نئی دہلی، ہندوستان کے 48ویں بین الاقوامی فلمی میلے میں اوپن فورم کے آخری اجلاس میں بحث کا موضوع ’’ ڈیجیٹل انقلاب…سنیما کا بدلتا ہو چہرہ‘‘ تھا۔ اکیڈمی آف موشن پکچر آرٹس اینڈ سائنسز کے رکن اُجول نرگڈکر، ریڈیو ایف ٹی آئی آئی پُنے کے سربراہ سنجے چندیگر، انٹرٹینمنٹ سوسائٹی آف گوا کے وائس چیئرمین راجیندر تالک اور محقق اور فلمی نقاد ایم اے راگھویندرن نے مباحثے میں شرکت کی۔ انڈین ڈاکومینٹری پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے سربراہ مائک پانڈے نے اجلاس کی نظام کے فرائض انجام دئے۔
سنیما میں ڈیجیٹل انقلاب کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے جناب اُجول نرگڈکر نے کہا کہ’’ ہم نے 2008 میں سنیما کیلئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی استعمال کرنا شروع کیا تھا، اب ڈیجیٹل انقلاب میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اس لئے بہت جلد ’ہائی الٹرا ڈفینیشن‘ ہندوستان میں ایک حقیقت بن جائے گا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی حقیقت میں حیرت انگیز ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور مدت کے سلسلے میں ابھی مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ریڈیو ایف ٹی آئی آئی پُنے کے سربراہ سنجے چندیکر نے کہا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے ہر کسی کو اُڑنے کے لئے پنکھ فراہم کرائے ہیں۔ استعمال کرنے والے کے لئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی زیادہ متبادل فراہم کراتی ہے۔ ساؤنڈ کی صنعت کے معاملے میں مسئلہ یہ ہے کہ ساؤنڈ انجینئر اس بات ہی نہیں پتہ لگاپائے ہیں کہ ڈیجیٹل ڈیکنالوجی سے وہ کس قدر فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے آڈیو آپٹیکل اور ڈیجیٹل دونوں شکلوں میں موجود ہے۔
انٹرٹینمنٹ سوسائٹی آف گوا (ای ایس جی) کے مستقبل کے پروجیکٹوں کے بارے میں راجندر تالک نے بتایا کہ فلم فیسٹول کے لئے نیا انٹی گریٹیڈکمپلیکس 2019 میں تیار ہوجائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ای ایس جی ٹیکنالوجی سے چلنے والے مزید کئی پروجیکٹ لائے گی۔ فلمی نقاد جناب ایم اے راگھویندرن نے بھی سنیما میں ڈیجیٹل انقلاب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
آئی ڈی پی اے کے سربراہ مائک پانڈے نے یہ کہتے ہوئے اجلاس کا اختتام کیا کہ ہر کوئی جوش وجذبے کا دلدادہ ہے، اسی وجہ سے ٹیکنالوجی پر مبنی فلمیں اچھا کاروبار کررہی ہیں۔