نئی دہلی، دماغی صحت سے متعلق انسانی حقوق کے قومی کمیشن (این ایچ آر سی) کی ایک روزہ قومی سطح کی جائزہ میٹنگ آج نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں اختتام پذیر ہوئی۔ میٹنگ میں قانون اور اس کے نفاذ کے درمیان خلیج کو پُر کرنے کے لئے بہت سے مسائل کو اجاگر کیا گیا۔ اس سے پہلے انسانی حقوق کے قومی کمیشن (این ایچ آر سی ) کے چیئر پرسن جسٹس جناب ایچ ایل دتو نے اس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں دماغی حفظان صحت کو بہتر بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں، لیکن اس سیکٹر میں سہولتوں کی ضرورتوں اور دستیابی کے درمیان اب بھی زبردست خلیج برقرار ہے۔
جسٹس جناب دتو نئی دہلی میں انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں دماغی صحت سے متعلق ایک روزہ این ایچ آر سی قومی سطح کی جائزہ میٹنگ میں افتتاح کے موقع پر کمیشن کے لئے اسے ایک سخت تشویش کا معاملہ بتاتے ہوئے کہا کہ دماغی صحت کے سیکٹر کی نگرانی کرنے کے لئے اس کی پالیسی کے باوجود وہ یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ دماغی حفظان صحت کے قانون 2017 کے نفاذ کے بعد بنیادی حقائق کا جائزہ لیا جائے ۔ جسٹس دتو نے کہا کہ 13500 سائکیٹرسٹ یعنی دماغی علاج کرنے والے ڈاکٹر وں کی ضرورت ہے ،لیکن صرف 3827 ہی دماغی علاج کرنے والے ڈاکٹر ہی دستیاب ہیں۔اِدھر 20250 کلینکل سائکولوجسٹس کی ضرورت ہے ،جبکہ صرف898 ہی کلینکل سائکولوجسٹس دستیاب ہیں ۔اسی طرح نیم طبی عملےکی بھی سخت قلت ہے ۔
این ایچ آر سی کےچیئر پرسن نے ایسے قیدیو ں کے معاملے کو بھی اٹھایا جو دماغی صحت کی مشکلات سے دوچار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے مریضوں کے حقوق کا تحفظ مینٹل ہیلتھ کئیر ایکٹ 2017 کی دفعہ 103 کے تحت ریاستی سرکاروں کی ذمہ داری ہے ۔ جس پر سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں زوردیا ہے۔
صحت اور خاندانی فلاح و بہبود کی مرکزی سیکریٹری پریتی سودن نے کہا کہ مرکز ملک میں دماغی حفظان صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے کام میں بہت سرگرم رہا ہے، جس کے لئے ریاستوں کے تعاون کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فنڈ کی کوئی کمی نہیں ہے اور نہ ہی یہ رکاوٹ بنا ہوا ہے، لیکن ریاستوں کو دماغی حفظان صحت کے قانون 2017ء کے نفاذ کے لئے اپنی اپنی تجاویز کے ساتھ آگے آنا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اپنے اخراجات سے متعلق وقت پر رپورٹیں پیش کرنی ہوں گی۔
اس سے پہلے صحت اورخاندانی فلاح وبہبود کی وزارت کے خصوصی سکریٹری سنجیو ا کمار اور صحت اور خاندانی فلاح و بہبود کی وزارت میں جناب لو اگروال نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ جناب کمار نے کہا کہ اب تک 19 ریاستوں نے دماغی حفظان صحت کا قانون نافذ کیا ہے۔ انہوں نے تمام شراکت داروں کی زیادہ شرکت کی ضرورت پر زوردیااور ان کوششوںکو اجاگر کیا ، جو مرکز نے دماغی حفظان صحت کے سیکٹرکی بہتری کی سمت کی ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ ملک میں 10.6فیصد بالغ آبادی دماغی صحت کے مسائل سے دوچار ہے،جن کی ایک بڑی تعداد کو سیفٹی نیٹس ، قانونی فریم ورک اور طبی دیکھ بھال کی سہولتوں کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے این ایچ آر سی کی اس بات کے لئے ستائش کی کہ وہ مختلف شراکت داروں کو شامل کرنے کی کوششوںمیں مصروف ہے تاکہ مشترکہ اپروچ کے ذریعہ صورتحال کو بہتر بنایا جاسکے اور اوراس مسئلے پر ان سے صلاح ومشورہ کیا جاسکے ۔
اس سے پہلے این ایچ آر سی کے سکریٹری جنرل جناب جے دیپ گووند نے دماغی صحت کے حوالے سے کمیشن کی بہت سی مصروفیات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ا س نے ترقیاتی مقاصد کے لئے ایک گروپ تشکیل دیا ہے ،جس میں سب کی فلاح کے لئے زور دیا گیا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ ریاستوں نے اچھی روایات پیش کی ہیں ، جنہیں دیگر ریاستوں کے ذریعہ اپنائے جانے کی ضرورت ہے۔
این ایچ آر سی کے ممبر جسٹس پی سی پنت نے اپنے اختتامی کلمات میں اس با ت کی امید ظاہر کی کہ قانون اور اس کے نفاذ کے درمیان خلیج کو پُر کرنے میں تجاویز کو ایک لمبا راستہ طے کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان ہے کہ ریاستی سرکاریں دماغی حفظان صحت کو بہتر بنانے کے لئے ٹھوس کوششیں کریں گی۔
این ایچ آرسی کے ممبروں کے علاوہ جسٹس جناب پی سی پنت سکریٹری جنرل جناب جے دیپ گووند اور جوائنٹ سکریٹری جنا ب دلیپ کماراور دیگر افسروں کے علاوہ مرکزی صحت سکریٹری محترمہ پریتی سودن ، متعلقہ مرکزی وزارتوں کے دیگر نمائندے ،ریاستی سرکاروں ،انسانی حقوق کے ریاستی کمیشنوں کے نمائندے ، میڈیکل کونسل آف انڈیا ، نرسنگ کونسل آف انڈیا کے نمائندوں کے علاوہ دماغی صحت کے انسٹی ٹیوٹس کے ڈائریکٹر حضرات ،دماغی صحت کی ماہرین ،این جی اوز اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اس میں شرکت کی ۔