16.3 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

راجیہ سبھا کے نائب چیئرمین کی حیثیت سے جناب ہری وَنش کے منتخب ہونےکےبعد

Urdu News

میں سب سے پہلے ایوان کی طرف سے اور میری طرف سے نو منتخب نائب  چیئرپرسن جناب ہری وَنش صاحب کو دل کی گہرائی سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔  ہمارے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ صحت یاب ہونے کے بعدہمارے ارون جیٹلی صاحب  بھی سب کے درمیان موجود ہیں۔  آج 9؍ اگست ہے۔  اگست کرانتی ،آزادی کی تحریک سے جڑا ہوا ایک اہم پڑاؤ تھا اور اس پڑاؤ میں بلییا کا بہت اہم کردار تھا۔ 1857 میں آزادی کی لڑائی سے لے کر ، بلیا  آزادی  کا گڑھ، کرانتی کا  بگل بجانے میں ، جانوں کی قربانی دینے میں صف اول میں ہے۔ منگل پانڈے جی ہوں اورچِتّو پانڈے جی ہوں  اورچندر شیکھر تک کی روایت ۔ اسی کڑی میں ایک تھے ہری وَنش جی۔ پیدائش تو ہوئی ان کی جے پرکاش جی کے  گاؤں میں اور آج بھی اس گاؤں سے جڑے ہوئے ہیں۔ جے پرکاش جی کے خوابوں کوپورا کرنے کے لئے جو ٹرسٹ چل رہا ہے، اس کے ٹرسٹی کی شکل میں بھی کام کر رہے ہیں۔ ہری وَنش جی اس قلم کے دھنی ہیں، جس نے اپنی ایک خاص پہچان بنائی ہے اور میرے لئے یہ بھی خوشی ہے کہ وہ بنارس کےطالب علم رہے ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت بنارس میں ہوئی اور وہیں سے معاشیات کے مضمون میں ایم اے کیااور ریزرو بینک نے انہیں پسند کیا تھا،  لیکن انہوں نے ریزرو بینک کو پسند نہیں کیا،  لیکن بعد میں گھر یلو حالات  کی وجہ سے وہ نیشنلائزڈ بینک میں کام کرنے کے لئے  گئے… چیئرپرسن صاحب  آپ جان کر خوشی ہوگی کہ انہوں نے زندگی کےدو اہم برسوں میں حیدر آباد میں کام کیا۔ کبھی ممبئی، کبھی حیدرآباد، کبھی دلی،  کبھی کولکاتہ لیکن ان بڑے شہروں کی چکاچوندھ زندگی ہری ونش جی کو  راس نہیں آئی اوروہ کلکتہ چلے گئے تھے۔  “رویوار” اخبار میں کام کرنے کے لئے اور ہم لوگ جانتے ہیں، ایس پی سنگھ نام بڑا ہے … ٹی وی کی دنیا میں ایک شناخت بنی تھی۔  ان کے ساتھ انہوں نے کام کیا اور ایک ٹرینی کی شکل میں ، صحافی کے روپ میں دھرم ویر بھارتی جی کے ساتھ کام کیا۔ زندگی کی شروعات انہوں نے وہیں سے کی۔  دھرم یودھ  کے ساتھ جڑ کر کام کیا۔  دلی میں چندر شیکھر جی کے ساتھ کام کیا۔ چندر شیکھر جی کے چہیتے تھے اور عہدے کے وقار اور اہمیت کے سلسلے میں انسان کی خاصیتیں ہوتی ہیں۔ چندرشکر جی کے ساتھ وہ اس عہدے پر تھے، جہاں ان کو سب  معلومات تھی۔ چند شیکھر جی استعفیٰ دینے والے تھے، یہ بات ان کو پہلے سے معلوم تھی۔ وہ خود ایک اخبار سے منسلک تھے۔ اخبارکی دنیا کے صحافی تھے،  لیکن خود کے اخبار کو کبھی بھنک نہیں آنے دی کہ چندرشیکھرجی استعفیٰ دینے والے ہیں۔ انہوں نے اپنے عہدے کے وقار کو بحال رکھتے ہوئے رازداری کو قائم رکھا تھا۔ اپنے اخبار میں خبر چھپ جائے اور اخبار کی واہ واہی ہوجائے، انہوں نے ایسا ہونے نہیں دیا۔

