نئی دہلی: وزیراعظم جناب نریندر مودی نے آج مغربی بنگال کے شانتی نکیتن میں وشو بھارتی یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں موجود یونیورسٹی کے وائس چانسلر، یونیورسٹی کے صدور شعبہ، پروفیسر حضرات، فارع التحصیل طلبا ء، طلبا وطالبات اور معزز مہمان اور معزز حاضرین سے خطاب کیا۔ اس تقریر کامتن حسب ذیل ہے:
ڈائس پر موجود بنگلہ دیش کی وزیراعظم محترمہ شیخ حسینہ جی، مغربی بنگال کے گورنر جناب کیسری ناتھ ترپاٹھی جی، مغربی بنگال کی وزیر اعلی محترمہ ممتا بنرجی جی، وشو بھارتی کے پروفیسر سبوج کولی سین جی اور رام کرشنن مشن وویکا نند انسٹی ٹیوٹ کے سوامی آتم پریا نند جی اور یہاں موجود وشوبھارتی کے پروفیسر حضرات اور میرے پیارے نوجوان ساتھیو!
میں سب سے پہلے وشو بھارتی کے چانسلر کی حیثیت سے سب سے پہلے آپ تمام حضرات سے معافی کا خواستگار ہوں کیونکہ میں جب راستے میں آرہا تھا تو کچھ بچے اشارے سے سمجھا رہے تھے کہ پینے کاپانی بھی نہیں ہے۔ آپ لوگوں کو جو بھی تکلیف ہوئی ہے، چانسلر ہونے کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری تھی کہ اس کی نوبت نہ آئے۔
وزیراعظم کی حیثیت سے مجھے ملک کی کئی یونیورسٹیوں کے جلسہ تقسیم اسناد میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ وہاں میری شرکت ایک مہمان کے طور پر ہوتی ہے لیکن یہاں مہمان نہیں بلکہ یہاں کے چانسلر کی حیثیت سے آپ کے درمیان آیا ہوں۔ یہاں میرا جو بھی رول ہے وہ اس عظیم جمہوریت کی بدولت ہے۔وزیراعظم کے عہدے کی وجہ سے نہیں۔ ویسے یہ جمہوریت بھی اپنے آپ میں ایک چانسلر ہے جو سوا سو سے زائد ہمارے ہم وطنوں کو الگ الگ طریقے سے ترغیب دے رہی ہے۔ جمہوری قدروں کی روشنی میں جو بھی نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ عظیم ہندوستان کے روشن مستقبل کی تعمیر میں معاون ہوتا ہے۔
ہمارے یہاں کہا گیا ہے کہ आचार्यत विद्याविहिता साघिष्ठतम प्राप्युति इति یعنی استاد کے پاس جائیں اس کے بغیر تعلیم ، عمدگی اور کامیابی نہیں ملتی ۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ گورو دیو رویندر ناتھ ٹیگور کی اس سر زمین پر آج استادوں کے درمیان کچھ وقت گزارنے کاموقع ملا ہے۔
جیسے کسی مندر کے صحن میں آپ کو منتر کی جاپ سے توانائی محسوس ہوتی ہے۔ ویسے ہی توانائی وشو بھارتی یونیورسٹی کے صحن میں آکر محسوس کررہا ہوں۔میں جب ابھی کار سے اتر کر ڈائس کی جانب آرہا تھا تو ہر قدم پر میں یہ سوچ رہا تھا کہ کبھی اس سرزمین پر یہاں کے چپہ چپہ پر گورو دیو کے قدم پڑے ہوں گے۔ یہاں کہیں آس پاس ہی بیٹھ کر انہوں نے الفاظ کو کاغذ پر اتار ہوگا۔کبھی کوئی دھن، کوئی گیت گنگنایا ہوگا۔ کبھی مہاتما گاندھی سے طویل تبادلہ خیال کیا ہوگا۔ کبھی کسی طالبعلم کوزندگی کا، ہندوستان کا ، ملک کے وقار کا مطلب سمجھایا ہوگا۔
دوستو! آج اس جگہ ہم روایت کو نبھانے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔یہ امر گنج تقریبا ایک صدی سے ایسے کئی مواقع کا گواہ رہا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے جو آپ نے یہاں سیکھا ہے ۔اس کی ایک منزل آج مکمل ہورہی ہے۔ آپ میں سے جن لوگوں کو آج ڈگری ملی ہے ان کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور مستقبل کے لئے ان کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آپ کی یہ ڈگری یہ تعلیمی لیاقت کا ثبوت ہے۔اس لحاظ سے یہ اپنے آپ میں کافی اہم ہے لیکن آپ نے یہاں صرف ایک ڈگری ہی حاصل نہیں کی ہے، ایسا نہیں ہے۔آپ نے یہاں جو سیکھا ہے ، جو پایا ہے وہ اپنے آپ میں انمول ہے۔آپ شاندار وراثت کے وارث ہیں ۔ آپ کا رشتہ ایسے استاد اور شاگرد کی روایت سے جڑا ہے جو جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی نیا بھی ہوتا ہے۔
