16.7 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

’’زراعت 2022: کسانو ں کی آمدنی دوگنی کرنے ‘‘ سے متعلق قومی کانفرنس سے وزیراعظم کے خطاب کا متن

Urdu News

نئیدہلی۔ پورےملک سے آئے سائنسداں ، کسان بھائی اور یہاں موجود معزز حضرات ، ہم سبھی بہت ہی اہم اور نہایت سنجیدہ نیز بہت ہی ضروری موضوع پر تبادلہ خیال کیلئے آج یہاں جمع ہوئے ہیں۔

میں نے ابھی آپ لوگو ں کے مقالات سنے۔ آپ کے خیالات سے آگاہ ہوا۔ میں آپ کو ان کوششوں کیلئے ، اس غور خوض کیلئے مبارکباد دیتا ہوں۔ سچ ہے کہ زراعت ایک ایسا موضوع ہے جس نے ہزاروں سال قبل سے ہماری تہذیب کی آبیاری کی ہے، اسے بچایا ہے ، اسے مستحکم کیا ہے،  یہ بات ہمارے شاستروں میں لکھی ہے ۔

کرشی دھنیا ، کرشی میدھیا

جنتوناؤ ، جیونام کرشی

یعنی زرعی املاک اور ترقی دیتی ہے اور زراعت ہی انسانی زندگی کی بنیاد ہے۔ اس لئے جو موضوع اتنا پرانا ہے ، جس موضوع پر ہندوستانی تہذیب وثقافت  اور ہندوستانی نظام نے پوری دنیا کی رہنمائی کی ہے ، کھیتی کی تمام تکنیکوں سے  انہیں متعارف کرایا ہے۔ اس موضوع پر جب ہم بات کررہے ہیں تو تاریخ ، حال اور مستقبل تینوں کو ذہن میں رکھنا نہایت ضروری ہے۔

تاریخ میں ایسی باتیں ملتی ہیں جب باہر سے آئےلوگ ہندوستان کی کاشتکاری کو دیکھ  کر حیران رہ گئے تھے۔ اتنا ترقی یافتہ نظام ، اتنی ترقی یافتہ تکنیک، سائنسی طریقوں پر مبنی ہماری زراعت نے پوری دنیا کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ ہمارے یہاں گھاگھ اور بھٹری جیسے کسان کبھی بھی جنہوں نے کھیتی کے سلسلے میں موسم کو لیکر بہت اچوک پیش گوئیاں لکھی ہیں۔ لیکن غلامی لمبے دور میں یہ سارے تجربات زراعت  سے متعلق وضع کردہ ہمارے تمام نظام برباد ہوگئے۔

آزادی کے بعد ہمارے ملک کو کسان نے اپنا خود پسینہ بہاکر کھیتی کو پھر سے سنبھالا ۔ آزادی کے بعد دانے دانے کو محتاج رہے ہمارے کسانوں نے اناج کے معاملے میں ملک کو خود کفیل بنادیا ہے۔ گزشتہ تو سال تو ہمارے کسانوں نے محنت کرکے اناج اور پھل سبزیوں کی اتنی پیدوار کی جتنی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ ہمارے کسانوں کی صلاحیت ہے کہ صرف ایک سال  میں ملک میں دال کی پیداوار تقریباً 17 ملین ٹن سے بڑھاکر تقریباً 23 ملین ٹن کردی ہے۔

آزادی کے بعد کے اس سفر میں ایگریکلچر سیکٹر کا فروغ تو ہوا لیکن کسانوں کی ذاتی ترقی میں کمی آتی چلی گئی۔ کاشتکاری سے آمدنی دوسرے شعبوں کے مقابلے میں کم ہوئی تو آنے والی نسلوں نے کھیت میں ہل چلانا چھوڑ کر شہروں میں چھوٹی موٹی نوکریاں کرنے کو زیادہ بہتر سمجھا۔ ایک وقت ایسا آیاکہ ملک کو فوڈ سیکورٹی دینے والے کسان کی اپنی آمدنی کی سیکورٹی خطرے میں پڑ گئی۔ یہ حالات آپ کو معلوم ہے بلکہ بہت ممکن ہے کہ مجھ سے بھی کہیں زیادہ آپ کو معلوم ہو، لیکن میں پھر بھی صورتحال کے بارے میں آپ سے باتیں کررہا ہوں کیوں کہ جب بھی ہم پرانے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تو نئے راستے نکلتے ہیں۔ تبھی نئے اپروچ کے ساتھ کام کرنے کا طریقہ سوجھتا ہے۔ تبھی پتہ چلتا ہے کہ کیا کچھ پہلے ہوا جو متوقع نتیجہ نہیں دے پائے جسے مستقبل میں اصلاح کیے جانے کی ضرورت ہے۔ یہی تجزیہ کو بنیاد بناکر ملک میں کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے ایک ایسا نشانہ جس کاحصول پرانے ایپروچ سے ممکن نہیں تھا۔ ایک ایسا نشانہ جس کے حصول کیلئے پورے ایگریکلچر سیکٹر کی اوورہالنگ  کی ضرورت تھی۔

جب اس نشانے کو سامنے رکھ کر چھوٹے چھوٹے مسائل کو حل کرنا شروع کیا تو رفتہ رفتہ اس کی توسیع  ایک بڑی زرعی تحقیق میں تبدیل ہوتی ہوئی دیکھی جارہی ہے۔

ساتھیو، ہم سبھی نے کھیتوں میں دیکھا ہے کہ کئی بار جب بیل کو لمبی رسی سے کھوٹی میں باندھ دیا جاتا ہے تو وہ گول گھومتا رہتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ وہ چل رہا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ اس نے خود اپنا دائرہ باندھ لیا ہوتا ہے اور وہ خود اسی  میں دوڑتا رہتا ہے۔ ہندوستان کی زراعت کو بھی اسی طرح کے رشتوں سے آزادی دلانے کیلئے ایک بہت بڑی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوئی ہے۔

کسان کی ترقی ہو، کسان کی آمدنی بڑھے، اس کے لئے بیج سے بازار تک فیصلے لیے جارہے ہیں۔ پیداوار میں خود کفالت کے اس دور میں پورا اقتصادی نظام کسانوں کے حق میں بنانے کاکام کیاجارہا ہے۔ کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے موضوع پر تشکیل دی گئی بین وزارتی کمیٹی ، نیتی آیوگ  آپ جیسے متعدد سائنسدانوں، کسانوں اور ایگریکلچر سیکٹر  کے اسٹاک ہولڈروں کے ساتھ گہرے غور وخوض کے بعد حکومت نے ایک سمت طے کی ہے اور اس راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔

اس بجٹ میں کسانوں کو ان کی فصلوں کی واجب قیمت دلانے کیلئے ایک بڑےفیصلے کا  اعلان کیا ہے اور ہمارے پاشا پٹیل نے  جوش وخروش کے ساتھ اس کی تفصیلات بھی بیا ن کی ہے۔ اس کے تحت کسانوں کو ان کی فصلوں کا کم سے کم یعنی  لاگت اوپر 50 فیصد یعنی ڈیڑھ گنا قیمت  مقرر کی جائے گی۔ حکومت کم از کم امدادی قیمت کے اعلان کا پورا فائدہ کسانوں کو ملے ا س کے لئے ریاستی حکومتوں کے ساتھ ملکر کام کررہی ہے۔

پرانی جو خامیاں ہیں انہیں دور کرنا ہے۔ فول پروف  نظام تیار کرنا ہے ۔ بھائیو اور بہنو، کسانوں کی آمدنی بڑھانے کیلئے حکومت نے چار علیحدہ سطحوں پر فوکس کیا ہے۔

پہلا ۔ ایسے کون کون سے قدم اٹھائے جائیں جن سے کھیتی پر آنے والا ان کا خرچ کم ہو۔

دوسرا۔ ایسے کون سے قدم اٹھائے جائیں جن سے انہیں اپنی پیداوار کی واجب قیمت ملے۔

تیسرا۔ کھیت سے لیکر بازار تک پہنچنے کے درمیان فصلوں، پھلوں ، سبزیوں کی جو بربادی ہوتی ہے اسے کیسے روکا جائے اور  چوتھا ایسا کیا کچھ ہو جس سے کسانوں کی اضافی آمدنی کا ہم نظم کرسکیں۔ ہماری حکومت نے سارے پالیسی فیصلے ، سارے تکنیکی فیصلے، سارے قانونی فیصلے انہی چار سطحوں پر مبنی رکھے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ تکنیک کو اپنے فیصلوں سے جوڑا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ مثبت نتائج برآمد ہونے لگے ہیں۔

جیسے اگر یوریا کی نیم کوٹنگ کی بات کی جائے تو اس ایک فیصلے نے کسانوں کا خرچ کافی کم کردیا ہے۔ یوریا کی صد فیصد نیم کوٹنگ کی وجہ سے یوریا کی اہلیت بڑھی ہے اور یہ سامنے آرہا ہے کہ اب اتنی ہی زمین کیلئے کسانوں کو کم یوریا ڈالنا پڑتا ہے۔ کم یوریا ڈالنے کی وجہ سے پیسے کی بچت اور زیادہ پیداوار کی وجہ سے زیادہ کمائی ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی یوریا کی نیم کوٹنگ سے آرہی ہے۔

بھائیو اور بہنو،

اب تک ملک میں 11 کروڑ سے زائد کسانوں کو سوائل ہیلتھ کارڈ دیا جاچکا ہے۔ سوائل ہیلتھ کارڈ کی وجہ سے اناج کی پیداوار بڑھی ہے۔ کسانوں کو اب پہلے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مٹی میں کس چیز کی کمی ہے ، کس طرح کی کھاد کی ضرورت ہے۔ ملک کی 19 ریاستوں میں ہوئی ایک اسٹڈی میں سامنے آیا ہے کہ سوائل ہیلتھ کارڈ کی بنیاد پر کھیتی کرنے کی وجہ سے کیمیکل فرٹیلائزر کے استعمال میں آٹھ سے دس فیصد تک کی کمی آئی ہے اور پیداوار میں  پانچ سے چھ فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔

لیکن دوستو، سوائل ہیلتھ کارڈ کا پورا فائدہ تبھی مل پائے گا جب ہر کسان اس کارڈ سے ملنے والے فائدے کو سمجھ کر اس کے حساب سے اپنی کھیتی کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس کا پورا ارضیاتی نظام ڈیولپ ہوجائے گا۔  میں چاہوں گا کہ سوائل ہیلتھ  ٹیسٹنگ اور ا س کے نتیجے کی بنیاد پر کسان  کو فصل اور پیکیج آف پروڈکٹ کی ٹریننگ کے ماڈیول کو ہماری ایگریکلچر یونیورسٹی میں  بی ایس سی ایگریکلچر کے کورس سے جوڑا جائے۔ اس ماڈیول  کو ہنرمندی کے فروغ سے بھی  جوڑا جاسکتا ہے۔

جو طالب علم یہ کورس پاس کریں گے انہیں ایک خاص سرٹیفکٹ دینے پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ اس سرٹیفکٹ کی بنیاد پر طالب علم اپنی سوائل ہیلتھ ٹیسٹ لیب گاؤں کے اندر کھول سکتا ہے۔ انہیں مدرا یوجنا کے تحت لون بھی ملے گا ۔ اس طرح کے نظام کے بارے میں سوچا جانا چاہئے۔ مستقبل میں جب  تمام تجربہ گاہیں سینٹرل ڈاٹا بیس سے کنکٹ ہوں گی تو سوائل ہیلتھ کے  اعداد وشمار سینٹرل پورٹل پر دستیاب ہوں گے تو  سائنس داں اور کسان دونوں کو بہت آسانی ہوگی۔ سوائل ہیلتھ کارڈ کے  اس سینٹرل  پول سے   معلومات حاصل کرکے ہمارے زرعی سائنس داں مٹی کی صحت، پانی کی دستیابی اور آب وہوا کے بارے میں کسانوں کو  معقول معلومات فراہم کرسکیں گے۔ اس طرح کا نظام  فروغ دیا جانا چاہئے۔

دوستو! ہماری حکومت نے  ملک کی زرعی پالیسی کو  نئی سمت دینے کی کوشش کی ہے۔ اسکیموں کے نفاذ کا طریقہ بدلا  ہے ،  اس کی مثال ہے پردھان منتری کرشی  سینچائی یوجنا۔ اس کے تحت دو علیحدہ علاقوں پر ایک ساتھ کام کیا جارہا ہے۔ فوکس ملک میں چھوٹی آب پاشی کا دائرہ بڑھانے اور دوسرا  آب پاشی کا موجودہ نیٹ ورک ہے اسے مستحکم کرنا ہے۔

 اس حکومت نے طے کیا ہے کہ دو –دو، تین-تین دہائیوں سے اٹکی ملک کی  99 آب پاشی اسکیموں کو مقررہ مدت میں مکمل کرلیا جائے۔ اس کے لئے  80 ہزار کروڑ روپے سے زائد کا التزام کیا گیا ہے۔ یہ حکومت کی مسلسل کوششوں کا ہی اثر ہے  کہ اس سال کے آخر تک تقریبا 50 اسکیمیں پوری ہوجائیں گی اور باقی اسکیمیں آئند ہ سال تک پورا کرلینے کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے۔

