مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) برائے سائنس وٹیکنالوجی، زمینی سائنس ، وزیراعظم کے دفتر میں وزیر مملکت، عملے ، عوامی شکایات، پنشن، ایٹمی توانائی اور خلاء کے وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے آج کہا کہ نئی کاروباری انٹرپرائزز کا انحصار بڑے پیمانے پر سائنس و تکنالوجی پر ہے اور صنعتی حلقہ کے ساتھ ساتھ بڑی اور چھوٹی صنعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ موجودہ دور کے بھارت میں ان کی مکمل صلاحیت کا استعمال ہو۔ انٹرپرینیئرزکی کامیاب کے لئے نہ صرف سائنٹفک اپلیکیشنز بلکہ سائنٹفک نظریہ بھی ضروری عنصر ہیں۔
ساتویں انڈیا انٹرنیشنل ایم ایس ایم ای ایکسپو چوٹی کانفرنس 2021 میں کلیدی خطبہ میں ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ بھارت میں مسابقتی اور جدید ٹکنالوجی کی مدد سے چھوٹی اورمائیکرو انٹرپرائزز بھارت کی بڑی صنعتوں کی بنیاد ہوں گی۔ انہوں نے سائنسی برادری سے کامیاب آر اینڈ ڈی نتائج کو صنعتوں اور کارپوریٹ حلقوں کے ساتھ ساجھا کرنے کو کہا ۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں سبھی طرح کی انٹرپرینیئرزشپ سائنس اور ٹکنالوجی کے ذریعہ چلیں گی۔ انہوں نے بدلتے وقت کے مطابق نئے متبادل اور انٹرپرائزز کو جوڑنے پر زور دیا۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے اس بات پر خوشی ظاہر کی کہ ایم ایس ایم سی وزارت نے 2025 تک جی ڈی پی میں اپنا حصہ بڑھا کر 50 فیصد تک کرنے کا نشانہ رکھا ہے۔ جب بھارت پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بنے گا ۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً 36.1 ملین اکائیوں کے ساتھ ایم ایس ایم ای، مصنوعات سازی کے حلقہ کے مجموعی داخلی پیداوار میں تقریباً 6.11 فیصد اور سروس سرگرمیوں سے متعلق مجموعی داخلی پیداوار میں 24.63 فیصد تعاون کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ شعبہ ، زراعت کے بعد دوسرا سب سے بڑا روزگار فراہم کرنے والا شعبہ ہے۔ ایم ایس ایم ای بھارت میں تقریباً 12 کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ بیشتر معیشتوں میں ایم ایس ایم ای کل انٹرپرائزز میں 90 فیصد سے زیادہ کی حصہ داری رکھتی ہے۔ یہ وجہ سے ہے کہ اس شعبے کو روزگار کی نمو کی اعلی ٰ شرح پیدا کرنے کا سہرہ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کی کم ضرورتوں ، آپریشن میں لچیلاپن اور مناسب گھریلو ٹکنالوجی کو فروغ دینے کی صلاحیت کے ساتھ چھوٹی ، اور درمیانہ درجہ کی انٹرپرائزز میں بھارت کو نئی اونچائیوں پر لے جانے کی طاقت ہے۔
بانس کے شعبے میں کافی امکانات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے 100 سال پرانے جنگلات سے متعلق بھارتی قانون کی بندشوں سے ملکی بانس کو چھوٹ دینے کا اہم فیصلہ کیا جس سے نوجوان صنعت کاروں کے لئے بانس کے شعبے میں کاروبار کرنے میں سہولت پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بانس کی تیلی اور اگربتی پر درآمداتی ڈیوٹی کو 10 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے سے گھریلو اگربتّی کی مینوفیکچرنگ کو کافی فروغ ملا ہے کیونکہ بھارت ہر سال کورویا ، ویئت نام اور اچین جیسے ملکوں سے تقریباً پانچ سے چھ ہزار کروڑ اگربتی درآمد کرتا تھا ۔انہوں نے کہا کہ اس تبدیلی کی وجہ سے ستمبر 2019 سے بانس کی تیلی اور اگربتی کی درآمد نہیں کی گئی بلکہ ملک میں اگنے والے بانس کا اس کے لئے استعمال بڑھا جس سے بانس کے شعبے کو رفتار ملی ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ خود روزگار کے کئی اسٹارٹ اپ سرکاری نوکریوں کے مقابلے میں زیادہ پرکشش اور فائدہ مند ہیں اور ضرورت صرف اس ذہنیت کو بدلنے کی ہے جس کی وجہ سے لوگ خود کا زیادہ فائدہ مند کاروبار شروع کرنے کے بجائے کم تنخواہ والی چھوٹی سی سرکاری نوکری کو ترجیح دیتے ہیں۔ خودروزگار والے اسٹارٹ اپ مقابلتاً ابتدا سے ہی کئی گنا زیادہ فائدہ دے سکتے ہیں۔
وزیر موصوف نے کہا کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے بہتر استعمال کے ذریعہ کئی زرعی اسٹارٹ اپ نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے ساتھیوں کے لئے بھی پرکشش ذریعہ معاش کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ سال 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے وزیراعظم نریندر مودی کے اعلان کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ زراعت اور اس سے متعلق شعبوں اور تحقیق کاروں کو پیداوار کے بجائے پیداواریت پر توجہ دینی چاہئے۔