ویدک اور پورانک عہد میں جسے ہمارے رشی منی نے سینچا، جدید ہندوستان میں اسے گورو دیو رویندر ناتھ ٹیگور جیسی شخصیت نے آگے بڑھایا ہے آج آپ کو جو یہ تمغہ دیا گیا ہے یہ بھی صرف ایک پتا نہیں ہے بلکہ ایک عظیم پیغام ہے۔قدرت کس طرح ہمیں ایک انسان کی حیثیت سے ، ایک ملک کی حیثیت سے، اچھی چیزیں دے سکتی ہے یہ اسی کی ایک علامت ہے، اس کی مثال ہے یہی تو اس عظیم ادارے کے پیچھے کا جذبہ ہے۔ یہی تو گورو دیو کے خیالات ہے جو وشو بھارتی کی بنیاد ہے۔
بھائیو اور بہنو! यत्र विश्वम भवेतेक निरम یعنی پوری دنیا ایک گھونسلہ ہے، ایک گھر ہے۔یہ ویدوں کی تعلیم ہے۔ جسے گورو دیو نے اپنی قیمتی خزانے کے وشو بھارتی کا‘‘لوح ’’ہے۔اس وید منتر میں ہندوستان کی مالا مال روایت کا نچوڑ چھپا ہوا ہے۔گورو دیو چاہتے تھے یہ جگہ نقیب بنیں جس کو پوری دنیا اپنا گھر بنائے۔ گھونسلے اور گھروندوں جہاں ایک ہی طرح دیکھا جاتا ہے ،جہاں پوری دنیا کو جذب کرنے کا جذبہ ہو یہی تو ہندوستانیت ہے۔یہی) وسودھیو کٹمب کم( वसुधैव कुटुम्बकम् کا منتر ہے یہ ہزاروں سال سے ہندوستان کی سرزمین میں گونج رہا ہے اور اسی منتر کے لئے گورو دیو نے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔
دوستو! ویدوں، اُپ نشدوں کا جذبہ ہزاروں سال قبل جتنا موضوع تھا۔اتنا ہی سو سال قبل جب گورو دیو شانتی نکیتن میں آئے تھے تب بھی موضوع تھا۔آج اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرتی ہوئی دنیا کے لئے بھی یہ اتنا ہی موضوع ہے۔آج سرحدوں کے دائرے میں بندھے ملک ایک حقیقت ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس خطے ارض کی عظیم روایت کو آج دنیا گلورائزیشن کی شکل میں جی رہی ہے۔ آج ہمارے درمیان بنگلہ دیش کی وزیراعظم محترمہ شیخ حسینہ بھی موجود ہے۔ شاید ہی کبھی ایسا موقع آیا ہو کہ کسی جلسہ تقسیم اسناد میں دو ملکوں کے وزیراعظم موجود ہوں۔
ہندوستان اور بنگلہ دیش دو ملک ہے لیکن ہمارے مفاد ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔تہذیب وثقافت ہو یا پبلک پالیسی ہم ایک دوسرےبہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اسی کی ایک مثال بنگلہ دیش بھون ہے۔جس کا ہم دونوں کچھ دیر بعد وہاں جا کر افتتاح کرنے والے ہیں یہ بھون بھی گورو دیو کے خوابوں کی تعبیر ہے۔
دوستو! میں کئی بار حیران ہوجاتا ہوں ، جب دیکھتا ہوں کہ گورودیو شخصیت نہیں بلکہ ان کے سفر کی توسیع بھی کس حد تک موضوع ہے۔ اپنے غیرملکی سفر کے دوران مجھے ایسے کئی لوگ ملتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ ٹیگور کتنے سال پہلے ان کے ملک میں آئے تھے۔ ان ملکوں میں آج بھی کافی عزت کے ساتھ گورو دیو کو یاد کیا جاتا ہے۔ لوگ ٹیگو ر کے ساتھ خود کو جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر ہم افغانستان جائیں تو ‘‘ کابلی والا’’ کی کہانی کا ذکر ہر افغانی کرتا ہے۔ وہ یہ ذکر بڑے فخر کے ساتھ کرتا ہے۔ تین سال قبل جب میں تاجکستان گیا تھا تو وہاں مجھے گورو دیو کے ایک مجسمہ کی نقاب کشائی کا موقع بھی ملا تھا۔ گورو دیو کے لئے وہاں کے لوگوں میں عزت و احترام کا جذبہ دیکھا وہ میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔
دنیا کئی یونیورسٹیوں میں ٹیگور آج بھی موضوع تعلیم ہے۔ ملک کے نام پر چیئرس قائم ہیں۔ اگر میں کہوں کے گورو دیو پہلے بھی گلوبل سیٹزن تھے۔ تو وہ آج بھی ہے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا ویسے آج اس موقع پر ان کا گجرات سے جو رشتہ رہا ہے اس کا ذکر کرنے کی طلب سے خود کو روک نہیں پارہا ہوں۔گورو دیو کا گجرات کے ساتھ ایک خاص رشتہ رہا ہے۔ ان کے بڑے بھائی ستیندر ناتھ ٹیگور جوسول سروسیز جوائن کرنے والے پہلے ہندوستانی تھے۔وہ کافی دنوں تک احمد آباد میں بھی رہے تھے۔ غالباً وہ اس وقت احمد آباد کے کمشنر ہوا کرتے تھے اور میں نےکہیں پڑھا تھا کہ پڑھائی کے لئے ا نگلینڈ جانے سے قبل ستیندر ناتھ جی اپنے چھوٹے بھائی کو چھ ماہ تک انگریزی ہدف کی تعلیم وہی احمد آباد میں ہی دی تھی۔گورو دیو کی عمر اس وقت 17 سال تھی۔ اسی دوران گورو دیو نے اپنی مقبول نوبل کھدی توپاشان کے اہم حصے اور کچھ اشعار بھی احمد آباد کے قیام کے دوران ہی لکھے تھے۔ یعنی ایک طرح سے دیکھیں تو گورو دیو کے عالمی پس منظر اپنی فتح کا لوہا منوانے میں چھوٹا سا حصہ ہندوستان کے ہر کونے کا رہا ہے اس میں گجرات بھی ایک ہے۔
ساتھیو! گرودیومانتے تھے کہ ہر شخص کی پیدائش کسی نہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ ہر بچہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے آگے بڑھ سکے اس کے لئے اسے اہل بنانے میں تعلیم کا اہم تعاون ہے۔ وہ بچوں کے لئے کیسی تعلیم چاہتے تھے: اس کی جھلک ان کی نظم پاور آف افیکشن میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ تعلیم صرف وہی نہیں ہے، جو اسکولوں میں دی جاتی ہے۔ تعلیم کو کسی شخص کے ہر پہلو کا متبادل فروغ ہے، جسے وقت اور مقام کے بندھن میں باندھا نہیں جاسکتا ہے اور اسی لئے گرو دیو ہمیشہ چاہتے تھے کہ بھارتی طلباء باہری دنیا میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے اسے اچھی طرح سمجھتے ہوں۔ دوسرے دیشوں کے لوگ کیسے رہتے ہیں، ان کی سماجی اقدار کیا ہیں ، ان کی ثقافتی وراثت کیا ہے اس بارے میں جاننے پر وہ ہمیشہ زور دیتے تھے، لیکن اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ بھارتیتا(ہندوستانیت ) نہیں بھولنی چاہیے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک بار امریکہ میں ایگریکلچر پڑھنے گئے اپنے داماد کو خط لکھ کر بھی انہوں نے یہ بات تفصیل سے سمجھائی تھی اور گرو دیو نے اپنے داماد کو لکھا تھا کہ وہاں صرف زراعت کی پڑھائی ہی کافی نہیں، بلکہ مقامی لوگوں سے ملنا جلنا یہ بھی تمہاری تعلیم کا حصہ ہے اور آگے لکھا لیکن اگر وہاں کے لوگوں کو جاننے کے پھیر میں تم اپنے بھارتیہ ہونے کی پہچان کھونے لگو تو بہتر ہے کمرے میں تالا بند کرکے اس کے اندر ہی رہنا۔
