17.9 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

من کی بات 2.0 کی تیسرے حصے میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Urdu News

میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار ! ہمارا ملک ان دنوں ایک طرف بارش سے لطف اندوز ہورہا ہے ، تو دوسری طرف ، ہندوستان کے گوشے گوشے میں  کسی نہ کسی طرح سے  تہوار اور میلے،  دیوالی تک سب کچھ یہی چلتا ہے اور شاید ہمارے آباؤ اجداد نے ، موسم  چکر ، زمینی چکر اور معاشرتی زندگی کے نظام کو بخوبی اس طرح سے ڈھال  ہے کہ معاشرے میں کسی بھی حالت میں، کبھی بھی خالی پن نہ آئے۔ گزشتہ دنوں ،  ہم لوگوں نے کئی تہوار منائے۔ کل  پورے ہندوستان میں ، شری کرشن جنم اشٹمی کا تہوار  منایا گیا۔ کوئی تصور بھی کرسکتا ہے کہ کیسی شخصیت  ہوگی  کہ آج  ہزاروں سالوں کے بعد بھی  ہر تہوار  نیا پن لے کر آتا ہے ، نئی ترغیب لے کر آتا  ہے ، نئی توانائی لاتا ہے اور ہزاروں سال پرانی زندگی  ایسی کہ جو آج بھی مشکلات کے کے حل کے لیے تحریک دے سکتا ہو۔  ہر فرد شری کرشن کی زندگی میں ایسے حال کی مشکلات کا حل تلاش کر سکتا ہے۔ اتنی صلاحیت کے باوجود بھی کبھی وہ راس میں رم جاتے تھے تو کبھی گایوں کے بیچ ، تو کبھی گالوں کے بیچ، کبھی کھیل کود کرنا تو کبھی بانسری بجانا۔ نہ جانے تنوع سے بھرپور یہ شخصیت بے مثال صلاحیت کا حامل، لیکن سماجی قوت کو وقف، عوامی قوت کو وقف، عوام کو یکجا کرنے والے کی صورت میں، نیا کارنامہ انجام دینے والی شخصیت، دوستی کیسے ہو، تو سوداما  والا واقع کون بھول سکتا ہے اور میدان جنگ میں اتنی ساری عظمتوں کے باوجود بھی سارتھی کا کام منظور کر لینا۔ کبھی چٹان اٹھانے  کا، کبھی کھانے کا برتن اٹھانے کا کام، یعنی ہر چیز میں ایک نیا پن سا محسوس ہوتا ہے اور اس لیے آج جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں تو میں دو موہن کی طرف میرا دھیان جاتا ہے ایک سودرشن چکر والے موہن تو دوسرے چرخہ والے موہن ۔  سودرشن چکر والے موہن جمنا کے کنارے کو چھوڑ کر گجرات میں سمندر کے ساحل پر جاکر دوارکا بستی میں قیام کیا اور سمندر کے ساحل پر پیدا ہوا موہن جمنا کے کنارے آکر دلی میں زندگی کی آخری سانس لیتے ہیں۔ سودرشن چکر والے موہن نے اُس وقت کی صورتحال میں ہزاروں سال پہلے بھی جنگ کو ٹالنے کے لیے ، اپنی دانشمندی کا، اپنے فرض کا، اپنی صلاحیت کا، اپنی عقل مندی کا  بھرپور استعمال کیا تھا اور چرخہ والے موہن نے بھی تو ایک ایسا راستہ منتخب کیا، آزادی کے لیے انسانی اقدار کی کوشش کے لیے ، شخصیت کی بنیادی عنصر کوتقویت دے ، اس کے لیے آزادی کی جنگ کو ایک ایسی شکل دی، ایسا موڑ دیا جو پوری دنیا کے لیے آج بھی عجوبہ ہے۔بے لوث خدمت کی اہمیت ہو ، علم کی اہمیت ہو یا پھر زندگی میں تمام نشیب و فراض کے بیچ مسکراتے ہوئے آگے بڑھنے کی اہمیت ہو، یہ ہم بھگوان کرشن کے پیغام سے سیکھ سکتے ہیں اور اسی لیے تو شری کرشن جگت گرو کے روپ میں بھی جانے گئے ہیں۔

‘‘کرشن وندے  جگد گروم’’