مطلب جو کام 25 سے 30 سال سے اٹکا ہوا تھا وہ ہم 25 سے 30 مہینوں میں پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پوری ہوتی ہر آب پاشی اسکیم ملک کے کسی نہ کسی حصے میں کسان کا کھیتی پر ہونے والا خرچ  کم کررہی ہے۔ پانی کے تعلق سے اس کی فکر میں کمی آرہی ہے۔ پردھان منتری کرسی سینچائی یوجنا کے تحت اب تک 20 لاکھ ہیکٹئر سے زائد اراضی کو بھی مائیکرو اریگیشن کے دائرے میں لایا  جا چکا ہے۔

ایگریکلچر سیکٹر میں بیمہ کی کیا حالت تھی، اس سے بھی آپ اچھی طرح واقف ہیں۔ کسان اپنی فصل کا بیمہ کرانے جاتا  تھا تو اسے زیادہ پریمیم دینا پڑتا تھا۔ فصل بیمہ کا دائرہ بہت ہی چھوٹا تھا۔ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے تحت ہماری حکومت نے  نہ صرف پریمیم کو کم کیا بلکہ انشورنس کا دائرہ بھی ہم نے بڑھادیا ہے۔

 دوستو! مجھے بتایا گیا کہ  پچھلے سال اس یوجنا کے تحت 11 ہزار کروڑ روپے  کے کلیم کی رقم کسانوں کو دے دی گئی ہے۔ اگر فی کسان  یا  فی ہیکٹئر دی گئی کلیم کی رقم کو دیکھا جائے تو  یہ قبل کے مقابلے میں دوگنی ہوئی ہے۔ یہ اسکیم کتنے کسانوں کی زندگی بچارہی ہے، کتنے کنبوں کو بچارہی ہے، یہ کبھی ہیڈ لائن نہیں بنے گی، کوئی دھیان نہیں دے گا۔ اس لئے ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ زیادہ سے زیادہ کسانوں کو  اس یوجنا سے جوڑیں۔

 سرکار اب اس نشانے کے ساتھ کام کررہی ہے کہ سال 2018-19 میں کم سے کم  50 فیصد بوئی گئی فصل اس اسکیم کے دائرے میں ہو۔ بھائیوں اور بہنوں ہماری حکومت ملک کے زرعی شعبے میں ایک مارکیٹ آرکیٹکچر فروغ دے رہی ہے۔ کسانوں کو اور زیادہ  فائدہ اسی وقت ہوگا جب کوآپریٹو فیڈرلزم کے جذبے پر چلتے ہوئے مرکز اور ریاستی حکومت مل کر فیصلے لیں۔

اب اس لئے کسان کے مفاد سے جڑے ہوئے  ماڈرن ایکٹ بناکر ریاستی حکومتوں سے  انہیں نافذ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ زرعی پیداوار اور  لائیو اسٹاک مارکیٹنگ سے جڑا ہوا ایک لینڈ لیز ایکٹ ہو، ویئر ہاؤسنگ گائڈ لائنس میں نرم کاری ہو، ایسے کتنے ہی قانونی فیصلوں کے  ذریعے سے ہماری حکومت کسانوں کو  بااختیار بنانے کے لئے کام کررہی ہے۔

 2022 تک کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لئے مرکز اور ریاست کو مل کر کام کرنا ہی ہوگا۔ کھیت سے نکل کر بازار تک پہنچنے سے پہلے کسانوں کی پیداوار برباد نہ ہو اس کے لئے  کسان پیداوار  اسکیم کے تحت کام کیا جارہا ہے۔ خصوصی توجہ زرعی شعبے کو مستحکم کرنے پر ہے۔ ڈرائی اسٹوریج، کولڈ اسٹوریج، ویئر ہاؤسنگ کے ذریعے پوری سپلائی چین کی اصلاح کی جارہی ہے۔

 اس بجٹ میں جس آپریشن گرین کا اعلان کیا گیا ہے، وہ سبھی سپلائی چین نظام سے  منسلک ہیں۔ یہ  پھل اور سبزیاں پیدا کرنے والے کسانوں کے لئے بہت  مفید ثابت ہوں گے، جیسے  ملک میں دودھ کے شعبے میں امول ماڈل بہت کامیاب رہا، لاکھوں کسانوں کی آمدنی بڑھانے والا رہا، اسی طرح آپریشن گرین بھی  ٹاپ یعنی ٹومیٹو، اونین  اور پوٹیٹو ، کو اگانے والے کسانوں کے لئے مفید رہے گا۔

 دوستو! رول اور ریٹرن مارکیٹ یا گاؤں کی مقامی منڈیوں کا ہول سیل مارکیٹ یعنی  اے پی ایم سی اور پھر گلوبل مارکیٹ تک انٹریگریشن کیا جانا نہایت ضروری ہے۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ انگریزوں کے وقت  کمیشن بنا تھا اس میں بھی یہی سفارش کی تھی کہ کسانوں کے لئے ہر پانچ چھ کلو میٹر پر  ایک مارکیٹ ہونا چاہئے۔ 100 سال قبل جو چیز سوچی گئی تھی اب  س پر عمل کرنے کا فخر مجھے حاصل ہوا ہے۔ اس بجٹ میں گرامین ریٹیل ایگریکلچر مارکیٹ یعنی گرام (جی آر اے ایم)  کی سوچ اسی کا نتیجہ ہے۔ اس کے تحت ملک کے 22 ہزار گرامین ہاتھوں کو  ضروری بنیادی ڈھانچے کے ساتھ اپ گریڈ کیا جائے گا اور پھر انہیں اے پی ایم سی کے ساتھ مربوط کردیا جائے گا۔ یعنی  ایک طرح سے اپنے کھیت کے 5-10-15 کلو میٹر کے دائرے میں کسانوں کے پاس ایسا سسٹم ہوگا جو اسے ملک کی کسی بھی مارکیٹ کے ساتھ جوڑ سکے گا۔ کسان ان گرین ہاٹوں پر بھی اپنی پیداوار  براہ راست صارفین کے ہاتھوں فروخت کرسکیں گے۔