بھارتی قومی تحریک میں ٹیگور جی کا یہی تعلیمی اور بھارتیتا میں شرابور درشن ایک دوری بن گیا تھا۔ ان کی زندگی قومی اور عالمی خیالات کا مجموعہ ہے جو ہماری قدیم اقدار کا حصہ رہا ہے ۔ یہ بھی ایک وجہ رہی ہے کہ انہوں نے یہاں وشو بھارتی میں تعلیم کی الگ ہی دنیا تخلیق کی۔ سادگی یہاں کی تعلیم کا بنیادی اصول ہے۔ یہاں کلاسیں آج بھی کھلی ہوا میں پیڑوں کے نیچے چلائی جاتی ہیں، جہاں انسان اور فطرت کے درمیان براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ موسیقی ، مصوری، ناٹک میں اداکاری سمیت انسانی زندگی کے جتنے بھی پہلو ہوتے ہیں انہیں فطرت کی گود میں بیٹھ کر نکھارا جارہا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ جن خوابوں کے ساتھ گرودیو نے اس عظیم ادارے کی بنیاد رکھی تھی، ان کو پورا کرنے کے سمت میں یہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ تعلیم کو ہنرمندی کے فروغ سے جوڑ کر اور اس کے ذریعے عام آدمی کی زندگی کے معیار کو اوپر اٹھانے کی ان کی کوشش قابل ستائش ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں کے لگ بھگ 50گاؤوں میں آپ لوگوں نے ساتھ مل کر ، آپ ان کے ساتھ جڑ کر ترقی کے خدمات کے کام کررہے ہیں، جب آپ کی اس کوشش کے بارے میں مجھے بتایا گیا تو میری امیدیں اور توقعات آپ سے ذرا بڑھ گئی ہیں اور امید اسی سے بڑھتی ہے، جو کچھ کرتا ہے۔آپ نے کیا ہے اسی لئے میری آپ سے توقعات بھی ذرا بڑھ گئی ہے۔
دوستو! 2021 میں اس عظیم ادارے کے 100برس پورے ہونے والے ہیں۔ آج جو کوشش آپ 50گاؤوں میں کررہے ہیں، کیا اگلے دو تین سالوں میں اسے آپ 100 یا 200 گاؤوں تک لے جاسکتے ہیں۔ میری ایک درخواست ہوگی کہ اپنی کوششوں کو دیش کی ضرورتوں کے ساتھ جوڑئیے ، جیسے آپ یہ عہد کرسکتے ہیں کہ 2021 تک جب اس عظیم ادارے کی ہم صد سالہ تقریب منائیں گے، 2021 تک ایسے 100 گاؤوں کو فروغ دے کر یہاں کے ہر گھر میں بجلی کنکشن ہوگا، بیت الخلاء ہوگا، ماؤں او ربچوں کے ٹیکے لگے ہوں گے، گھر کے لوگوں کو ڈجیٹل لین دین آتا ہوگا۔ انہیں کامن سروس سینٹر پر جاکر اہم فارم آن لائن بھرنا آتا ہوگا۔
آپ کو یہ اچھی طرح پتہ ہے کہ اجولا یوجنا کے تحت دیئے جارہے گیس کنکشن اور سووچھ بھارت مشن کے تحت بنائے جارہے بیت الخلاؤں نے خواتین کی زندگی آسان کرنے کا کام کیا ہے۔گاؤوں میں آپ کی کوشش نے اس دنیا میں خواتین کی قوت کو مستحکم کرنے کا کام کرے گا اور اس کے علاو ہ یہ بھی کوشش کی جاسکتی ہے کہ ان 100 گاؤوں کو فطرت سے محبت اور فطرت کی پوجا کرنے والا گاؤوں کیسے بنایا جائے جیسے آپ فطرت کی تخلیق کی طرح ہیں، کام کرتے ہیں، ویسے ہی گاؤوں بھی آپ کے مشن کا حصہ بنے گا۔یعنی یہ 100 گاؤوں اس زندگی کو آگے بڑھائیں جہاں پانی کے ذخیرے کی سہولت کو فروغ دے کر پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ لکڑی نہ جلا کر ہوا میں توازن برقرار رکھا جاتاہے۔ صفائی ستھرائی کا دھیان رکھتے ہوئے اور قدرتی کھاد کا استعمال کرتے ہوئےزمین کا تحفظ کا کیا جاسکتا ہے۔
بھارت سرکار کی گوبر دھن یوجنا کا بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ایسے تمام کام جن کی چیک لسٹ بناکر آپ انہیں پورا کرسکتے ہیں۔
ساتھیو! آج ہم ایک الگ ہی حالت میں الگ ہی چیلنج کے درمیان جی رہے ہیں۔ 125 کروڑ ہم وطنوں نے 2022 ء تک ، جب آزادی کے 75 سال ہوں گے، نیو انڈیا بنانے کا عہد کیا ہے۔ اس عہد کے کو پورا کرنے میں تعلیم اور تعلیم سے جڑے آپ جیسے عظیم اداروں کا اہم رول ہے۔ ایسے اداروں سے نکلے نوجوان ملک کو نئی توانائی دیتے ہیں، ا یک نئی سمت دیتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیاں صرف تعلیم کا ادارہ نہ بنیں۔لیکن سماجی زندگی میں ان کا سرگرم تعاون ہو، اس کے لئے کوششیں مسلسل جاری ہیں۔