آج جب ہم تہواروں کا ذکر کر رہے ہیں تب ہندوستان ایک اور بڑے تہوار کی تیاری میں مصروف ہے اور ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں بھی اس کا ذکر ہو رہا ہے۔  میرے پیارے ہم وطنو، میں بات کر رہا ہوں مہاتما گاندھی کی 150ویں یوم پیدائش کی۔ 2  اکتوبر 1869، پوربندر ، سمندر کے ساحل پر ، جسے آج ہم کرتی مندر کہتے ہیں، اُس چھوٹے سے گھر میں ایک شخص نہیں ، ایک عہد کا جنم ہوا تھا۔ جس نے انسانی تاریخ کو نیا موڑ دیا، نیا کارنامہ انجام دیئے۔ مہاتما گاندھی سے ایک بات ہمیشہ منسلک رہی ، ایک طرح سے ان کی زندگی کا وہ حصہ بنی رہی اور وہ تھی ، خدمت، خدمت  کا جذبہ اور خدمت کے تئیں فرض کی ادائیگی۔ اُن کی پوری زندگی دیکھیں تو جنوبی افریقہ میں اُن طبقوں کے لوگوں کی خدمت کی جو نسلی عصبیت کا شکار تھے۔ اُس عہد میں وہ بات چھوٹی نہیں تھی ، جی! انہوں نے ، اُن کسانوں کی خدمت کی جنہیں چمپارن میں عصبیت کا شکار بنایا جا رہا تھا۔  انہوں نے ، اُن مل مزدروں کی خدمت کی جنھیں مناسب اجرت نہیں دی جا رہی تھی۔ انہوں نے غریب، بے سہارا ، کمزور اور بھوکے لوگوں  کی خدمت کو اپنی زندگی کا اولین فرض سمجھا۔ جذام کے سلسلے میں کتنی غلط فہمیاں تھیں۔ ان غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے لیے خود جذام کے مریضوں کی خدمت کرتے تھے اور خود کے ، زندگی میں ، خدمت کے توسط سے مثال پیش کرتے تھے۔ خدمت، انہوں نے لفظوں میں نہیں  –  زندگی  گزار کر سکھائی تھی۔ سچائی کے ساتھ گاندھی کا جتنا اٹوٹ رشتہ رہا ہے ، خدمت کے ساتھ بھی گاندھی کا اتنا ہی اٹوٹ رشتہ رہا ہے۔  جس کسی کو جب بھی ، جہاں بھی ضرورت پڑی مہاتما گاندھی خدمت کے لیے ہمیشہ موجود رہے۔ انہوں نے نہ صرف خدمت پر زور دیا بلکہ اس کے ساتھ منسلک اپنی خوشی پر بھی زور دیا۔ خدمت لفظ کی اہمیت  اسی معنی میں ہے کہ اُسے خوشی کے ساتھ کیا جائے۔ خدمت ہی  سب سے بڑا مذہب  ہے (سیوا پرمو دھرم)۔  لیکن ساتھ ساتھ ، گہری اندرونی خوشی ،‘سوانتہ سکھایہ’ کا جوہر خدمت کے جذبے سے ہمکنار ہے۔ یہ ، بابائے قوم  کی زندگی سے ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ مہاتما گاندھی، بے حساب  ہندوستانیوں کی آواز بنے ہی،  لیکن ، انسانی اقدار اور انسانی وقار کے لئے ، دنیا کی آواز بن گئے تھے۔ مہاتما گاندھی کے لئے ،انسان اور معاشرہ ،  انسان اور انسانیت ، یہی سب کچھ تھا۔ خواہ، افریقہ میں فونکس فارم  ہو، یا ٹالسٹائے فارم، سابرمتی آشرم ہو یا وردھا سبھی مقامات پر ، اپنے ایک منفرد انداز  میں، معاشرتی متحرک کمیونٹی کو متحرک کرنے کے لیے ایک قوت رہا ہے۔ یہ میرے لیے بہت ہی خوشی کی بات ہے ، کہ ، مجھے عزت مآب مہاتما گاندھی سے منسلک متعدد اہم مقامت پر جا کر نمن کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ گاندھی، خدمت کے جذبے سے تنظیم کے جذبے پر بھی زور دیتے تھے۔ معاشرتی خدمت اور سماجی فروغ  اور سمانی متحرک جذبہ یہ وہ جذبہ ہے جسے ہم اپنے روز مرہ کی زندگی میں لانا ہے۔ صحیح معنی میں ، یہی مہاتما گاندھی کو سچی خراج عقیدت ہے، سچی کاریانجلی ہے۔ اس طرح کے مواقع تو بہت آتے ہیں، ہم منسلک بھی ہوتے ہیں، لیکن کیا گاندھی 150؟ ایسے ہی آکر کے چلا جائے، ہمیں منظور ہے کیا؟ جی نہیں ہم وطنوں۔ ہم سب اپنے آپ سے ؛سوال کریں، غور و فکر کریں، اجتماعی طور پر بات چیت کریں۔ ہم معاشرے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر ، سبھی زمروں کے ساتھ مل کر ، سبھی عمر کے لوگوں کے ساتھ مل کر – گاؤں ہو، شہر ہو، مرد ہو ، خواتین ہو، سب کے ساتھ مل کر ، معاشرے کے لیے ، کیا کریں – ایک شخص کے ناطے، میں ان کوششوں میں کیا جوڑوں۔ میری طرف سے ویلیو ایڈیشن کیا ہو؟ اور اجتماعیت کی اپنی ایک قوت ہوتی ہے۔ ان سبھی ، گاندھی 150، کے پروگراموں میں، اجتماعیت بھی ہو، اور خدمت بھی ہو۔ کیوں نہ ہم مل کر پورا گاؤں نکل پڑیں۔ اگر ہماری فٹبال کی ٹیم ہے، تو فٹبال کی ٹیم ، فٹبال تو کھیلیں گے ہی لیکن ایک –آدھ گاندھی کے نظریات کے مطابق بھی خدمات انجام دے گی۔ہماری خواتین کلب ہے۔ جدید دور کی خواتین کلب کے جو کام ہوتے ہیں وہ کرتے رہیں گے لیکن خواتین کلب کی سبھی سہیلیاں مل کر کوئی نہ کوئی ایک خدمت کا کام ساتھ مل کر کریں گی۔ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ کتابیں اکٹھا کریں، پرانی، غریبوں کو باٹیں، علم کی اشاعت کریں اور میں مانتا ہوں شاید 130 کروڑ ہم وطنوں کے پاس ، 130 کروڑ تصورات ہیں۔ 130 کروڑ انٹرپرائزز ہو سکتے ہیں۔ کوئی تحدید نہیں ہے، جو من میں آئے ، بس خواہش ہو ، نیک نیتی ہو اور پوری لگن ہو اور وہ بھی سوانتہ سُکھائیہ – ایک انوکھے جذبے کے احساس کے لیے ہو۔

