں دینا شروع کیے ہیں۔ لوگ بھی ایک دوسرے کو تحفہ میں کھادی کی چیزیں دینا شروع کیا ہے۔ ایک آسان چیز کیسے آگے بڑھتی ہے اس کا ہم تجربہ کر رہے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، گزشتہ ماہ ‘من کی بات’ میں ہی ہم سب نے ایک عہدکیا تھا اور ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ گاندھی-جینتی سے پہلے 15 دن ملک بھر میں حفظان صحت کا جشن منائیں گے۔ لوگوں کے ذہن میں صفائی شامل کریں۔ ہمارے معزز صدر نے یہ کام شروع کیا اور ملک اس میں شامل ہے۔ ہر ایک ، اس حفظان صحت کی مہم کا حصہ بن گیا ہے، آج کل، مردوں، عورتوں، شہروں، یا گاؤں۔ اور جب میں کہتا ہوں ‘عہد سے کامیابی’، یہ حفظان صحت-مہم ایک عہد-کامیابی کی جانب کس طرح آگے بڑھ رہا ہے ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ ہر کوئی اسے قبول کرتا ہے، اس کی مدد کرتا ہے، اور احساس میں کوئی حصہ نہیں دیتا۔ میں معزز صدر کا شکر گزار ہوں، لیکن ایک ہی وقت میں سوسائٹی کے ہر حصے نے اسے اپنا کام سمجھا۔ ہر کوئی اس میں شامل ہو گیا ہے۔ چاہے کھیل- فلمی کے لوگ ہوں، سنے دنیا کے لوگ ہوں، تعلیمی ماہرین ہوں، اسکول ہوں، کالج ہوں،یونیورسٹی ہوں، کسان ہوں، مزدور ہوں، افسر ہوں، بابو ہوں، پولیس ہوں، فوج کے جوان ہوں – ہر کوئی اس میں شامل کیا گیا ہے۔ عام جگہوں میں دباؤ بھی ہے کہ عوامی جگہ گندی ہوگی تو لوگ ٹوک دیں گے ، جب لوگ کام کرتے ہیں تو وہ دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ میں اسے اچھا سمجھتا ہوں اور میرے لئے خوش قسمتی ہے کہ ‘حفظان صحت ہی سروس مہم’ کے صرف پہلے چار دن میں ہی قریب قریب 75 لاکھ سے زیادہ لوگ، 40 ہزار سے زیادہ پہل لے کر کے سرگرمیوں میں جڑ گئے اور کچھ تو لوگوں دیکھا یہ مسلسل کام کر رہا ہے، نتائج لے کر رہنے کا فیصلہ لے رہا ہے۔ اس بار ایک اور بھی چیز دیکھی – ایک تو ہوتا ہے کہ ہم کہیں حفظان صحت کا خیال کریں، دوسرا ہوتا ہے ہم بیدار رہ کر گندگی نہ کریں، لیکن حفظان صحت کا اگر مزاج بنانا ہے تو ایک نظریاتی تحریک بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس وقت وہاں ‘سوچھتا ہی سیوا‘ کے ساتھ بہت سے مقابلے تھے۔ صفائی کے لئے مضمون کے مقابلہ میں دو سے زائد سے زائد بچوں نے حصہ لیا۔ ہزاروں بچوں نے پینٹنگز بنائی اپنی تخیل سے حفظان صحت کے ساتھ تصاویر بنائیں۔ بہت سے لوگوں نے كویتائیں بنائیں اور ان دنوں تو میں سوشل میڈیا پر ایسے جو ہمارے ننھے ساتھیوں نے، چھوٹے چھوٹے بچو نے تصاویر بھیجی ہیں وہ میں پوسٹ بھی کرتا ہوں، ان کا گن گان کرتا ہوں۔ جہاں تک صفائی کی بات آتی ہے، میں کبھی بھی میڈیا کے لوگوں کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولتا ہوں۔ اس تحریک کو انہوں نے مکمل طور پر آگے بڑھایا ہے۔ اپنے اپنے طریقے سے، وہ جڑ گئے ہیں اور ایک مثبت ماحول پیدا کرنے میں انہوں نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے اور آج بھی وہ اپنے اپنے طریقے سے حفظان صحت کی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کا الیکٹرانک میڈیا ہمارے ملک کا پرنٹ میڈیا ملک کی کتنی بڑی خدمت کر سکتے ہیں یہ ‘سوچھتا ہی سیوا’ تحریک میں ہم دیکھ پاتے ہیں۔ کچھ دن قبل، کسی نے سرینگر کے 18 سالہ جوان بلال ڈار پر توجہ دی۔ اور آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ سرینگر میونسپل نے بلال ڈار کو حفظان صحت کے لئے اپنا برانڈ ایمبیسڈر بنایا ہے اور جب برانڈ ایمبیسڈر کی بات آتی ہے تو آپ کو لگتا ہے کہ شاید وہ سنے آرٹسٹ ہوں گے، شاید وہ کھیل-دنیا کا ہیرو ہوں گے نہیں ۔بلال ڈار خود 12-13 سال کی اپنی عمر سے، گذشتہ 5-6 سال سے صفائی میں لگ گیا ہے۔ ایشیا کی سب سے بڑی جھیل سرینگر کی ایشیا کی سب سے بڑی جھیل کے قریب، پلاسٹک ہو پالیتھین ہو ، استعمال کی ہوئی بوتل ، ردی کی ٹوکری ہے، یہ صرف صفائی رکھتا ہے۔ ان میں سے کچھ منافع بخش بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا باپ بہت کم عمر میں کینسر سے مر گیا لیکن اس نے اپنی زندگی کی معیشت اور صفائی کے ساتھ مل کر۔ ایک تخمینہ یہ ہے کہ بلال نے سالانہ 12 ہزار کلوگرام ردی کی کوریج صاف کردی ہے۔ سرینگر میونسپل کو بھی میں مبارک باد دیتا ہوں کہ حفظان صحت کے مطابق اس پہل کے لئے اور ایمبیسڈر کے لئے ان کی اس تصور کے لئے، کیونکہ سرینگر ایک دہشت گردی کا اڈہ ہے اور ہندوستان کا ہر شہری سرینگر جانے کی خواہش کرتا ہے ، اور وہاں صفائی کے لیے یہ خود میں ایک بہت بڑی بات ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے بلال کو صرف برانڈ ایمبیسڈر بنایا ایسا نہیں ہے، صفائی کرنے والے بلال اس کو کارپوریشن نے اس بار گاڑی دی ہے، وردی دی ہے اور وہ دیگر علاقوں میں بھی جا کر لوگوں کو حفظان صحت کے لئے تعلیم دیتا ہے، حوصلہ افزائی کیا نتائج حاصل کرنے کے لیے واپس آتی ہے؟ بلال ڈار، عمر چھوٹا ہے، لیکن حوصلہ افزائی کے سبب ہر چیز کو صاف کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ میں بلال ڈار کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، اس بات کو ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ مستقبل کی تاریخ، تاریخ کے بطن میں جنم لیتا ہے اور جب تاریخ کی بات آتی ہے تو عظیم انسان یاد آنا بہت لازمی ہے۔ یہ اکتوبر ماہ بہت سارے عظیم شخصیتوں کو یاد کرنے کا مہینہ ہے۔ مہاتما گاندھی سے لے کر کے سردار پٹیل تک اسی اکتوبر میں اتنے عظیم انسان ہمارے سامنے ہیں کہ جنہوں نے 20 ویں صدی اور 21 ویں صدی کے لئے ہم لوگوں کو سمت دی، ہماری قیادت کی، ہمارا رہنمائی کی اور ملک کے لئے انہوں نے بہت تکلیف برداشت۔ دو اکتوبر کو مہاتما گاندھی اور لال بہادر شاستری جی کا یوم پیدائش ہے تو 11 اکتوبر کو جے پرکاش نارائن اور نا نا دیشمکھ کایوم پیدائش ہے اور 25 ستمبر پنڈت دین دیال اپادھیائے جی کا یوم پیدائش ہے۔ اور ان تمام عظیم شخصیتوں کا مرکز کیا تھا؟ ایک چیز عام تھی اور وہ ملک کے لئے جیتے تھے، ملک کے لئے کچھ کررہے تھے اور نہ صرف تبلیغ کرتے تھے، ان کی زندگی کے ذریعے ظاہر کرتے ہوئے۔ گاندھی جی، جے پرکاش جی، دین دیال جی یہ ایسے عظیم انسان ہیں جو اقتدار کے گلیاروں سے كوسوں دور ہیں، لیکن جن کی زندگی کے ساتھ پل پل جیتے رہے، جوجھتے رہے اور ‘سروجن ہتائے’-سروجن سكھاي ‘، کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں نا نا دیشمکھ سیاسی زندگی کو چھوڑ کر گرامودئے میں لگ گئے تھے اور جب آج ان کا صدی-سال مناتے ہیں تو ان گرامودئے کے کام کے تئیں احترام ہونا بہت قدرتی ہے۔
ہندوستان کے سابق صدر جناب عبدالکلام جی جب نوجوانوں سے بات کرتے تھے تو ہمیشہ نا نا دیشمکھ کے دیہی ترقی کی باتیں کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بڑے احترام کے ساتھ ذکر کیا تھا اور وہ خود ناناجی کے اس کام کو دیکھنے کے لئے گاؤں گئے۔ دین دیال اپادھیائے جی جیسے مہاتما گاندھی معاشرے کے آخری سرے میں بیٹھے ہوئے انسان کی بات کرتے تھے۔ دین دیال جی بھی معاشرے کے آخری سرے پر بیٹھے ہوئے غریب، شکار، استحصال، محروم کی ہی اور اس کی زندگی میں تبدیلی لانے کی – تعلیم کی طرف ، روزگار کی طرف سے کس قسم سے تبدیلی لائی جائے، اس بات پر بحث کرتے تھے۔ ان تمام عظیم لوگوں کو یاد کرنا یہ ان کے تئیں احسان نہیں ہے، یہ عظیم لوگوں کو یاد اس لیے کرتے ہیں کہ ہمیں آگے کا راستہ ملتا رہے، آگے کی سمت ملتی رہے۔
اگلے ‘من کی بات’ میں، میں ضرور سردار ولبھ بھائی پٹیل کے بارے میں کہوں گا، لیکن 31 اکتوبر پورے ملک میں رن فار یونیٹی ایک بھارت بہترین بھارت۔ ملک کے ہر شہر میں، ہر شہر میں بہت بڑی مقدار میں رن فار یونیٹی کے پروگرام ہونے چاہئے اور موسم بھی ایسا ہے کہ ریسر پسندی آتا ہے – سردار صاحب جیسے لوہے جیسی طاقت حاصل کرنے کے لئے یہ بھی تو ضروری ہے۔ اور سردار صاحب نے ملک کو متحد کیا تھا۔ ہم اتحاد کو بھی آگے بڑھاتے ہیں اور اتحاد کے منشور کو چلاتے ہیں۔
ہم اسے قدرتی طور پر کہتے ہیں – تنوع میں اتحاد، بھارت کی خاصیت۔ ہم تنوع کی تعریف کرتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی اس تنوع کا تجربہ کرنے کی کوشش کی ہے؟ میں بار بار ہندوستان کے میرے ہم وطنوں سے کہنا چاہوں گا اور خاص کرکے میری نوجوان نسل کو کہنا چاہوں گا کہ ہم ایک بیدار-حالت میں ہیں۔ اس ہندوستان کی تنوع کا تجربہ، اس کو چھوئیں، اس کی خوشبو کا تجربہ کریں۔ آپ دیکھتے ہیں، ہمارے ملک کا یہ تنوع آپ کے اندرونی شخصیت کی ترقی کے لئے بہت بڑے اسکول کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ دیوالی کا دن تعطیل ہے، ہمارے ملک میں کہیں بھی کہیں بھی جانے کا رواج ہے، لوگ سیاحوں اور قدرتی طور پر جاتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی فکر ہوتی ہے کہ ہم اپنے ملک کو تو دیکھتے نہیں ہیں، ملک کی مختلف صورتحال کو جانتے نہیں، سمجھتے نہیں، لیکن چکا-چوندھ کے اثرات میں آکر کے بیرون ملک میں ہی ٹور کرنا پسند کرنا شروع کئے ہیں۔ آپ کو دنیا جانے کے لئے کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن آپ کے گھر بھی کبھی نہیں دیکھتے ہیں! شمالی ہندوستان سے ایک شخص نہیں جانتا کہ جنوبی ہندوستان میں کیا ہے؟ مغربی ہندوستان کے لوگ نہیں جانیں گے کہ مشرقی بھارت میں کیا ہے؟ ہمارا ملک بہت سی مختلف حالتوں سے بھرا ہوا ہے۔
مہاتما گاندھی، لوک مانیہ تلک، سوامی وویکانند، ہمارے سابق صدر عبدالکلام جی اگر ان باتوں میں دیکھو گے تو ایک بار آتا ہے کہ جب انہوں نے بھارت کا دورہ کیا تب انہیں بھارت کو دیکھنے-سمجھنے میں اور اس کے لئے رہنے-مرنے کے لئے ایک نیا موثر ہے، یہ تمام عظیم شخص بھارت میں بڑے پیمانے پر سفر کرتے تھے۔ ان کے کام کے آغاز میں، انہوں نے بھارت کو سمجھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ بھارت میں اپنے آپ کو رہنے کی کوشش کی ہے کیا ہم، ہمارے ملک کے مختلف-مختلف ریاستوں کو، مختلف-مختلف معاشروں کو، گروپوں کو، ان کی رسوم و رواج کو، ان کی روایت کو، ان کے پہناوے کو، ان کے کھانے پینے کو ، ان کے عقائد کو ایک طالب علم کے طور پر سیکھنے کا، سمجھنے کا ، زندگی جینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
سیاحت کا اضافی قدر صرف یہی ہوتی ہے جب ہم صرف ملاقاتی نہیں ، ہم ایک طالب علم کے طور پر اس کا پانا-سمجھنا – بننے کی کوشش کریں۔ میرا خود کا تجربہ یہ ہے کہ مجھے بھارت کے پانچ سے زائد اضلاع جانے کا موقع مل گیا ہے۔ ساڑھے چار سو سے زیادہ اضلاع تو ایسے ہوں گے جہاں مجھے رات میں رہنے کا موقع ملا ہے اور آج جب میں ہندوستان میں اس ذمہ داری کو سنبھال رہا ہوں تو میرے اس سفر کا تجربہ مجھے بہت کام آتا ہے۔ چیزوں کو سمجھنے میں مجھے بہت آرام ہے۔ آپ سے بھی میرا اصرار ہے کہ آپ کو اس بہت بڑے ہندوستان کو “تنوع میں اتحاد” صرف نعرہ نہیں، ہماری بے پناہ-طاقت کا یہ ذخیرہ ہے، اس کا تجربہ کیجئے۔ ‘بھارت – بہترین بھارت’ کا خواب اس میں ہے۔ یہاں کتنی کھانے کی چیزیں ہیں! اگر آپ پوری زندگی میں ہر روز ایک ایک نئی قسم کھاتے رہیں گے تو بھی وہ دوبارہ نہیں ملے گا۔ اب یہ ہماری سیاحت کی طاقت ہے۔ میں درخواست کروں گا کہ ان تعطیلات میں آپ صرف گھر کے باہر جائیں ایسا نہیں،تبدیلی کے لئے نکل پڑیں ایسا نہیں – کچھ جاننے- سمجھنے-حاصل کرنے کے ارادے سے نكلیں۔ خود کے اندر ہندوستان کا خود احساس۔ آبادی کے تنوع کو خود بخود خود مختار کریں۔ یہ تجربات آپ کی زندگی کو بہتر بنائیں گے۔ آپ کے سوچنے کا انداز وسیع ہو جائے گا۔ اور تجربے سے بڑا استاد کون ہے عام طور پر، اکتوبر سے مارچ کی مدت زیادہ تر سیاحت کا ہے۔ لوگ جاتے ہیں میں یقین کرتا ہوں کہ اگر آپ اس وقت بھی جاتے ہیں تو میں اس مہم کو مزید بڑھا دونگا۔ جہاں بھی آپ جاتے ہیں اپنے تجربات کو شیئر کریں، تصاویر کا تبادلہ کریں۔ #incredibleindia (ہیش ٹیگ incredibleindia ) آپ اس پر تصویر بھیجیں۔ اگر آپ وہاں کے لوگوں سے ملیں تو، ان کی بھی ایک تصویر بھیجیں۔ نہ صرف عمارتیں، بلکہ خوبصورتی کی خوبصورتی بھی نہیں، وہاں کی زندگی کی کچھ چیزیں لکھیں۔ اپنے سفر پر ایک اچھا مضمون لکھیں۔ مائی گوو کو بھیجیں، نریندر مودی ایپ کو بھیجیں۔ میرے ذہن میں ایک خیال آتا ہے کہ ہندوستان کی سیاحت کو فروغ دینے کے لئے کیا آپ اپنی ریاست کے سات اچھے سے اچھے سیاحتی مقام کیا ہو سکتے ہیں – ہر ہندوستانی کو اپنی ریاست کے ان سات چیزوں کے بارے میں جاننا چاہیے۔ ممکن ہو تو، ان سات مقامات پر جائیں۔ کیا آپ اس کے بارے میں کوئی معلومات دے سکتے ہیں؟ کیا آپ اسے نریندر مودی ایپ پر رکھ سکتے ہیں؟ کیا قابل اعتماد ہندوستان (حش ٹیگ) ناقابل اعتماد پر ہو سکتا ہے؟ آپ دیکھئے، ایک ریاست کے تمام لوگ ایسا بتائیں گے تو میں حکومت میں کہوں گا کہ وہ اس کو اسکرٹنی کرے کرے اور کامن کون سی سات چیزیں ہر ریاست سے آئی ہیں اس پر وہ پروموشنل- ضوابط کریں۔ دوسرے الفاظ میں، عوام کے ارادے کے ساتھ سیاحتی منزل کو فروغ دینا کیسا ہے؟ اسی طرح سے آپ نے جو چیزیں دیکھی ہیں ملک بھر میں، اس میں سے سات کو جو اچھے سے اچھی لگی ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی نے تو اس کو دیکھنی چاہیے، جانا چاہیے، اس کے بارے میں معلومات پانی چاہیے آپ اپنی پسند مائی گوو پر نریندر مودی ایپپ پر سات مقامات پر بھیجیں۔ بھارت کی حکومت اس پر کام کرے گی۔ اس طرح کی بہترین منزل بنانے کے لئے، فلم بنانا، ویڈیو بنانا، تبلیغ کو فروغ دینے، اسے فروغ دینا – حکومت آپ کو جو کچھ بھی پسند کرتے ہیں وہ قبول کرے گا۔ میرے ساتھ آؤ۔ آپ اس وقت اکتوبر سے مارچ تک استعمال کرتے ہوئے ملک کی سیاحت کو بڑھانے کے لئے ایک بہت بڑی اتپریورتی ایجنٹ بن سکتے ہیں۔ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں ، انسان کے طور پر، بہت سی چیزیں مجھے بھی چھٹکارا دیتی ہیں۔ میرا دل ہلکا ہوا ہے۔ میں اپنے دماغ پر گہرا تاثر رکھتا ہوں۔ سب کے بعد میں بھی آپ کی طرح انسان ہوں۔ گزشتہ دنوں ایک واقعہ ہے جو شاید آپ کے بھی ذہن میں آیا ہوگا – خواتین-طاقت اور حب الوطنی کی منفرد مثال ہم ہم وطنوں نے دیکھی ہے۔ انڈین آرمی کو لیفٹیننٹ سواتی اور نیدھی کے طور پر دو ويراگنائیں ملی ہیں اور وہ غیر معمولی ويراگنائیں ہیں۔ غیر معمولی یہ ہے کہ سواتی اور نیدھی ماں بھارتی کی خدمت کرتے ہوئے ان کے شوہر شہید ہوئے۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ اس مختصر عمر میں جب دنیا برباد ہوگئی ہے تو پھر ذہن کی حالت کیا ہوگی؟ لیکن شہید کرنل سنتوش مهادك کی بیوی سواتی مهادك اس مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اس نے دل میں ٹھان لی۔ اور وہ بھارتی فوج میں داخل ہوگئی۔ اس نے 11 ماہ تک تربیت حاصل کی اور سخت محنت کی اور اس نے اپنے شوہر کے خواب کو پورا کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ اسی قسم سے نیدھی دوبے، ان کے شوہر مکیش دوبے فوج میں نایک کا کام کرتے تھے اور دھرتی ماں کے لئے شہید ہو گئے تو ان کی بیوی نیدھی نے ذہن میں ٹھان لی اور وہ بھی فوج میں بھرتی ہو گئیں۔ ہمارے ملک کے لئے یہ قدرتی طور پر اپنی ماں کی طاقت کا احترام کرنا ہے، ان کی نایکاؤں کا احترام۔ میں ان دو بہنوں کو دل سے مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوں نے ملک کے لوگوں کے لئے ایک نیا شعور، پیدا کیا ہے۔ ان دو بہنوں کو خوش آمدید۔
ہمارے ملک کی نوجوان نسل کے لیے نوراتری اور دیوالی کے درمیان ایک بہت اچھا موقع بھی ہے۔ فیفا کے تحت 17 سالہ ورلڈ کپ یہاں ہو رہا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ فٹ بال کے اراکین کے ارد گرد سنا جائے گا۔ ہر نسل فٹ بال میں دلچسپی رکھتی ہے۔ بھارت میں کوئی اسکول نہیں – کالج کے میدانوں کو نہیں دیکھا جانا چاہئے جہاں ہمارے نوجوان لوگ کھیل نہیں دیکھتے ہیں۔ آو، ہم کھیل کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں جب پوری دنیا بھارت کی مٹی پر چلنے کے لئے آ رہا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں ، نوراتری کے تہوار چل رہا ہے۔ ماں درگا کی عبادت کرنے کا ایک موقع ہے۔ پورے ماحول میں مقدس خوشبو کے ساتھ وسیع ہے۔ چاروں طرف ایک روحانیت کا ماحول، جشن کا ماحول، بھکتی کا ماحول اور یہ سب کچھ قوت کی خاموشی کا تہوار سمجھا جاتا ہے۔ یہ شاردیی نوراتری کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اور یہ ہے جہاں موسم خزاں شروع ہوتا ہے۔ نوراتری کے اس مقدس موقعے پر ہم وطنوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور ماں شکتی سے پرارتھنا کرتا ہوں کہ ملک کے عام انسانی کی زندگی کی امید-خواہشات کو مکمل کرنے کے لئے ہمارا ملک نئی اونچائی حاصل کرے۔ ہر چیلنج کا سامنا کرنے کی طاقت ملک میں آئے۔ ملک تیز رفتار سے آگے بڑھے اور دو ہزار بائیس (2022) بھارت کی آزادی کے 75 سال- آزادی کے دیوانوں کے خواب کو پورا کرنے کی کوشش، سوا سو کروڑ ہم وطنوں کا عزم ، انتھک محنت، اتھا ہ پروشارتھ اور عزم کا احساس کرنے کے لیے ہم نے پانچ سال تک کا روڈ میپ بنا کر کے ہم اس پر چل پڑیں اور ماں شکتی ہمیں آشرواد دے۔ آپ سب کو بہت بہت مبارکباد ۔ تہواروں کا جشن منائیں ، حوصلہ بھی بڑھائیں۔