سرکار کے ذریعے انّت بھارت ابھیان کے تحت یونیورسٹیوں کو گاؤں کی ترقی کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔ گرودیو کی زندگی کے ساتھ ساتھ نیو انڈیا کی ضرورتوں کے مطابق ہماری تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے مرکزی حکومت لگاتار کوششیں کررہی ہیں۔
اس بجٹ میں ریوائٹلائزنگ انفرااسٹرکچر اینڈ سسٹم ان ایجوکیشن، RISE نام سے ایک نئی اسکیم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے تحت اگلے چار سال میں دیش کے تعلیمی نظام کو سدھارنے کے لئے ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ کیا جائے گا۔گلوبل انیشی ایٹیو آف اکیڈمک نیٹ ورک، GYAN بھی شروع کیا گیا ہے، اس کے ذریعے بھارتی اداروں میں پڑھانے کے لئے دنیا کے بہترین معلموں کو مدعو کیا جارہا ہے۔
تعلیمی اداروں کو مناسب سہولیات ملیں، اس کے لئے ایک ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کی فائنانسنگ ایجنسی شروع کی گئی ہے۔ اس سے اہم تعلیمی اداروں میں اعلیٰ معیاری بنیادی ڈھانے کے لئے سرمایہ کاری میں مدد ملے گی۔ کم عمر میں ہی اینوویشن کا مائنڈ سیٹ کرنے کے لئے اب اس سمت میں ہمیں ملک بھر کے 2400 اسکولوں کو چنا۔ ان اسکولوں میں اٹل ٹنکرنگ لیب کے ذریعے ہم چھٹی سے بارہویں کےطلباء پر توجہ دے رہے ہیں۔ ان لیب میں بچوں کو جدید تکینک سے متعارف کروایا جارہا ہے۔
ساتھیو! آپ کا یہ ادارہ تعلیم میں اینوویشن کا زندہ ثبوت ہے۔ میں چاہوں گا کہ وشو بھارتی کے 11ہزار سے زیادہ طالب علم اینوویشن کو بڑھاوا دینے کے لئے شروع کی گئی اسکیموں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔آپ سبھی یہاں سے پڑھ کر نکل رہے ہیں۔ گرودیو کے آشیرواد سے آپ کو ایک ویژن ملا ہے۔آپ اپنے ساتھ وشو بھارتی کی پہچان لے کر جارہے ہیں۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ اس کے فخر کو اور زیادہ بڑھانے کے لئے آپ مسلسل کوشش کرتے رہیں۔ جب خبروں میں آتاہے کے ادارے کے طالب علم اپنے اینوویشن کے ذریعے اپنے کام سے 500 یا ہزار لوگوں کی زندگی بدل دی تو لوگ اس ادارے کو بھی سلام کرتے ہیں۔
آپ یاد رکھیں ، جو گرو دیو نے کہا تھا ’’اگر آپ کے ساتھ چلنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے تب بھی اپنے مقصد کی طرف اکیلے ہی چلتے رہو‘‘ لیکن آج میں آپ کو یہ کہنے آیا ہوں کہ اگر آپ ایک قدم چلیں گے تو سرکار چار قدم چلنے کو تیار ہیں۔ عوامی ساجھیداری کےساتھ بڑھتے ہوئے قدم ہی ہمارے ملک کو 21ویں صدی میں اس مقام تک لے جائیں گے جس کا وہ حقدار ہے، جس کا خواب گرو دیو نے بھی دیکھا تھا۔
ساتھیو! گرو دیو نے اپنے انتقال سے کچھ وقت پہلے گاندھی جی سے کہا تھا کہ وشو بھارتی وہ جہاز ہے جس میں ان کی زندگی کا سب سے قیمتی خزانہ رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ بھارت کے لوگ ہم سبھی اس قیمتی خزانے کو محفوظ رکھیں تو اس خزانے کو نہ صرف محفوظ رکھنے ، بلکہ اس میں اضافہ کرنے کی بہت بڑی ذمہ داری ہم سب پر ہے۔ وشو بھارتی یونیورسٹی نیو انڈیا کے ساتھ ساتھ دنیا کو نئے راستے دکھاتی رہے۔ اسی امید کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ آپ اپنے، اپنے ماں باپ، اس ادارے اور اس دیش کے خوابوں کو پورا کریں اس کے لئے آپ کو ایک بار پھر بہت بہت شبھ کامنائیں، بہت بہت دھنیہ واد۔