میرے پیارے ہم وطنوں، کچھ مہینے پہلے میں گجرات میں ڈانڈی گیا تھا۔ آزادی کی تحریک میں، نمک ستیہ گرہ، ڈانڈی ایک بہت ہی بڑا اور اہم موڑ ہے۔ ڈانڈی میں، میں نے مہاتما گاندھی کے نام وقف نہایت جدید ایک میوزیم کا افتتاح کیا تھا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آنے والے وقت میں مہاتما گاندھی سے منسلک  کسی نہ کسی ایک جگہ کا سفر  ضرور کریں۔  یہ کوئی بھی مقام ہو سکتا ہے۔ جیسے پوربندر ہو، سابرمتی آشرم ہو، چمپارن ہو، وردھا کا آشرم ہو اور دلی میں مہاتما گاندھی سے منسلک مقامات ہوں۔  آپ جب ایسے مقامات پر جائیں تو اپنی تصویروں کو سوشل میڈیا پر شیئر ضرور کریں تاکہ دیگر لوگ بھی اُس سے ترغیب حاصل کرے اور اس کے ساتھ اپنے جذبے کا اظہار کرنے والے دو چار جملے بھی لکھیں۔ آپ کے دل کے اندر سے اٹھے ہوئے جذبے کسی بھی بڑے ادب کی تخلیق سے زیادہ طاقتور ہوں گے اور ہو سکتا ہے آج کے وقت میں، آپ کی نظر میں ، آپ کے قلم سے لکھے ہوئے گاندھی کا روپ شاید یہ زیادہ موزوں بھی لگے۔ آنے والے وقت میں بہت سارے پروگراموں، مقابلوں، نمائشوں کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے لیکن اس تعلق سے ایک بات بہت دلچسپ ہے جو میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ وینس  بی نیل نام کا ایک بہت مشہور آرٹ شو ہے جہاں دنیا بھر کے فن کار جمع ہوتے ہیں۔ اس بار وینس بی نیل کے انڈیا پویلین میں گاندھی جی کی یادوں سے جڑی بہت سی دلچسپ نمائشیں لگائی گئیں، اس میں ہری پوراپینل خاص طور سے دلچسپ تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گجرات کے ہری پورا میں کانگریس کا اجلاس ہوا تھا جہاں سبھاش چندر بوس کے صدر منتخب ہونے کا واقعہ تاریخ میں رقم ہے۔ ان آرٹ پینلوں کا ایک بہت ہی خوبصورت ماضی ہے۔ کانگریس کے ہری پورا اجلاس سے پہلے 38-1937 میں مہاتما گاندھی نے شانتی نکیتن  کلا بھون کے اُس وقت کے پرنسپل نند لال بوس کو مدعو کیا تھا۔ گاندھی جی چاہتے تھے کہ وہ ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کی طرز زندگی کو آرٹ کے توسط سے دکھائیں اور ان کی اس آرٹ ورک کی نمائش اجلاس کے دوران ہو۔ یہ وہی نند لال بوس ہیں جن کا آرٹ ورک ہمارے آئین کی زینت بڑھاتا ہے۔ آئین کو ایک نئی شناخت دیتا ہے اور ان کے اس آرٹ نے آئین کے ساتھ ساتھ نند لال بوس کو بھی لافانی بنا دیا ہے۔ نند لال بوس نے ہری پورہ کے آس پاس کے گاؤں کا دورہ کیا اور آخر میں دیہی ہندوستان کی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے کچھ آرٹ کینوس بنایا۔ اس انمول فن کاری کی وینس میں زبردست ذکر ہوا۔ ایک بار پھر، گاندھی جی کی 150ویں یوم پیدائش کی مبارکبادیوں کے ساتھ میں ہر ہندوستانی سےکسی نہ کسی عزم کی توقع کرتا ہوں۔ ملک کے لیے ، معاشرے کے لیے، کسی اور کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے، یہی باپو کو اچھی، سچی ، مستند خراج عقیدت ہوگی۔