 آئندہ دنوں میں یہ سینٹر کسانوں کی آمدنی بڑھانے، روزگار اور زراعت پر مبنی گرامین زرعی معیشت کے نئے پاور ہاؤس بنیں گے۔ اس حالت اور مضبوط کرنے کے لئے  سرکار  فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشن- ایف پی او کو فروغ دے رہی ہے۔ کسان اپنے علاقے میں اپنی سطح پر  چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بناکر بھی  گرامین ہاٹوں  اور بڑی منڈیوں کے ساتھ جڑ سکتے ہیں۔ اس طرح کی تنظیموں کا  رکن بننے وتھوک میں خرید وفروخت کرپائیں گے اور اس طرح اپنی آمدنی بھی بڑھاپائیں گے۔

 اس بجٹ میں حکومت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ  فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشن، کوآپریٹو سوسائٹیوں کی طرح  بھی انکم ٹیکس میں چھوٹ پائیں گی۔ خاتون سیلف ہیلپ گروپوں کو  ان فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشن کی مدد سے آرگنیک،  ایرومیٹک اور  ہربل کھیتی کے ساتھ جوڑنے کی اسکیم بھی کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں  بھی اہم قدم ثابت ہوگی۔

 دوستو! آج کے وقت کی مانگ ہے کہ ہم سبز انقلاب اور سفید انقلاب کے ساتھ ساتھ  آبی انقلاب، بلیو انقلاب، سوئیٹ انقلاب اور  آرگینک انقلاب کو بھی  ہمیں اس کے ساتھ مربوط کرنا ہوگا۔ یہ وہ شعبے ہیں جو کسانوں کے لئے اضافی آمدنی اور  آمدنی کے  اصل ذرائع دونوں ہی ہوسکتے ہیں۔ نامیاتی کھیتی مدھو مکھی پروری ، سی ویڈ کی کھیتی،  سولر فارم ایسے تمام جدید  متبادل بھی ہمارے کسانوں کے سامنے ہیں۔ ضرورت انہیں زیادہ سے زیادہ بیدار کرنے کی ہے۔

 میری اپیل ہوگی کہ ان کے بارے میں اور خصوصی طور پر روایتی اور آرگینک کھیتی کے بارے میں جانکاری دینے کے لئے  ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم شروع کیا جائے۔ اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے سے  مارکیٹ ڈیمانڈ،  بڑے کسٹمر،  سپلائی چین کے بارے میں کسانوں کو  نامیابی کھیتی سے متعلق معلومات مہیا کرائی جاسکتی ہے۔ کھیتی کے ان ذیلی شعبوں میں کام کرنے والے کسانوں کو  قرض ملنے میں مزید آسانی ہو، اس کے لئے بھی حکومت کام کررہی ہے۔ اس بجٹ میں 10 ہزار کروڑ روپے کی رقم سے ، خاص طور سے ماہی پروری اور  میویشی پروری کو  ذہن میں رکھتے ہوئے دو بنیادی ڈھانچہ جاتی فنڈ تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کسانوں کو علیحدہ علیحدہ اداروں اور بینکوں سے  قرض ملنے میں دشواری نہ ہو اس کے لئیے گزشتہ تین سالوں کے دوران  قرض دی جانے والی رقم ساڑھے آٹھ لاکھ کروڑ  روپے سے بڑھاکر اب 11 لاکھ کروڑ روپے کردی گئی ہے۔

 کسانوں کو قرض کے لئے رقم مہیا کرانے کے ساتھ ہی حکومت یہ بھی یقینی کررہی ہے کہ انہیں وقت پر قرض ملے اور معقول رقم کا قرض ملے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ چھوٹے کسانوں کو کوآپریٹو سوسائٹیز سے  قرض لینے میں دشواری ہوتی ہے اس لئے ہماری حکومت نے طے کیا ہے کہ وہ  ملک کی  تمام پرائمری ایگریکلچر کوآپریٹو سوسائٹیوں کی کمپیوٹر کاری کریں گی۔ آئندہ دو برس میں جب ایسی  63 ہزار سوسائٹیوں کی کمپیوٹر کاری کا عمل مکمل ہوگا تو قرض دینے کے عمل میں مزید شفافیت آیئے گی۔

 جن دھن یوجنا اور کسان کریڈٹ کارڈ کے ذریعے بھی کسانوں کو  قرض دئے جانے کی راہ آسان بنائی گئی ہے۔ دوستو! جب مجھے بتایا گیا کہ دہائیوں قبل ایک قانون میں بانس کو  پیڑ کہہ دیا گیا اور اسے بغیر  منظوری کے کاٹا نہیں جاسکتا۔ بغیر منظوری کے اسے کہیں لے نہیں جایا سکتا، تو میں حیرت میں پڑ گیا ۔ سب کو معلوم تھا کہ  بانس کی تعمیرات کے شعبے میں کیا اہمیت ہے۔ فرنیچر بنانے میں دستکاری کی اشیاء بنانے میں،  اگربتی میں، پتنگ بنانے میں، اور ماچس میں بھی بانس کا استعمال ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں بانس کانٹنے کی اجازت لینے کا عمل اتنا پیچیدہ تھا کہ کسان اپنی اپنی زمین پر بانس لگانے سے گریز کرتا تھا۔ اس قانون کو ہم نے بدل دیا ہے۔ اس  فیصلے سے بانس بھی کسان کی آمدنی بڑھانے میں معاون ثابت ہوگا۔

ایک اور تبدیلی کی جانب ہم بڑھ رہے ہیں اور یہ تبدیلی ہے، ایگرو اسپیسیز (زرعی قسم میں  ) سے متعلق ہے۔ دوستو! ہمارے ملک میں عمارتی لکڑی کی جتنی پیداوار ہوتی ہے وہ  ہمارے ملک کی ضرورتوں سے بہت کم ہے۔ سپلائی اور ڈیمانڈ کے درمیان کا فرق اتنا زیادہ ہے  اور پیڑوں کے تحفظ کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومت اب  پیڑ وں کی کثیر مقصدی قسموں کی شجر کاری پر زیادہ زور دے رہی ہے۔ آپ سوچئے! کسان کو اپنے کھیت میں ایسے پیڑ لگانے کی آزادی ہو جسے وہ  پانچ سال ، 10 سال ، 15 سال میں اپنی ضرورت کے مطابق کاٹ سکے، اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاسکے تو  اس کی آمدنی میں کتنا اضافہ ہوگا۔

