نئی دہلی، آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیز (ایمس) کی 45 ویں تقریب تقسیم اسناد میں آنا میرے لئے بہت خوشی کی بات ہے۔ یہ ادارہ قومی عمدگی کا مرکز ہے۔ طبی تحقیق اور حفظان صحت کے شعبے میں یہ ادارہ ملک کے لئے مثالی (ماڈل) ہے۔ ایمس کا نام معیار، لگن اور مالا مال تجربات کی علامت بن گیا ہے۔ اس کے سربرہان شعبہ اور ڈاکٹروں کے علاوہ طلبا بھی ہمارے ملک اور ہماری طبی برادری کے لئے باعث فخر ہیں۔ میں ایمس کے ہرایک رکن کو اس کی ادارے کی دشوار گذار حالات کے باوجود بے مثال معیارات کوبرقرار رکھنے کے لئےمبارکباد دیتا ہوں۔
میں خاص طور سے ان طلبا اور رہائشی ڈاکٹروں-فعال نوجوان ڈاکٹروں اور نرسوں سے بات کرکے ، جو آج فارغ التحصیل ہورہے ہیں، میں ان کی ڈگریوں کے لئے مبارک باد دیتا ہوں۔ میں ان تمام افراد کو خصوصی مبارک باد دیتا ہوں جنہوں نے میڈل اور ایوارڈ حاصل کئے ہیں۔ یہ آپ کی زندگی کا اہم پڑاؤ ہے ۔ ایمس سے فارغ ہونے والے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹروں کےناموں کی شاندار فہرست میں آپ کا نام بھی شامل ہوگیا ہے۔ آپ کی کامیابی ، کڑی محنت کے علاوہ آپ کے اساتذہ اور پروفیسروں کی کوششوں کے ساتھ ساتھ آپ کے کنبے کے افراد کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اس طویل سفر میں سماج کے ذریعہ آپ کی مدد بھی کی گئی ہے، جس نے ایمس جیسے ادارے کے قیام اور اس کے رکھ رکھاؤ میں گرانقدر تعاون کیا ہے۔
جہاں تک آپ کی دنیا کے عملی میدان میں جانے کا تعلق ہے-یہ ایسی دنیا ہے جسے پہلے کےمقابلےمیں اسے آج آپ کی زیادہ ضرورت ہے۔ آپ یا د رکھیں کہ اب سماج کو آپ کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ آپ کو آپ کی تعلیمی عمدگی ، آپ کی طبی ہنر مندی اور آپ کی مہارت کا بدل ملنا چاہئے تاہم بحیثیت ایک ڈاکٹر کے آپ کی خدمات ان سبھی کو دستیاب ہونی چاہئیں جو آپ کی فیس برداشت کرسکتےہیں اور وہ لوگ جو اتنے خوش قسمت نہیں ہیں اور وہ آپ کی فیس کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے ۔ بیماری ،ا میر اور غریب کا فرق کرکے نہیں آتی ، بلکہ بدقسمتی سے غریب اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اب یہ سماج کی ذمہ داری ہے کہ طبی سائنس اس سے فائدہ اٹھائے ۔
مریضوں اور ان کے کنبوں کو آپ پر بہت اعتماد ہے۔ وہ آپ کو خدا کے بعد دیکھتے ہیں۔ یہ آپ پر ہے کہ نہیں یقین دلائیں کہ یہ اعتماد برقرار رہے اور آپ ان کا پوری سنجیدگی اور رحمدلی کے ساتھ علاج کریں گے۔
صحت کو لاحق چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں ہماری فعال اور انتہائی ہنر مند نرسوں اور نیم طبی عملہ کا اہم کردار رہتا ہے۔ ان کا کام کبھی نہیں رکتا۔ ڈیوٹی کے تئیں ان کا ذمہ دارانہ برتاؤ اور جذبہ رحمدلی میں ہندستان کی نرسوں-خواتین اور مرد دونوں کو ہمارے ملک کے غیر معمولی پیشہ وروں میں سے ایک بنادیا ہے۔ اس پس منظر میں میں آج نرسنگ کی ان طالبات کا خاص طور پر ذکر کریوں گا جنہوں نے آج گریجویشن کیا ہے۔ آپ سب کو میں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
درحقیقت ہندستان وہ ملک ہے جہاں عوامی صحت پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ۔ روایتی چیلنج جیسے ڈائریا، نمونیہ اور تپ دق (ٹی بی)- کے ساتھ زچہ بچہ کی شرح اموات کے اعدادوشمار بہتر ہوئے ہیں لیکن صورت حال باعث تشویش ہے۔ دوسری جانب غیر متعدی امراض جنہیں طرز زندگی کے امراض کہا جاتا ہے وہ مہلک امراض کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ یہ امراض قلب سے لے کر دماغ کے علاوہ ، سرطان اور آلودگی کے ذرائعہ ہیں ، تیزی سے پھیل رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں موٹاپہ اور تغذیہ کی کمی عوامی صحت کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ ہمارےملک میں بچوں کی بڑی آبادی ہونے کے علاوہ معمر شہریوں کی بھی سب سے بڑی آبادی رہتی ہے۔ یہ دونوں ہی مختلف زمروں میں آتے ہیں لیکن ہماری حفظان صحت کے نظام اور ہمارے ڈاکٹروں اور نرسوں کے لئے صحیح معنوں میں بڑا چیلنج ہے۔ ترقی کے باوجود فاصلہ اب بھی موجود ہے ۔ مثال کے طور پر ہندستانی کمپنیاں ویکسن بنانے والی دنیا کی بڑی کمپنیوں میں شامل ہیں۔ یہ ویکسن پوری دنیا میں سپلائی کئے جارہے ہیں ۔ ہمارے اختراعی طبی سائنسدانوں نے نئی ویکسنس بھی تیار کرلی ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری ٹیکہ کاری (امیونائزیشن) کا ریکارڈ مطلوبہ سطح سے کافی نیچے رہا ہے۔ ہمارے کئے بچے خصوصاً دوردراز کے علاقوں میں رہنے والے بچوں کو ٹیکہ کاری (خوراک) کا پورا کورس نہیں مل پاتا۔ اس پس منظر میں، میں جناب جے پی نڈا کی سرپرستی میں صحت اور کنبہ بہبود کی وزارت کی کوششوں کی تعریف کروں گا ۔ مشن اندر دھنش جیسے پروگرام شروع کرکے یہ فوری طور پر ایمونائزیشن کا فرق دور کرنے کی کوشش کررہی ہے اور ہمارے بچوں کو جو ہمارے ملک کا مستقبل ہیں ان کے مہلک امراض سے تحفظ کی کوششیں کررہی ہے۔ جس پس منظر کا پہلے میں نے ذکر کیا ہے ان میں تما شرکا کے ذریعہ مربوط کارروائیاں مطلوب ہیں ، خواہ وہ حکومت کی جانب سے ہو یا پرائیوٹ سیکٹر کی یا آشا کارکنوں اور اے این ایم کی شکل میں، زمینی کارکنوں کی جانب سے یا بڑے اسپتالوں جیسے ایمس کےماہرین کی کوششیں ہوں۔ کم ا ز کم امراض کو تشخیص کےلئے ٹکنالوجی کا استعمال اور ٹیلی میڈیسن اپنانا حفظان صحت کے لئے مفید ہوگا جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ ایمس جیسے اداروں میں نئی نئی تحقیقات ، ابھرتے امراض اور صحت کو لاحق چیلنجوں کے مقابلے کی بنیاد ہوگی۔
ان سب باتوں میں طریقہ علاج کا نصاب سب سے اہم کردار ہے ۔ وہ آپ ہیں جنہیں آج ڈگری تفویض کی جارہی ہے۔ آ پ کے بغیر یہ نظام کام نہیں کرے گا آ پ کی قیادت میں ہم سب کے لئے یہ یقینی ہوگی کہ ہندستان کی حفظان صحت کی کوششیں صرف چند شہریوں تک نہیں بلکہ ہر شہر ی تک پہنچی گئی۔ یہ آپ پر ہے کہ آپ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہماری زندگی میں حفظان صحت کےاشاریئے پوری آبادی کے لئے قابل قبول سطح تک پہنچیں۔ اسی طرح پولیو کے خلاف جنگ اور چیچک کے خلاف جنگ ہم نے جیتی ہے ۔ یہ کامبابیاں ہمیں ترغیب دیتی ہیں اور ہر سمت میں صحت مند ہندستان بناتی ہیں۔
خواتین و حضرات ! میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں اپنے ڈاکٹروں کے شانوں پر یہ ذمہ داری ڈال رہا ہوں لیکن میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ ہمارے ڈاکٹروں کو مدد کی ضرورت ہے۔ یہ مزید رفقائے کار کی شکل میں مزید ڈاکٹرو ں کی ضرورت ہے ۔ ہمارے سماج میں ڈاکٹروں اور طبی پیشہ وروں کی دستیابی کو بڑھانے کے لئے کہ ہمیں نئے ضابطہ جاتی نظام کی سہولت ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں ہمارے ڈاکٹروں پر کافی بوجھ پڑ ھ رہا ہے ۔ میں اسے انتہائی غیر حقیقیت پسندانہ کہوں گا ۔ مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی شبہ نہیں ہورہا ہے کہ ایمس میں ڈاکٹر کڑی محنت کرتے ہیں ۔ وہ بلا تھکے ہر روج مریضوں کی کثیر تعداد میں علاج کرتے ہیں ۔
فی الحال ہمارے میڈیکل کالج جو حکومت یا پرائیوٹ اداروں کے ذریعہ چلائے جارہے ہیں وہاں صرف 67 ہزار انڈر گریجویٹ اور 31 ہزار پوسٹ گریجویٹ سیٹیں موجود ہیں۔ ایک بلین تیس کروڑ افراد والے اس ملک میں میکڈکل کالجوں میں دستیاب یہ سیٹیں ناکافی ہیں ۔ ہمیں اس ضابطہ جاتی رکاوٹوں پر قابو پانا ہوگا اور ان لوگوں کو روکنا ہوگا جو ہمارے ملک میں معیاری طبی تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہر سال ہمارے عوام کی ضرورت کے مقابلے میں بہت کم میڈیکل گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ملتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دوسرے ملکوں کے میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے کی خواہشیں بڑھ رہی ہیں ایسا صرف اس لئے ہے یہ یہا ں متبادل محدود ہیں۔
آپ ہماری اس بات سے اتفاق کریں گے یہ صورتحال قابل قبول نہیں ہے۔ بحیثیت ایک ملک ہمیں اس صورتحال سے فوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان نوجوانو کے لئے زیادہ مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو دوا کے میدان میں جانا چاہتے ہیں۔
اس امیدکے ساتھ میں اپنی بات کو ختم کرنا چاہوں گا کہ میں ایک بار پھر ان لوگوں کو مبارک باد دینا چاہوں گا جنہیں آج ا ن کی ڈگری تفویض کی جارہی ہے ۔ آپ آنے والے برسو ں میں علاج و معالجہ ، ہمارے ملک اور انسانیت کے لئے بہت کچھ کریں۔