قرض کو فروغ دینے کے لئے سرکاری سیکٹر کے بینکوں کو 70000 کروڑ روپے کا سرمایہ فراہم کیا جارہا ہے، تاکہ ملک کی معیشت کو مزید رفتار دی جاسکے۔ ملک میں آسان زندگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے یہ سرکاری سیکٹر کے بینک ٹیکنالوجی کو مستحکم کریں گے، آن لائن پرسنل لون اور گھر پر بینکوں کی خدمات کی پیشکش کریں گے اور ایک سرکاری سیکٹر کے بینک کے صارف کو دیگر تمام سرکاری سیکٹر کے بینکوں میں خدمات تک رسائی حاصل کرنے کے قابل بنائیں گے۔ خزانہ اور کارپوریٹ کی مرکزی وزیر محترمہ سیتا رمن نے آج پارلیمنٹ میں مرکزی بجٹ 2019-20 پیش کرتے ہوئے اطلاع دی کہ اس کے مستزاد اکاؤنٹ ہولڈر کو اس کے موجودہ حالات سے باہر نکالنے کے لئے حکومت متعدد اقدامات کرے گی۔ ان حالات میں اکاؤنٹ ہولڈر کو اپنے اکاؤنٹ میں دوسرے کے ذریعہ جمع کردہ نقدی پر اختیار حاصل نہیں ہوتا ہے۔ سرکاری سیکٹر کے بینکوں میں گورنینس کو مستحکم کرنے کے لئے مزید اصلاحات کئے جائیں گے۔
بینکنگ نظام کو صاف ستھرا کرنے سے حاصل ہونے والے مالی فوائد اب بالکل عیاں طور پر نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ برس کے دوران تجارتی بینکوں کے غیرمنفعت بخش اثاثے (این پی اے) میں ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران آئی بی سی اور دیگر اقدامات کے سبب 4 لاکھ کروڑ روپے سے زائد رقومات کی ریکارڈ وصولی ہوئی ہے۔ سات برسوں میں کوریج تناسب سب سے زیادہ ہے اور گھریلو قرض کی شرح ترقی 13.8 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
محترمہ سیتا رمن نے مزید اطلاع دی کہ حکومت نے سرکاری سیکٹر کے بینکوں کو مستحکم کرنے کے علاوہ اس کی تعداد میں کمی کی ہے۔ اس کے علاوہ 6 سرکاری سیکٹر کے بینکوں کو فوری سدھار ایکشن فریم ورک سے باہر آنے کے قابل بنایا ہے۔
نان بینکنگ فائنانشیل کمپنیز (این بی ایف سی)
وزیر خزانہ نے اطلاع دی کہ نان بینکنگ فائنانشیل کمپنیز (این بی ایف سی) چھوٹے اور اوسط درجے کے صنعت میں پائیدار صرفے کی مانگ اور سرمایہ کی تشکیل میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ این بی ایف سی جو کہ بنیادی طور پر بہتر ہوتے ہیں، کو بینکوں اور میچول فنڈ سے بغیر کسی خطرے کے فنڈ حاصل ہوتے رہنا چاہئے۔ اعلیٰ قیمت کے سرمایہ کی خریداری کے لئے مالی طور پر مضبوط نان بینکنگ فائنانشیل کمپنیز، موجودہ مالی برس کے دوران کل ایک لاکھ کروڑ روپے تک کی کمپنیز کے لئے حکومت سرکاری سیکٹر کے بینکوں کو 10 فیصد تک کے خسارہ کے لئے ایک بار چھ مہینے کی جزوی قرض فراہم کرے گی۔ مزید برآں ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) این بی ایف سی کے لئے ریگولیٹر ہے، تاہم آر بی آئی کے پاس این بی ایف سی کے اوپر محدود ریگولیٹری اتھارٹی ہے۔ این بی ایف سی پر آر بی آئی کی ریگولیٹری اتھارٹی کو مستحکم کرنے کے لئے مناسب تجاویزفائنانس بل میں دیے جارہے ہیں۔
محترمہ نرملا سیتا رمن نے کہا کہ ایسی نان بینکنگ فائنانشیل کمپنیز جو کہ عوام کو قرض دیتی ہیں، ڈبینچر ریڈمپشن ریزرو (ڈی آر آر) کو برقرار رکھنا ہوگا۔ مزید برآں آر بی آئی کے ذریعے درکار ایک خصوصی ریزرو کو بھی برقرار رکھنا ہوگا۔ این بی ایف سی کو عوامی ایشوز میں فنڈ اکٹھا کرنے کی اجازت دینے کے لئے ایک ڈی آر آر کھولنے کے لئے درکار چیزیں جو کہ پرائیویٹ پلیسمنٹ کی حیثیت سے فی الحال صرف سرکاری ایشوز کے لئے لاگو ہیں، اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ٹی آر ای ڈی ایس پلیٹ فارم پر مزید شرکاء بالخصوص این بی ایف سی، این بی ایف سی فیکٹر کی حیثیت سے جو رجسٹرڈ نہیں ہیں، کو لانے کے لئے فیکٹرنگ ریگولیشن ایکٹ 2011 میں ترمیم ضروری ہے اور ٹی آر ای ڈی ایس پلیٹ فارم پر براہ راست تمام این بی ایف سی کو شرکت کی اجازت دینے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