 ہر میڑھ پر  پیڑ کا نظریہ کسانوں کی بہت بڑی ضرورت کو پورا کرے گا اور اس سے ملک کی آب وہوا کو بھی فائدہ ہوگا۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک کی 22 ریاستیں اس قانون سے متعلق تبدیلی کو اپنے یہاں نافذ کرچکی ہیں۔ زرعی شعبوں میں شمسی توانائی کا زیادہ سے زیادہ استعمال بھی کسانوں کی آمدنی بڑھائے گا۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے گزشتہ تین سال کے دوران حکومت نے تقریبا  پونے تین لاکھ سولر پمپ  کسانوں کے لئے منظور کئے ہیں۔ اس کے لئے تقریبا ڈھائی ہزار کروڑ روپے کی رقم منظور کی گئی ہے۔ اس سے ڈیزل پر  ہونے والے ان کے خرچ میں کافی بچت ہوگی۔

اب حکومت کسانوں کو  گرڈ کنکٹیڈ سولر پمپ دینے  کی سمت میں بڑھ رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ جو بجلی کی پیداوار ہو وہ کسانوں کو  اقتصادی طور پر  زیادہ مدد کرے۔

دوستو! کھیتوں سے زیادہ بائیو پروڈکٹ نکلتا ہے، وہ بھی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ پہلے اس سلسلے میں بھی نہیں سوچا گیا  لیکن ہماری حکومت زرعی فضلات سے ویلتھ بنانے پر بھی کام کررہی ہے۔ یہاں موجود  زیادہ تر لوگ ایسے ہی  بربادی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ یہ بربادی ہوتی ہے کیلے کے پیڑ کی، کیلے کی پتیاں کام آجاتی ہیں، پھل بک جاتے ہیں، لیکن اس کا جو تنا ہوتا ہے وہ کسانوں کے لئے مسئلہ بن جاتا ہے۔ کئی بار کسانوں کو ہزاروں روپے ان تنوں کو کاٹنے یا ہٹانے میں خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے بعد ان تنوں کوکہیں سڑک کے کنارے ایسے ہی پھینک دیا جاتا ہے جبکہ یہی تنا انڈسٹریل پیپر بنانے کے کام میں، فیبرک بنانے کے کام میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

 ملک کے الگ الگ حصوں میں جب اس طرح کی مہم زور پکڑ رہی ہے جو  اگریکلچر ویسٹ سے  ویلتھ کے لئے کام کررہی ہیں، کوائر ویسٹ ہو،  ناریل کے کھول  ہوں، بانس کے فضلات ہوں، فصل کاٹنے کے بعد کھیت میں بچے باقیات ہوں ان سبھی سے  آمدنی بڑھ سکتی ہے۔

 اس بجٹ میں حکومت نے  گئو وردھن یوجنا کا اعلان بھی کیا ہے ۔ یہ اسکیم گاؤں میں صفائی ستھرائی کو بڑھانے کے ساتھ ہی  گاؤں میں نکلنے والے  بائیو گیس سے  کسانوں اور  مویشی پالنے والوں کی آمدنی بڑھانے میں مدد کرے گی۔ بھائیوں اور بہنوں ایسا نہیں ہے کہ صرف بائیوپروڈکٹ سے ہی ویلتھ بن سکتی ہو۔ جو اہم فصلیں ہیں، اصل پیداوار ہے کئی اس کا بھی علیحدہ علیحدہ استعمال کسانوں کی آمدنی بڑھاسکتا ہے۔ جیسے  گنے سے  ایتھنول کی پیدوار۔ ہماری حکومت نے  ایتھنول سے متعلق پالیسی میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے اب  پیٹرول میں ایتھنول کی 10 فیصد آمیزش کو منظور ی دے دی ہے۔ یعنی چینی سے   متعلق  ڈیمانڈ پوری کرنے کے بعد جو گنا بچے گا وہ ایتھنول کی پیداوار کے لئے استعمال کیا جاسکے گا۔ اس سے  گنا کسانوں کی حالت بہتر ہوئی ہے۔

 ملک میں زرعی شعبہ کس طرح سے آپریٹ کرتا ہے ، ہماری حکومت اس نظام کو  تبدیل کررہی ہے۔ زریعی شعبے میں ایک نیا کلچر قائم کیا جارہا ہے ۔ یہ کلچر ہمارے خوشحال،  ہمارے وسائل، ہمارے خوابوں کے ساتھ انصاف کرنے والے ہوں گے۔ یہی کلچر 2022 تک ’’سنکلپ سے سدھی‘‘ کے ہمارے سفر کو پورا کرے گا۔ جب ملک کے گاؤں کی ترقی ہوگی تبھی  ہندوستان کی بھی ترقی ہوگی ۔ جب ملک مضبوط ہوگا تو ملک کے کسان خود بخود بااختیار ہوجائیں گے۔

اس لئے  آج جو میں نے پرزنٹیشن دیکھے ہیں یہ ہمارے پاشا پٹیل کو یہ شکایت تھی کہ اس کو   8 ہی منٹ ملے  ہیں۔ میں ان کو گھنٹے دیتا رہتا ہوں لیکن جو خیالات میں نے سنے ہیں یہ صحیح  ہے یہاں کچھ ہی وقت میں ساری باتیں بتادی گئی ہیں لیکن آپ نے جو محنت کی ہے  اس کے قبل آپ لوگوں سے رابطہ قائم کرکے جو معلومات حاصل کی ہے ۔ چھوٹے  گروپوں  میں یہاں  آنے سے قبل ان کا تجزیہ کیا ہے، ایک طرح سے کافی لوگوں کو جوڑ کرکے اس میں کچھ نہ کچھ امرت نکلا ہے۔ آپ کی محنت کا ایک پل بھی برباد نہیں ہونے دیا جائے گا۔ آپ کی سفارشات کو بھی اتنی ہی سنجیدگی سے  ہر سطح پر  حکومت میں جانچا پرکھا جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ  فوری طور پر ہوپائے کچھ بعد میں ہوپائے۔ لیکن یہ محنت کرنے کے پیچھے ایک واضح کوشش رہی تھی کہ جب تک ہماری  حکومت  دائرے میں سوچنے کے طریقے کو بدلنا ہے، کسی کی بنیادی باتوں کو سمجھنا ہے تو جولوگ زمین کے ساتھ جڑے ہیں، ان سے ہم جڑیں گے تو شائد عملی چیزوں کو لے پائیں۔ اس لئے پورے ملک میں یہ کوشش کرکے آپ سب تجربہ کار لوگوں کے ساتھ صلاح ومشورہ کے بعد یہ کوشش کی ہے۔

 دوسری بات ہے، میں چاہوں گا کہ اس کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔ پہلے تو حکومت ہند کے تمام محکمے  جو ان سے متعلق ہیں، ان سبھی کے افسران یہاں موجود ہیں، کئی ان سے متعلق وزراء بھی یہاں موجود ہیں، ان تمام تجاویز پر  نیتی آیوگ کی قیادت میں وزارتوں کے مابین تال میل کیسے قائم ہو۔ ان کے ساتھ غور وفکر ہو اور قابل عمل نکتے کیسے نکالے جاسکتے ہیں، ترجیحات کیسے طے کی جاسکتی ہیں، وسائل کی وجہ سے کوئی کام اٹکتا نہیں یہ میرا خیال ہے۔

