نئی دلّی ، بھارت کے بجلی شعبہ کے کل ہند اعداد و شمار آج مرکزی برقی اتھارٹی (سی ای اے) کی جانب سے جاری کردی گئی ہے۔ اس شعبے کی اہم جھلکیاں درج ذیل ہیں:
2012-17 کے دوران بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا نشانہ روایتی وسائل سے 99,209.47 میگاواٹ رہا، جبکہ نشانہ 88,537 میگاواٹ رہا۔ اس طریقے سے 112 فیصد کی کامیابی درج ہوئی۔ روایتی پیداواری صلاحیت میں اضافہ گزشتہ تین برسوں کے دوران یعنی (2014-15, 2015-16 اور 2016-17) میں 60,752.6 میگاواٹ کے بقدر رہا ہے، جو اس مدت کے دوران حاصل کی گئی کلی اضافی صلاحیت کا تقریباً 61 فیصد ہے۔
2015-16 میں روایتی پیداواری صلاحیت اضافہ 23,976.6 میگاواٹ کے بقدر رہا، جو کسی ایک سال کے دوران حاصل کی گئی صلاحیت میں سب سے زیادہ صلاحیت ہے۔
قابل احیا توانائی وسائل کی تنصیبی صلاحیت 31 مارچ 2014 تک 31,692.14 میگاواٹ کے بقدر تھی۔ 31.03.2017 تک بھارت نے 57,260.2 میگاواٹ کے بقدر کی تنصیبی صلاحیت حاصل کرلی ہے، جس سے 2014-17 کے دوران کی مدت میں 80 فیصد کا اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔
2013-14 میں بجلی کی اضافی مانگ میں 130 فیصد جی ڈبلیو کا اضافہ ہوا تھا، جو 2016-17 میں بڑھ کر 157 جی ڈبلیو ہوگیا، جس کے نتیجے میں 6.5 فیصد کا سی اے جی آر ظاہر ہوتا ہے۔ مطالبے میں ہوئے اضافہ کے ساتھ ساتھ اس اضافی مطالبے کی مدت کے دوران جس مقدار میں بجلی کی سپلائی نہیں کی گئی اس میں بھی خاطرخواہ تخفیف ہوئی ہے، یعنی 2013-14 میں 6.1 جی ڈبلیو کے مقابلے میں 2016-17 میں صرف 2.6 جی ڈبلیو کا مطالبہ سامنے آیا اور اس طریقے سے 57 فیصد کی تخفیف حاصل ہوئی۔
ریاستی تقسیمی اداروں کی جانب سے سپلائی کی گئی توانائی کی مقدار میں بھی خاطرخواہ اضافہ درج ہوا ہے، یعنی 2013-14 میں 960 بی یو کے مقابلے میں 2016-17 میں 1135 بی یو کی مقدار سپلائی ہوئی، جس سے 5.8 فیصد کا سی اے جی آر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ اضافہ ان تمام حالات کے باوجود حاصل ہوا ہے جن میں توانائی کی کھپت اور اثرانگیزی اقدامات کی کوششیں بھی جاری تھیں۔ توانائی اثرانگیزی کے اقدامات کے بغیر شرح اضافہ اس قدر نہ ہوتی۔ اس شرح اضافہ کے ساتھ جس کے نتیجے میں بجلی کی سپلائی میں اضافہ ہوا، جس قدر مقدار میں توانائی سپلائی نہیں ہوئی، اس میں بھی تخفیف درج کی گئی ہے۔ یہ تخفیف 2013-14 میں 42.4 بی یو کے بقدر رہی تھی، جو 2016-17 میں خاطرخواہ طور پر بڑھ کر 7.6 بی یو ہوگئی، یعنی 82 فیصد کی تخفیف حاصل ہوئی۔
صنعتوں سمیت تمام صارفین کے ذریعے جس قدر مقدار میں اصلاً توانائی کی کھپت ہوئی، اس میں بھی اعلیٰ شرح اضافہ درج کی گئی ہے۔ ملک میں مجموعی پیداوار جس میں صارفین کی جانب سے کھپت میں لائی گئی، بجلی بھی شامل ہے۔ (اس گوشوارے میں وہ 0.2 فیصد کی شرح اضافہ شامل نہیں ہے جسے بنگلہ دیش اور نیپال کو برآمد کیا گیا)۔ اس میں 2013-14 کی 1020 بی یو کے مقابلے میں 2016-17 میں 1242 بی یو کا اضافہ ہوا، جس سے 6.8 فیصد کا سی اے جی آر ظاہر ہوتا ہے۔ چونکہ پیداوار میں اضافہ درج ہوا، لیکن اس کے مقابلے میں ریاستی ترسیلی اکائیوں کے ذریعے سپلائی کی گئی بجلی کا فیکٹر بھی موجود ہے، لہٰذا متعدد صنعتیں آئی پی پی سے براہ راست رسائی کے ذریعے بجلی خرید رہی ہیں اور اس کے لئے وہ ریاستوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھتیں، لہٰذا صنعتوں میں بجلی کی کھپت ریاستی اکائیوں کے توسط سے کم ہوئی ہے اور کھلی رسائی کی وجہ سے اس کھپت میں اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں بلاکسی ٹھیکے یا تعلق کے آئی پی پی کا اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔ شرح اضافہ توانائی کھپت کے باوجود اور اثرانگیزی کے ذریعہ کئے گئے اقدامات کے پس منظر میں ہے۔ اثرانگیزی کے اقدامات کے بغیر شرح اضافہ اس سے بھی زیادہ ہوسکتی تھی۔
ملک میں بجلی کی وافر مقدار صارفین کی ضرورت اور مطالبے کے مطابق دستیاب ہے اور ان تمام صارفین کو بجلی تک رسائی حاصل ہے۔ 2013-14 میں توانائی اور پیک کے معنوں میں مطالبے اور سپلائی کے بیچ کا فاصلہ بالترتیب 4.2 فیصد اور 4.5 فیصد کا تھا۔ یہ فاصلہ اب تک کا سب سے کم یعنی 2016-17 میں بالترتیب 0.7 فیصد اور 1. 6 فیصد تک آگیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ فرق ملک میں بجلی کی قلت سے متعلق حقائق کے علاوہ دیگر وجوہات کی بنیاد پر ہے۔