مادرِ وطن کے سپوتوں، آپ کو یاد ہوگا کی گذشتہ کچھ سالوں میں 2 اکتوبرسے پہلے تقریبا  دو ہفتہ تک ملک بھر میں ‘سوچھتا ہی سیوا ’ مہم چلاتے ہیں۔ اس بار ےیہ 11 ستمبر سے شروع ہوگا۔ اس دوران ہم اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل کر شرم دان کے ذریعہ مہاتما گاندھی کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ گھر ہو یا گلیاں، چوک چوراہے ہوں یا نالیاں، اسکول، کالج سے لے کر سبھی عوامی مقامات پر سوچھتا کی بڑی مہم چلانی ہے۔ اس بار پلاسٹک پر خصوصی زور دینا ہے۔ 15 اگست کہ لال قلعہ سع میں نے یہ کہا کہ جس جوش اور توانائی کے ساتھ سوا سو کروڑ ہم وطنوں نے سوچھتا  کے لیے مہم چلائی ۔ کھلے میں رفع حاجت سے نجات کے لیے کام کیا۔ اسی طرح ہمیں ساتھ مل کر سنگل یوز پلاسٹک کے استعمال کو ختم کرنا ہے۔ اس مہم کو لے کر معاشرے کے سبھی طبقوں میں جوش ہے ۔ میرے متعدد بیوپاری بھائی –بہنوں نے دکان میں ایک تختی لگا دی ہے، ایک پلے کارڈ لگا دیا ہے۔ جس پر یہ لکھا ہے کہ خریدار اپنا تھیلا ساتھ لے کر ہی آئیں۔ اس سے پیسہ بھی بچے گا اور ماحول کے تحفظ میں وہ اپنا تعاون بھی دے پائیں گے۔ اس بار 2 اکتوبر کو جب باپو کے 150 ویں یوم پیدائش منائیں گے تو اس موقع پر ہم انہیں نہ صرف کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہندوستان وقف کریں گے بلکہ اس دن پورے ملک میں پلاسٹک کے خلاف ایک نئی عوامی تحریک کی بنیاد رکھیں گے۔ میں معاشرے کے سبھی طبقوں سے ، ہر گاؤں، قصبے میں اور شہر کے مکینوں سے اپیل کرتا ہوں ، درخواست کرتا ہوں کہ اس سال گاندھی جینتی ایک طرح سے ہماری اس بھارت ماتا کو پلاسٹک کچڑے سے نجات کے روپ میں منائیں۔ 2 اکتوبر کو خاص دن کے روپ میں منائیں ۔ مہاتما گاندھی کا یوم پیدائش ایک خاص شرم دان کا تہوار بن جائے ۔ ملک کی سبھی نگر پالیکا، نگر نگم ، ضلع انتظامیہ ، گرام پنچایت، سرکاری و غیر سرکاری سبھی انتظامات ، سبھی ادارے ، ایک ایک شہری ہر کسی سے میری گذارش ہے کہ پلاسٹک کچڑے کے کلکشن اور اسٹوریج کے لیے معقول انتظام ہو۔ میں کارپوریٹ سیکٹر سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ جب پلاسٹک  کے یہ سارے فضلہ جمع ہو جائیں تو اسے مناسب طور پر ٹھکانے لگانے کے لیے آگے آئیں، ڈسپوزل کے انتظامات کریں۔ اسے ری سائیکل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ایندھن بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح اس دیوالی تک ہم اس پلاسٹک کچڑے سے محفوظ طریقے سے  نمٹنے کا بھی کام پورا کر سکتے ہیں۔ بس عزم کرنا ہے۔ تحریک کے لیے ادھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ، گاندھی سے بڑی تحریک کیا ہو سکتی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنوں، ہمارے سنسکرت سبھاشت میں ایک طرح سے علم کے جوہر موجود  ہیں ۔ ہمیں زندگی میں جو چاہیے وہ اس میں مل سکتا ہے۔ ان دنوں  تو میرا رابطہ بہت کم ہو گیا ہے لیکن پہلے میرا رابطہ تھا۔ آج میں سنسکرت سے ایک بہت اہم بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور یہ صدیوں پہلے لکھی گئی باتیں ہیں، تاہم آج بھی اس کی اہمیت برقرار ہے۔ ایک عمدہ سبھاشت ہے اور اسے سنسکرت کے سبھاشت نے کہا ہے :