دوسرا جیسے ہم سب مانتے ہیں کہ ہمیں  پرانی روایتوں سے باہر نکلنا ہے، ہمیں ٹیکنالوجی اور سائنس کو قبول کرنا ہوگا اور جس سائنس کی وجہ سے بربادی آئی ہے  اس سائنس سے  آزادی حاصل کرنی پڑے گی۔ اسی وقت ضروری ہوگا لیکن اگر وہ مصیبت بن گیا ہو تو اس کو پکڑ کر چلنے کی ضرورت نہیں ہے اس سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے لئے الگ سے کوشش کرنی ہوگی۔ میں چاہوں گا کہ جیسے اسٹارٹ اپ کا موضوع آیا ہے، ایسی چیزوں پر ہماری زرعی یونیورسٹیاں،  ان میں اس موضوع پر توجہ مرکوز کرکے کوئی کام ہوسکتا ہے کیا۔ اسی طرح سے یہاں جتنے موضوعات سامنے آیے ہیں ، کیا  زراعت کے مضمون کے طالب علم کے لئے  ہم  ہکاتھون جیسے پروگرام کرسکتے ہیں کیا۔

 اور وہ بیٹھ کر کہ پچھلے دنوں میں نے جو حکومت کے چار سو مسائل کو لے کر اپنے ملک کے انجینئرنگ کالج کے طلباء کے ساتھ جن کے لئے  ہیکاتھون کا پروگرام کیا تھا اور 50-60 ہزار طلباء نے یہ موضوع لیا تھا اور بلا رکے 36-36 گھنٹے بیٹھ کر انہوں نے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا تھا اور حکومت کو مشورہ دیا تھا، اس میں سے کئی محکموں کے مسائل کو حل کیا گیا، جو سرکار کو  برسوں سے معلوم نہیں تھے۔ ہمارے ان نوجواجوں نے ٹیکنالوجی کے ذریعے سے  عمل کو درست کرنے کا کام کیا۔

 میں چاہوں گا کہ ہماری ایگریکلچر یونیورسٹیاں ہیکاتھون کریں۔ اسی طرح سے ہماری آئی آئی ٹی ہوں یا  آئی آئی آئی، آئی ٹی ہو یا ہمارے اہم انجینئرنگ کالج ہوں ، وہ کیا ایک ہفتہ یا 10 دن،  آج کل  ہر کالج روبوٹ کے لئے ہفتہ مناتا ہے۔ دو آئی آئی ٹی ہماری آئی آئی ٹی یا ہمارے اہم انجینئرنگ کالج پورے ملک میں تھیماٹک گروپ میں ان کو ایگریٹک سے متعلق 10 دن کا ایک اتسو منائیں۔ تمام ٹیکنالوجی  برین مل کر ہندوستان کی ضرورتوں کے مطابق غو ر وخوض کریں اور ان کے درمیان کیا ہم مسابقت کی کوشش کرسکتے ہیں۔

 اب پھر اس کو آگے لے جائیں۔ اسی طرح سے جو  موضوع جن کا  میں نے اپنی تقریر میں بھی ذکر کیا ہے۔ ہم  سوائل ہیلتھ کارڈ اب آج دیکھے ہم بلڈ ٹسٹ کروانے کے لئے  لیبورٹری میں جاتے ہیں، پیتھولوجی لیباریٹری  ، اپنے  آپ میں ایک بڑا بزنس بن گیا ہے۔ پرائیویٹ پیتھولوجی لیبارٹری ہوتی، کیو ں نہ گاؤں گاؤں میں ہماری مٹی  کی جانچ کی لیب ہو یہ ممکن ہے۔ اس کے لئے  سرٹیفکٹ ہو، ہماری یونیورسٹی میں اور ان لوگوں کے لئے  مدرا یوجنا سے  پیسے ملیں، ان کو  ٹیکنالوجی آلات  دستیاب کرائے جائیں  تو ہر کسان کو لگے گا کہ بھائی چلو  کھیتی میں جانے سے پہلے  ہم  اپنی مٹی کی پوری جانچ کرالیں اور ہم اس کی رپورٹ لیں۔ ہم  اس نظام کو  فروغ دے سکتے ہیں اور اس سے ملک میں اگر ہم گاؤں گاؤں میں  سوائل ٹیسٹنگ لیب کو بدل دیتے ہیں تو لاکھوں ایسے نوجوانوں کو روزگار مل سکتا ہے اور وہ  ایک طرح سے  گاؤں کی زرعی سرگرمی میں سائنسی  ٹمپرامنٹ کے لئے  بڑا کیٹرک ایجنٹ بن سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم کام کریں۔

 پانی کے سلسلے میں بھی جیسے  مٹی کی جانچ کی ضرورت ہوتی ہے، پانی  کی جانچ بھی ہمیں  اسی لیب میں دھیرے دھیرے کرنا چاہئے۔ کیونکہ کسان کو  اتنی طرح، اسی طرح سے جیسے وہ  جہاں سے بیج لیتا ہے، وہاں سے پوری زندگی وہ بیج لیتا ہے، اس کو پتا ہی نہیں ہوتا ہے، وہ کہتا ہے کہ میں پچھلی کپڑے والے پیکٹ میں بیج لے گیا تھا، اس بار مجھے کپڑے والا ہی بیج چاہئے، پولیتھین کے پیکٹ والا بیج نہیں چاہئے۔

اس کو گائڈ کرنے کے لئے آج ڈیجیٹلی ایمینیشن کے ذریعے اس کو سمجھایا جاسکتا ہے جو اس کو موبائل میں آئے گا۔ اگر اس کو بیج خریدنے جانا ہے تو اس کو بتادو کہ  ان چھ باتوں کو  ذہن میں رکھے پھر بیج خریدے۔ تو وہ سوچے گا   اور 10 سوال پوچھنا شروع  کردے گا۔

