بھارت سرکار کے پرنسپل سائنٹیفک مشیر پروفیسر کے وجے راگھون نے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ مائیکرواسکوپی میں ہوئی پیش رفت نے ہمیں چلنے اور اڑنے کے پیچیدہ سوالوں کے مطالعے میں مدد کی ہے۔ ہم سیلز کے بہترین فوٹو دیکھ سکتے ہیں اور اس سے ہم سیل کے مخصوص اجزا اور ان کے کاموں کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔وہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹر فزکس (آئی آئی اے) کے یوم تاسیس پر منعقد تقریب سے خطاب کررہے تھے۔
حکومت ہند کے سائنس وٹکنالوجی کے محکمے کے ایک خود مختار ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹروفزکس (آئی آئی اے) کی 50 ویں یوم تاسیس کے موقع پر دی ڈیولپمنٹ آف لوکوموشن یعنی جسمانی حرکت یا کسی جاندار کی ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کے موضوع پر منعقد ورچوئل تقریب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر وجے راگھوون نے کہا کہ آبزرویشنل (مشاہداتی) ٹولز (آلات) میں سدھار ہمیں تجربہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ سیلز کو خلقی طور پر سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ سیلز کے اجزا کو بھی ہٹایا جاسکتا ہے۔ ان کے کاموں کو بڑھایا جاسکتا ہے اور کاموں کے نقصان اور کاموں کے فائدے ٹکنالوجی سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
پھل مکھی پر کیے گئے اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 20 سال کے عرصے میں مشاہدے کے آلات میں اتنے زیادہ سدھار وبہتری آئی ہے کہ کوئی بھی کیڑے کو کھول سکتا اور مشاہدہ کرسکتا ہے کہ کیا ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے ڈایز اور لیبلز کا استعمال ومختلف اجزا کو اجاگر کرنے کے لئے کیا جاسکتا ہے۔ جیسے آبزرویشنل ایسٹرونومی سائنس کے مختلف اسپیکٹرا کو دکھانے کے لئے کیا جاتا ہے۔
پروفیسر وجے راگھون نے بتایا کہ حرکت یا لوکوموشن نروس نظام سے پیدا ہوتا ہے۔ نروس نظام ہمارے ذریعےآس پاس سےلی گئی جانکاری پر ردعمل ظاہر کرتی ہے اور حرکت یا لوکوموشن اس بات پر انحصار کرتی ہے کہ ہم اسے کیسے لیتے ہیں اور اسے اپنے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں کیسے پروسیس کرتے ہیں۔
انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ حرکت کو کنٹرول کرنے والے ہدایات کی کنکٹی ویٹی پر خاطر خواہ کام کیا جارہا ہے۔ پچھلے 20 سالوں کے دوران اس کے ایک دیگر ایریا پر بھی دھیان مرکوز کیاگیا ہے۔ حرکت کیسے ڈیولپ ہوتی ہے یا کیسے ایک بے بی بندر اپنی پیدائش کے فوراً بعد چاروں طرف دوڑتا ہے، جبکہ انسان کا بچہ ایسا نہیں کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی حقیقی دنیا کے ساتھ چلنے اور نمٹنے کی صلاحیت کیسے ڈیولپ ہوتی ہے۔ ان سوالوں کا جواب مختلف اکائیوں میں حرکت کے لئے ضروری اجزا کی تقسیم میں کافی حد تک چھپا ہے۔ یہ اکائیاں ہیں نروس سسٹم، پٹھوں، نسوں، دماغ سے جڑاؤ وغیرہ۔ یہ پوچھنا کہ ان میں سے ہر ایک کیسے کام کرتا ہے، ویسا ہے ہی جیسے آٹو موبائل کی فیکٹری میں مختلف کل پرزوں کو تیار کیا جاتا ہے اور انہیں بہتر طریقے سے کام کرنے کے لئے آپس میں جوڑ دیا جاتا ہے۔
پروفیسر وجے راگھون نے بتایا کہ بائیو لوجیکل سائنسز کی دو اہم تھیوریوں نے ایک بیولوجیکل کے مطالعے سے دوسری بایولوجیکل کو سمجھنے میں مدد کی ہے۔ یہ اصول ہے ۔ قدرتی انتخاب کے ذریعے ترقی کا اصول اور اس پلینٹ پر کیمسٹری سائنس ڈی این اے سے کیسے جڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھل مکھی پر کئے گئے مطالعوں کا مختلف اجزا کو سمجھنے میں بہت اہمیت رہی ہے جیسے پیدائشی قوت مدافعت، کیونکہ پھل مکھی میں جو ٹول کٹ ہوتی ہے اسی کا استعمال ایک انسان بنانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ جو بدلتا ہے وہ ہے مٹیریلز اور ضابطوں کے نفاذ کا پیمانہ لیکن ضابطے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