‘‘پرتھویان ترینی رتنانی جلامنن سبھاشیتم۔

مودھے: پاشان کھنڈیشو رتن سنگیا پرادیتے’’۔

یعنی کہ زمین میں پانی، اناج اور سبھاشت – یہ تین رتن ہیں۔ احمق لوگ پتھر کو رتن کہتے ہیں۔ ہماری ثقافت میں اناج کی بہت زیادہ عظمت رہی ہے۔ یہاں تک کہ ہم نے اناج کے علم کو بھی سائنس میں بدل دیا ہے۔ متوازن اور قوت بخش غذا ہم سبھی کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے لیے ، کیونکہ یہ ہی ہمارے معاشرے کے مستقبل کی بنیاد ہیں۔ ‘قوت بخش مہم’ کے تحت پورے ملک بھر میں جدید سائنسی طریقوں سے تغذیہ کو عوامی تحریک بنایا جا رہا ہے ۔ لوگ نئے اور دلچسپ انداز سے غذائی قلت سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ کبھی میری توجہ ایک بات  کی دلائی گئی تھی۔ ناسک میں ‘مٹھی بھر دھان’ ایک بڑی تحریک بن گئی ہے۔ اس میں فصل کی کٹائی کے دنوں میں آگن واڑی سے جڑی رضاکارخواتین لوگوں سے ایک مٹھی اناج  جمع کرتی ہیں۔ اس اناج کا استعمال بچوں اور خواتین کے لیے گرم کھانا بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس میں عطیہ دینے والا شخص ایک طرح سے باشعور شہری معاشرہ  خدمتگار بن جاتا ہے ۔ اس کے بعد وہ  خود کو اس مقصد کے لیے وقف کردیتا ہے۔ اس تحریک کا وہ ایک سپاہی بن جاتا ہے ۔ ہم سبھی  نے کنبوں میں ہندوستان کے ہر خطے میں‘ اَنّ پراشن سنسکار’  کے بارے میں سنا ہے۔ یہ سنسکار تب کیا جاتا ہے جب بچے کو پہلی بار ٹھوس اناج کھلانا شروع کرتے ہیں۔ لیکوئیڈ فوڈ نہیں سولڈ فود۔ گجرات نے 2010 میں سوچا کہ کیوں نہ‘ اَنّ پراشن سنسکار’ کے موقع پر بچوں کو کمپلمنٹری فوڈ دیا جائے تاکہ لوگوںکو  اس  سلسلے میں  بیدارکیا جا سکے ۔ کئی ریاستوں میں لوگ ‘تیتھی بھوجن ابھیان’ چلاتے ہیں۔ اگر خاندان میں یوم پیدائش ہو، کوئی مبارک دن ہو، کوئی یادگار دن ہو، تو خاندان کے لوگ قوت بخش اور لذیذ کھانا بنا کر آگن واڑی میں جاتے ہیں، اسکولوں میں جاتے ہیں اور خاندان کے لوگ خود بچوں کو پیش کرتے ہیں، کھلاتے ہیں۔ اپنی خوشی بھی بانٹتے ہیں اور خوشی میں اضافہ کرتے ہیں۔ خدمت کے جذبے اور خوشی کے جذبے کا انوکھا ملن نظر آتا ہے۔ ساتھیوں، ایسی کئی ساری چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جن سے ہمارا ملک غذائی قلت کے خلاف ایک مؤثر لڑائی لڑ سکتا ہے۔ آج بیداری کی کمی کے باعث غذائی قلت سے غریب بھی  اور خوشحال بھی دونوں طرح کے خاندان متاثر ہیں۔ پورے ملک میں ستمبر کا مہینہ ‘غذائی مہم’ کے طور پر منایا جائے گا۔ آپ ضرور اس سے جڑیں، معلومات حاصل کریں، کچھ نیا کریں، آپ بھی تعاون دیں۔ اگر آپ ایک فردکو بھی غذائی قلت سے باہر لاتے ہیں تو مطلب ہم ملک کو غذائی قلت سے باہر لاتے ہیں۔