 ہم مواصلات میں، وہاں گجرات میں، سارے ہندوستان میں آج جتنی آبادی ہے اس سے زیادہ موبائل فون ہیں، ڈیجیٹل کنکٹی ویٹی ہے، ہم  ایمینیشن کے ذریعے ان باتوں کو کسانوں تک کیسے پہنچاسکیں، ان سارے معاملے کو اگر ہم لے جاسکتے ہیں، میں مانتا ہوں کہ ہم بہت بڑا بدلاؤ اس سے لاسکتے ہیں۔ تو انہیں ہی چیزوں کو  لے کر کے اور جتنے بھی مشورے ہیں، جیسے اب مویشی پروری کا  موضوع آیا ہے، ان سارے  موضوعات کے تعلق سے  کوئی قانون نہیں ہے، جیسا بتایا گیا ہے۔

 میں ضرور چاہوں گا کہ محکمہ اسے دیکھے اور اس  قسم کے قانون بنائے تاکہ ان چیزوں کو طاقت بھی ملے اور جو برائیاں ہیں، ان سے  آزادی بھی ملے اور  ایک معیاری نظام  وضع ہو، تو جتنے مشورے آئے   ہیں وہ میرے لئے بھی  ایجوکیٹنگ تھا۔ مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ ان موضوعات کے  بارے میں مجھے جاننے کی خواہش بھی رہی ہے۔ لیکن آج ایک بار میرے لئے نئی تھی، آپ کے لئے بھی مفید ہوگی۔ یہاں تک کہ  ہمارے محکمے کے لوگوں کے لئے بھی مفید ہوگی اور ضرور میں سمجھتا ہوں کہ غور وفکر مفید ہوگا۔

 کیا کبھی یہ جو ہمارے پرنزنٹیشن ہم نے تیار کئے ہیں اور جو  حقیقی  شعبے میں کام کرنےو الے کسان ہیں یا  جن کی  اس معاملے میں مہارت ہے ، ریاستوں میں جاکر ، ریاستوں کے کسانوں سے مل کر ایسے ہی  دو دن کا ایونٹ ہم وہاں بھی کرسکتے ہیں، اگر وہاں بھی اسی خطوط پر ، اسی لائن پر ایکسرسائز کریں کیونکہ ایک تجربہ ، ایک ریاست میں چلتا ہے وہی تجربہ ہمارے ملک کی دوسری ریاست میں نہیں چل سکتا ہے، یہ  خیال   کسان کے دماغ میں گھر کر گیا ہے۔ دوسری ریاست میں اس سلسلے میں دوسرا نظریہ ہے۔

 اس لئے ہم  ایگرو کلائمیٹک زون کے حساب سے کہیں یا ریاست کے اعتبار سے کہیں جو  بھی ہمیں ٹھیک لگے، ہم  اس سمت میں اس کو ایک قدم آگے بڑھائیں تو میں سمجھتا ہوں یہ  قدم مفید ہوگا۔ تیسرا ان ساری وجوہات سے اوپر تمام یونیورسٹیاں بحث مباحثہ کرسکتی ہیں، کم از کم آخری سال یا  کوئی ایک سال وہاں کے طلباء مل کر  جب تک غور وفکر نہیں کرتے ہیں تو نچلی سطح تک ہم  اس نظریئے کو  پہنچائیے بغیر  نچلی  سطح تک نہیں جاسکتے، تب اس کا نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اس لئے اس چیز کو آگے بڑھانے کا ایک روڈ میپ، جس میں یونیورسٹیاں ہوں، طلباء ہوں اور جس میں مہارت ہو، ہوسکتا ہے کہ سارے  موضوع کچھ مقامات کے لئے مفید نہ ہوں، جہاں پر ان کی ضرورت نہیں لیکن جہاں ضرورت ہے وہاں کیسے مفید نہیں ہوسکتے۔

 یہاں ایک بات کی ہم لوگ وضاحت  نہیں کرپایے ہیں وہ ہے، ویلیو ایڈیشن کی۔ میں سمجھتا ہوں کبھی نہ کبھی ہمارے کسانوں کو ویلیو ایڈیشن ملے گا، یہ میرا اپنا تجربہ ہے۔ گجرات میں ہم نے جب  جیوتی گرام یوجنا  کی شروعات کی تھی تو 24 گھنٹے بجلی ملتی تھی۔ ہمارے ملک میں یہ ایک انقلابی واقع  مانا جائے گا کہ 24 گھنٹے بجلی ملے۔ تو ہم  جب بجلی  کی لانچنگ کرتے تھے تو گاؤں والوں کے لئے  اس بجلی کا کیا استعمال ہوتا تھا، صرف دیکھنا ہوتا تھا کیا، کیا رات کو اجالا ہو اتنا ہی ہے۔ اس میں سے ان کی زندگی میں بدلاؤ لانے کے لئے کیا کرنا چاہئے وہ سمجھانے کے لئے بہت بڑا ایونٹ بھی  اس  کے ساتھ آرگنائز کرتے تھے۔

 گاندھی نگر کے پاس ایک گاؤں ہے، وہاں مرچ کی کھیتی ہوا کرتی ہے۔ اب ہمارے ملک کو یہ مصیبت ہے کہ جب مرچ کریں گے تو سارے کسان مرچ کی ہی  کھیتی کریں گے تو دام گر جاتا ہے، تو اس پورے گاؤں کی ساری مرچیں بیچیں تو پورے گاؤں کو تین لاکھ سے زیادہ انکم نہیں ہوتی تھی، یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ گاؤں نے  کیا کیا، انہوں نے کہ بھائی اب تو 24 گھنٹے بجلی ملنے والی ہے ، ہم ایک چھوٹی سی سوسائٹی بنالیں اور آگے بڑھتے ہیں۔ انہوں نے فوری طور پر  ایک چھوٹی سی سوسائٹی بنائی اور فورا بجلی کا کنکشن لیا۔ انہوں نے مرچی کو لال بنانے تک اس کی ساری پروسیسنگ کی  پھر لال مرچی کا پاؤڈر بنانے کے لئے  پروسیسر لے آئے، اس کی پیکیجنگ کی ، جو مرچی ان کی تین لاکھ میں جانے والی تھ، گاؤں کا کسان مرنے والا تھا، تین چار مہینے کی پلانگ کی  اتنی جو کمی رہ گئی  رہ گئی، لیکن تین چار مہینے کے بعد  وہی مرچ 18 لاکھ روپے کی انکم کرکے لے آئی۔

 کہنے کا میرا مطلب یہ ہے کہ ویلیو ایڈیشن کے سلسلے میں کسانوں کو  آسانی کے ساتھ بتائیں۔ یہ بات درست ہے کہ دنیا میں جس تیزی سے یہاں ایکسپورٹ- امپورٹ کی بات ہوئی ہے بہت بڑی بات ہے،  اب کوئی طے کرے گا کہ  کتنے مختصر طور پر آپ ویلیوایڈیشن لائے ہو۔