ہری ونش  جی ‘‘رویوار’’ میں گئے بہار میں، تب تو متحدہ بہار تھا، بعد میں جھارکھنڈ بنا، وہ رانچی چلے گئے ،پربھات خبر کے لئے، اور جب انہوں نے جوائن کیا، تب اس کا سرکولیشن چار سو تھا۔جس کی زندگی میں اتنے مواقع ہوں، بینک میں  جاتے، تو وہاں موقع تھا، با صلاحیت شخصیت کےمالک تھے،انہوں نے اپنے آپ کو 400 سرکولیشن والے اخبار کے ساتھ کھپا دیا۔ 4 دہائی پر مشتمل صحافت کا ان کا سفر  سچی صحافت  کا ہے، وہ صحافت جو سماج سے جڑی ہوئی ہے،سیاسی اسباب سے نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ ہری ونش جی کی تقرری میں یہ سب سے بڑا تعاؤن ہوگا کہ وہ سماج کے لئے صحافی رہے اور انہوں نے سیاسی اسباب والی صحافت سے اپنے آپ کو دور رکھا۔ وے جن آندولن کی شکل میں اخبار کو چلاتے تھے ۔اور جب پرم ویرالبرٹ اکّا ملک کے لئے شہید ہوئے تھے۔  ایک بار اخبار میں خبر آئی کہ ان کی بیوہ بہت بدتر زندگی گزار رہی ہیں۔ 20 سال پہلے کی بات ہے،  ہریونش جی جی نے لوگوں سے رقم اکٹھا کی اور 4 لاکھ روپے اکٹھا کر کے خود شہید کی بیوہ کو پہنچائے تھے۔

ایک بار ایک معزز شخص کو نکسل وادی اٹھا لے گئے۔ ہری ونش جی اپنے اخبار کے جو بھی ذرائع تھے، ان کے توسط سے ہمت کے ساتھ نکسلیوں کی بیلٹ میں چلے گئے۔  لوگوں کو سمجھایابجھایا، آخر کار اسے چھڑا کر لے آئے۔ اپنی زندگی داؤ پر لگا دی یعنی ایک ایسی شخصیت ،جنہوں نے کتابیں پڑھیں بھی بہت اور لکھی بھی بہت اور میں سمجھتا ہوں کہ اخبار چلانا، اخباری نمائندوں سے کام لینا، یہ تو شاید آسان کام ہوگا۔ سماج کی  وجہ والی یہ دنیا، سماجی اسباب والی دنیا کا تجربہ ایک ہے ۔ سیاسی اسباب کا تجربہ دوسرا ہے۔ ایک رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے آپ نے ایک کامیاب مدت کار کا تجربہ ہم سب کو کرایا، لیکن زیادہ ترایوان کا حال یہ ہے کہ یہاں کھلاڑیوں سے زیادہ امپائر پریشان رہتے ہیں، اس لئے اصولوں میں کھیلنے کے لئے سب کو مجبور کرنا ایک بہت بڑا کام ہے، لیکن ہری ونش جی ضرور اس کام کو بخوبی پورا کریں گے۔

ہری ونش جی اہلیہ محترمہ آشا جی، وہ خود چمپارن سے ہیں یعنی ایک طرح سے پورا کہیں جے پی، تو کہیں گاندھی سے اور وہ بھی ایم  اے پولیٹکل سائنس سے ہیں، تو ان کا اکیڈمک نالج اب زیادہ آپ کو مدد فراہم کرے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اب ایوان کا منتر بن جائے گا۔ سبھی اراکین پارلیمنٹ کا –ہری کِرپا۔اب سب کچھ ہری بھروسے اور مجھے یقین ہے کہ ہم سبھی اُدھر ہوں یا اِدھر ہوں، سبھی ممبران پر ہری کرپا بنی رہے گی۔ یہ چناؤ ایسا تھا، جس میں دونوں طرف  ہری تھے، لیکن کے آگے بی کے تھا، یعنی بی کے ہری ۔ اِدھر ان کے پاس کوئی بی کے-وی کے نہیں تھا، لیکن میں بی کے ہری پرساد جی کو جمہوریت  کے وقار کے لے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ….اور سب کہہ رہے تھے کہ نتیجہ پتہ ہے، لیکن  اپنا کام کریں گے۔ تو کافی نئے لوگوں کی ٹریننگ بھی ہو گئی ہوگی، ووٹ ڈالنے کی۔

میں ایوان کے سبھی معززین کا، تمام معزز ارکان کا اس مکمل عمل کی بہت خوب طریقے سے آگے بڑٹھانے  اور نائب چیئر پرسن جی کو ، مجھے یقین ہے کہ ان کا تجربہ، ان کا سماج کے تئیں  وقف ہونا۔…ہریونش جی کی ایک خصوصیت تھی، انہوں نے  ایک کالم چلائی تھی اپنے اخبار میں کہ “ہمارا سانسد کیسا ہونا چاہئے”تب تو ان کو بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ ایم پی بنیں گے، تو ایم پی کیسا ہونا چاہئے، اس کے لئے بڑی مہم چلائی تھی۔ میں جانتا ہوں کہ ان کے جو خواب تھے ان کو پورا کرنے کے لئے ان کو بہت بڑا موقع ملا ہے کہ ہم سبھی ممبران پارلیمنٹ کو جو بھی ٹریننگ آپ کےذریعے سے ملے گی اور جس دشرتھ مانجھی جی کا چرچاآج  کبھی کبھی ہندوستان میں سنائی دیتا ہے، بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا، اُس دشرتھ مانجھی کی کہانی کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر پہلی بار کسی نے شائع کیا تھا، تو ہری ونش بابو نے شائع کیا تھا،  یعنی سماج کے بالکل نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ جڑا ہوا عظیم انسان  آج ہم لوگوں کی رہنمائی کرنے والے ہیں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More