‘‘ہیلو سر، میرا نام سرشٹی ودّیا ہے اور میں سکنڈ ایر کی اسٹوڈنٹ ہوں، سر میں نے 12 اگست کو آپ کا اپیسوڈ دیکھا تھا ، بیئر گریلس کے ساتھ، جس میں آپ آئے تھے۔ تو سر مجھے وہ آپ کا اپیسوڈ دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ سب سے پہلے تو یہ سن کر اچھا لگا کہ آپ کو ہمارے نیچر ، وائلڈ لائف اور انوارنمنٹ کی کتنی فکر ہے ، کتنی زیادہ کیئر ہے اور سر مجھے بہت اچھا لگا آپ کو اس نئے روپ میں، ایک ایڈونچرس روپ میں دیکھ کر۔ تو سر ، میں جاننا چاہوں گی کہ آپ کا اس اپیسوڈ کے دوران تجربہ کیسا رہا اور سر لاسٹ میں ایک بات اور جوڑنا چاہوں گی کہ آپ کا فٹنیس لیول دیکھ کر ہم جیسے ینگسٹر بہت زیادہ امپریس اور بہت زیادہ موٹیویٹ ہوئے ہیں، آپ کو اتنا فٹ اور فائن دیکھ کر ۔’’

سریشٹی جی آپ کے فون کال کا شکریہ۔ آپ ہی کی طرح ، ہریانہ میں ، سوہنا سے کے کے پانڈے جی اور سورت کے ایشوریا شرما جی کے ساتھ ، بہت سارے لوگوں نے ڈسکوری چینل پر دکھائے گئے ‘مین ورسز وائلڈ’ اپیسوڈ کے بارے میں جاننا چاہا ہے۔ اس بار جب من کی بات  کے لیے میں سوچ رہا تھا تو مجھے پورا بھروسہ تھا کہ اس موضوع پر بہت سارے سوال آئیں گے اور ہوا بھی ایسا ہی اور پچھلے کچھ ہفتوں میں میں جہاں بھی گیا لوگوں سے ملا ہوں وہاں ‘‘مین ورسز وائلڈ’’ کا بھی ذکر آ ہی جاتا ہے۔ اس ایک اپیسوڈ سے میں نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر سے جڑ گیا ہوں۔ میں نے بھی کبھی سوچا نہیں تھا کہ دلوں میں اس طرح سے میرے لیے جگہ بن جائے گی۔ میں نے بھی کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہمارے ملک کے اور دنیا کے نوجوان کتنی متنوع چیزوں کی طرف دھیان دیتے ہیں ۔ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ کبھی دنیا بھر کے نوجوان کے دل کو چھونے کا میری زندگی میں موقع آئے گا۔ اور ہوتا کیا؟ ابھی پچھلے ہفتہ میں بھوٹان گیا تھا ۔ میں نے دیکھا ہے کہ وزیر اعظم کے روپ میں مجھے جب سے جہاں بھی جانے کا موقع ملا اور بین الاقوامی یوگ دیوس کی وجہ سے صوتحال یہ ہوگئی ہے کہ دنیا میں جس کسی کے پاس جاتا ہوں ، بیٹھتا ہوں، کوئی نہ کوئی پانچ سات منٹ تو یوگ سے متعلق مجھ سے سوال جواب کرتے ہی کرتے ہیں۔ شاید ہی دنیا کا کوئی بڑا ایسا لیڈر ہوگا جس نے مجھ سے یوگ سے متعلق پوچھا نہ ہو اور یہ پوری دنیا میں میں میرا تجربہ آیا ہے۔ لیکن ان دنوں ایک تجربہ ہو رہا ہے  ۔ جو بھی ملتا ہے ، جہاں بھی بات کرنے کا موقع ملتا ہے ، وہ وائلڈ لائف کے موضوع پر بات کرتا ہے، ماحولیات سے متعلق بات کرتا ہے۔ ٹائیگر ، لائن ، جاندار فطرت اور میں حیران ہوں کہ لوگوں کی کتنی دلچسپی ہوتی ہے۔ ڈسکوری نے اس پروگرام کو 165 ملکوں میں ان کی زبان میں نشر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ آج جب ماحولیات ، عالمی حدت، ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی فکر کا دور چل رہا ہے، مجھے امید ہے کہ ایسے میں یہ پروگرام ہندوستان کا پیغام ، ہندوستان کی روایت، ہندوستان کے سنسکار کے سفر میں قدرت کے تئیں جذباتیت، اتنی ساری باتوں سے دنیا کو متعارف کرانے میں یہ ڈسکوری چینل کی یہ قسط بہت معاون ہوگا۔ ایسا میرا پختہ یقین ہو گیا ہے  اور ہمارے ہندوستان میں ماحولیاتی انصاف اور صاف ماحولیات کی سمت میں اٹھائے گئے اقدامات کو لوگ اب جاننا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک اور دلچسپ بات ہے کچھ لوگ تذبذب کے ساتھ مجھے ایک بات ضرور پوچھتے ہیں کہ مودی جی بتائیے آپ ہندی بول رہے تھے اور بیئر گریلس ہندی جانتے نہیں ہیں تو اتنی تیزی سے آپ کے درمیان بات چیت کیسے ہوتی تھی؟ یہ کیا بعد میں ایڈٹ کیا ہوا ہے؟ یہ بار بار شوٹنگ ہوئی ہے؟ کیا ہوا ہے؟ بڑے تجسس کے ساتھ پوچھتے ہیں۔ دیکھئے اس میں کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ کئی لوگوں کے من  میں یہ سول ہے، تو میں اس راز کو کھول ہی دیتا ہوں۔ ویسے وہ راز ہے ہی نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بیئر گریلس کے ساتھ بات چیت میں ٹکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا گیا ۔ جب میں کچھ بھی بولتا تھا تو فوراً ہی انگریزی میں بیک وقت ترجمہ ہوتا تھا ۔ بیک وقت تشریح ہوتا تھا اور بیئر گریلس کے کان میں ایک کورڈ لیس چھوٹا سا اوزار لگا ہوا تھا ۔ تو میں بولتا تھا ہندی لیکن اس کو سنائی دیتا تھا انگریزی اور اس کی وجہ سے بات چیت بہت آسان ہو جاتی تھی اور ٹکنالوجی کا یہی تو کمال ہے۔ اس شو کے بعد بڑی تعداد میں لوگ مجھے جم کاربوٹ، نیشنل پارک کے موضوع  پر بات چیت کرتے نظر آئے ۔ آپ لوگ بھی نیچر اور وائلڈ لائف ، فطرت اور حیوانات سے جڑے مقامات پر ضرور جائیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا ، میں ضرور کہتا ہوں آپ کو۔ اپنی زندگی میں شمال مشرقی خطے میں ضرور جائیں۔ کیا فطرت ہے وہاں۔ آپ دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔ آپ کے اندر کی توسیع ہوجائے گی۔ 15 اگست کو لال قلعہ سے میں آپ سبھی سے اپیل کی تھی کہ آئندہ تین سال میں کم از کم 15 مقامات اور ہندوستان کے اندر 15 مقامات اور پوری طرح سو فیصد سیاحت کے لیے ہی ایسے 15 مقامات پر جائیں، دیکھیں، مطالعہ کریں، خاندان کو لے کر جائیں، کچھ وقت وہاں گزاریں۔ تنوع سے بھرپور ملک آپ کو بھی یہ تنوع ایک استاذ کی شکل میں ، آپ کو بھی ، اندر سے تنوع سے بھر دیں گے۔ آپ کی اپنی زندگی کی توسیع ، نئی توانائی ، نیا امنگ، نئی تحریک لے کر آئیں گے اور ہو سکتا ہے کچھ مقامات پر تو بار بار جانے کا دل آپ کو بھی ہوگا، آپ کے خاندان کو بھی ہوگا۔