اب ہندوستان جیسے وسیع ملک کے ایک کونے میں پیداوار ہوئی ہو، بندرگاہ تک لے جائے تو اتنا ٹرانسپورٹیشن کا خرچ ہوگا پھر بھی وہ اس لئے کہ ریجکٹ ہوجائے گا تب  آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں ایسی ایسی چیزیں چلتی ہیں کہ ہندوستان کی اگر دری اچھی قیمت میں بکتی ہے تو کوئی اس میں ایک پونچھ لگادے گا کہ یہ تو چائلڈ لیبر کے ذریعے بنائی گئی ہے، سب ختم۔ دنیا میں ویاپار ختم، ایسی ایسی چیزیں آتی ہیں تو ہمیں  کاغذای کارروائی پرفیکٹ کرنی ہوگی۔ ہمارے کسانوں کو سمجھنا ہوگا کہ ان دنوں مجھے دنیا کے کئی ملکوں سے اس بات کے لئے لڑنا پڑرہا ہے ، ان سے جوجھنا پڑرہا ہے کہ  آپ کا یہ قانون اور ہمارے کسان جو پیدا کرتے ہیں وہ دونوں چیزیں آپ غلط بیان کررہے ہیں۔ ان کی بنیاد غلط ہے۔

 اسی وجہ سے اب آپ کو معلوم ہے کہ ہمارامینگو دنیا میں جائے، اس کے لئے ہمیں اتنی مشقت کرنی پڑتی ہے لیکن ہمارے کسانوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ دنیا میں لابی اپنا کام کرتی رہے گی لیکن ہمیں  اپنی جو پروسیسنگ سسٹم ہے اس کو ہم عالمی معیار کا بنانا ہوگا۔

 اس لئے میں نے ایک بار لال قلعے سے کہا تھا کہ ہماری پیداوار  ’’زیرو ڈیفکٹ- زیرو ایفکٹ‘‘ ہے  کیونکہ دنیا کے یہ معیارات بننے والے ہیں۔ ہم نے اپنے  ایگرو پروڈکٹ کو اور  پروڈکٹ پیکجنگ کو  اب ہم آرگینک فارمنگ کے لئے کہیں لیکن آرگینک فارمنگ کے لئے سرٹیفائی کرنے کی غرض سے اگر لیب اور  انسٹی ٹیوٹ نہیں بنائیں گے تو دنیا میں ہمارے آرگنیک پروڈکٹ نہیں جاپائیں گے۔

 آج دیکھئے دنیا میں ایرومیٹک (خوشبودار پودے) کا بزنس گروتھ   40 فیصد ہے، یہ بات ہمیں بتائی گئی ہے۔ اگر 40 فیصد گروتھ ہے تو اس کی پوری بنیاد زرعی ہے۔ اگر زراعت اس کی بنیاد ہے تو ہم ایرومیٹک دنیا میں ہندوستان جیسے ملک میں چھوٹے چھوٹے لوگوں کو  اتنا روزگار مل سکتا ہے کہ ہم ایرومیٹک ورلڈ میں اپنی بہت ساری چیزیں بھیج سکتے ہیں۔

 میں مانتا ہوں کہ خوشبو کی دنیا میں اگر  ہندوستان تنوع سے بھرا ہوا ہے تو ہم فریگرینس کی دنیا میں بہت کچھ تعاون کرسکتے ہیں۔ ہم فطری چیزیں دے سکتے ہیں، تو ہم عالمی منڈی کو ذہن میں رکھتے ہوئے  ہندوستان کے کسانوں کو میں خلیجی ممالک کے لوگوں کی بات کررہا ہوں، ان سے کہہ رہا ہوں کہ کس کوالٹی کی  چیز کھانی ہے، آپ ہمیں بتائیں۔ اس معیار کی چیزیں بنانے کے لئے ہم اپنے کسانوں تک ٹیکنالوجی ، پرسیسر سب لے کر جائیں گے۔ لیکن پروڈکٹ آپ اس کے کھیت سے ہی خردئے اور آپ ہی اپنے کولڈ اسٹوریج بنائے، اپنی ویئر ہاؤسنگ بنائے، آپ ہی اپنا ٹرانسپورٹیشن نظام کھڑا کیجئے اور پورے گلف کا پیٹ بھرنے کا کام ہمارے ملک کے کسان کرسکتے ہیں۔

 یہ ساری باتیں میری ان دونوں دنیا بھر کے لوگوں کےساتھ ہورہی ہیں۔ لیکن میں آپ سے یہی کہنا چاہوں گا کہ جو محنت آپ نے کی ہے اس کا بہت فائدہ ملے گا او ر مجھے- میں جانتا نہیں ہوں پہلے کیا ہوتا تھا لیکن میں نے افسران دریافت کیا کیونکہ ان کو کافی معلومات ہوتی ہے، کیونکہ پہلے وہی کرتے تھے اور اب بھی کررہے ہیں۔ تو وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ صاحب ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، یہ پہلی بار ہےکہ جس میں اکوموڈیشن ہے، ایگر ایکونامکس والے ہیں، سائنس داں ہیں، ماہرین زراعت ہیں، ترقی پسند کسان ہیں، پالیسی ساز ہیں، سب نے مل کر غور وفکر کیا ہے اور  غور وفکر سے قبل بہت ساری معلومات یکجا کی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اچھی سمت میں کوششیں ہورہی ہیں۔ آپ مایوس نہ ہوں، کہ میں تو کہہ کے آیا تھا، کیوں نہیں ہوا، ہوسکتا ہے کسی چیز کے نفاذ میں وقت لگتا ہو، اتنی بڑی حکومت ہے اسکوٹر موڑنا ہے تو فورا مڑ جائے گا لیکن بہت بڑی ٹرین موڑنی ہے تو کہاں سے جاکر موڑنی پڑتی ہے، تو کہاں کہاں چلے گئے ہیں وہاں سے مجھے موڑ کر لانا ہے، لیکن آپ لوگوں کے ساتھ مل کر لانا اور پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہم لاکر رہیں گے۔ ہندوستان کے کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لئے ہم مل کر کام کریں گے اور اس عہد کو پورا کرنا  کہ 2022  تک ہندوستان کے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنی ہے۔ وہ  زرعی پیداوار سے ہو، مویشی پروری سے ہو، وہ سوئیٹ انقلاب سے ہو، وہ بلیو انقلاب سے ہو، جتنے بھی راستے کسانوں سے جڑے ہوئے ہیں ، ان سبھی راستوں سے ہوکر۔ اسی ایک امید کے ساتھ آپ سب کے تعاون کے لئے میں آپ کا بہت بہت مشکور ہوں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More