میرے پیارے ہم وطنوں، ہندوستان میں ماحولیات کے تحفظ اور تشویش یعنی دیکھ بھال کی فکر فطری نظر آ رہی ہے۔ پچھلے مہینے مجھے ملک میں شیروں کی شماری جاری کرنے کا موقع ملا تھا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں کتنے شیر ہیں ؟ ہندوستان میں شیروں کی آبادی 2967ہے۔ کچھ سال پہلے اس سے آدھے بھی بڑی مشکل سے تھے ۔ ہم شیروں کو لے کر 2010 میں روس کے سینٹ پیٹرس برگ میں ٹائیگر چوٹی کانفرنس ہوئی تھی۔ اس میں دنیا میں شیروں کی گھٹتی تعداد کو لے تشویش ظاہر کرتے ہوئے ایک عہد کیا گیا تھا ۔ یہ عہد تھا  2022 تک پوری دنیا میں شیروں کی تعداد کو دوگنا کرنا ۔ لیکن یہ نیو انڈیا ہے ہم ہدف کو جلدی سے جلدی پورا کرتے ہیں ۔ ہم نے 2019 میں ہی اپنے یہاں شیروں کی تعداد دوگنی کر دی۔ ہندوستان میں صرف شیروں کی تعداد ہی نہیں بلکہ محفوظ مقامات اور کمیونٹی ریزورس کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ جب میں شیروں کا ڈاٹا ریلیز کر رہا تھا تو مجھے گجرات کے گیر کے شیر کی بھی یاد آئی ۔ جب میں نے وہاں وزیر اعلی کا عہدہ سنبھالا تھا۔ تب گیر کے جنگل میں شیروں کی آباد کم ہور ہی تھی۔ ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی۔ ہم نے گیر میں ایک کے بعد ایک کئی قدم اٹھائے ۔ 2007 میں وہاں خواتین گارڈس کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا۔ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بنیادی ڈھانچے میں بہتری لائی ۔ جب بھی ہم فطرت اور حیوانات کی بات کرتے ہیں تو صرف کنزرویشن کی ہی بات کرتے ہیں۔ لیکن اب ہمیں کنزرویشن سے آگے بڑھ کر کمپیشن کو لے کر سوچنا ہی ہوگا۔ ہمارے شاستروں سے اس موضوع پر بھی اچھی رہنمائی ملی ہے۔ صدیوں پہلے اپنے شاستروں  میں ہم نے کہا ہے :

نرونو بدھیتا ویاگھرو، نرویاگھرن چھدیتے ونم

تسماد ویاگھرون ونن رکچھتو، ون ویاگھرن نہ پالیتہ

یعنی ، اگر جنگل نہ ہوں تو شیر انسانوں کی آبادی میں آنے کو مجبور ہو جاتے ہیں اور مارے جاتے ہیں اور اگر جنگل میں شیر نہ ہوں ت انسان جنگل کاٹ کر اسے برباد کر دیتے ہیں۔ اس لیے حقیقت میں شیر جنگل کی حفاظت کرتا ہے، نہ کہ جنگل شیر کی۔ کتنے عمدہ طریقے سے موضوع کو ہمارے آباء اجداد نے سمجھا یا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے جنگلوں ، نباتات  اور حیوانات کا نہ صرف تحفظ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایسا ماحول بھی بنانا ہوگا جس سے وہ  صحیح طریقے سے پھل پھول سکیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں، 11 ستمبر 1893 سوامی وویکانند جی کی تاریخی تقریر کون بھلا سکتا ہے۔ پوری دنیا کی انسانی برادری کے جھنجھوڑ دینے والے ہندوستان کا یہ نوجوان سنیاسی دنیا کے اندر ہندوستان کی ایک شاندار شناخت چھوڑ کر آگیا۔ جس غلام ہندوستان کی طرف دنیا بڑی عجیب و غریب نظروں سے دیکھ رہی تھی، اس دنیا کہ 11 ستمبر 1893 سوامی وویکانند جیسی عظیم شخصیت کے الفاظ نے دنیا کو ہندوستان کی طرف دیکھنے کا نظریہ بدلنے کے لیے مجبور کر دیا ۔ آئیے ، سوامی وویکانند جی نے جس ہندوستان کے روپ کو دیکھا تھا۔ سوامی وویکانند جی نے ہندوستان کی جس صلاحیت کو جانا تھا ، ہم اسے جینے کی کوشش کریں ۔ ہمارے اندر ہے ، سب کچھ ہے۔ خود اعتمادی کے ساتھ چل پڑیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں، آپ سبھی کو یاد ہوگا کہ 29 اگست کو ‘قومی کھیل کے دن’ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس موقع پر ملک بھر میں ‘فٹ انڈیا موومنٹ’ لانچ کرنے والے ہیں۔ خود کو فٹ رکھنا ہے، ملک کو فٹ بنانا ہے۔ ہر ایک کے لیے بچے ، بزرگ، نوجوان ، خواتین  سب کے لیے یہ بڑی دلچسپ  مہم ہوگی اور یہ آپ کی اپنی ہوگی۔ لیکن اس کی باریکیاں آج میں بتانے نہیں جا رہا ہوں۔ 29 اگست کا انتظار کیجئے ۔ میں خود اس دن تفصیل سے اس  موضوع پر بتانے والا ہوں اور آپ کو جوڑے بغیر رہنے والا نہیں ہوں۔ کیونکہ آپ کو میں فٹ دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپ کو فٹنس کے لیے بیدار بنانا چاہتا ہوں اور فٹ انڈیا کے لیے ملک کے لیے ہم مل کر کچھ ہدف کا بھی تعین کریں۔

میرے پیارے ہم وطنوں، مجھے آپ کا انتظار رہے گا 29 اگست کو فٹ انڈیا میں۔ ستمبر مہینے میں ‘غذائی مہم’ میں اور خاص طور پر 11 ستمبر سے 02 اکتوبر ‘سوچھتا ابھیان’ میں ۔ اور 02 اکتوبر پوری طرح سے پلاسٹک کے لیے وقف ۔ پلاسٹک سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہم سب ، گھر گھر کے باہر سبھی جگہوں پر پوری طاقت سے لگیں گے اور مجھے پتہ ہے کہ یہ سبھی مہم سوشل میڈیا میں تو دھوم مچا دیں گے۔ آئیے ، ایک نئے امنگ ، نئے عزم نئی  طاقت کے ساتھ چل پڑیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں، آج ‘من کی بات’ میں اتنا ہی ۔ پھر ملیں گے۔ میں آپ کی باتوں کا ، آپ کے مشوروں کا انتظار کروں گا۔ آئیے ہم سب مل کر آزادی کے دیوانوں کے خوابوں کا ہندوستان بنانے کے لیے گاندھی کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے چل پڑیں۔ ‘سوانتہ: سوکھائے:’۔ باطن کی خوشی کو خدمت کے جذبے سے ظاہر کرتے ہوئے چل پڑیں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More