اقلیتی اُمور کے مرکزی وزیر جناب مختار عباس نقوی نےآج یہاں کہا کہ حکومت کاعہد ‘‘سیاسی طور پر بااختیار بنانا ہے سیاسی استحصال کرنا نہیں’’۔ انہوں نے کہا کہ متعدد جرأتمند اور بڑے اصلاحات ہماری ایمانداری کے عکاس ہیں اور مؤثر کوششوں سے بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
جناب مختار عباس نقوی ورچوول کانفرنس کے ذریعے مرکزی وزیر قانون جناب روی شنکر پرساد، خواتین اور بچوں کی ترقی کی مرکزی وزیر محترمہ اسمرتی ایرانی کے ہمراہ ‘‘مسلم خواتین کےحقوق کے دن ’’ کے موقع پر ملک بھر کی مسلم خواتین سے خطاب کررہے تھے۔ اس پروگرام میں اقلیتوں کے قومی کمیشن کے نائب چیئر پرسن جناب منجیت سنگھ رائے بھی موجود تھے۔
جناب نقوی نے کہا کہ ‘‘یکم اگست وہ دن ہے جس دن مسلم خواتین طلاق ثلاثہ کی سماجی لعنت سے آزاد ہوئیں۔ یکم اگست ملک کی تاریخ میں مسلم خواتین کے حقوق کے دن کے طور پر درج ہوگیا ہے۔ یکم اگست ہندوستانی جمہوریت اور پارلیمانی جمہوریت کیلئے سنہرے لمحے کے طور پر رہے گا’’۔
جناب نقوی نے کہا کہ وہ قانون جو طلاق ثلاثہ کی سماجی لعنت کو ایک جرم قرار دیتاہے ، نے ملک کی مسلم خواتین کی خود پر بھروسہ کرنے،عزت نفس اورخود اعتمادی کو مستحکم کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے طلاق ثلاثہ کی ظالمانہ سماجی لعنت کے خلاف قانون لاکر صنفی مساوات کو یقینی بنایا ہے اور مسلم خواتین کے آئینی، بنیادی اور جمہوری حقوق کو مستحکم کیا ہے۔
جناب نقوی نے کہا کہ طلاق ثلاثہ یا طلاق بدعت نہ تو اسلامی طور پر درست تھی نہ ہی قانونی طورسے۔ اس حقیقت کے باوجود ووٹوں کے سوداگروں کے ذریعے طلاق ثلاثہ کی سماجی لعنت کو سیاسی سرپرستی دی گئی تھی۔
جناب نقوی نے کہا کہ طلاق ثلاثہ کی سماجی لعنت کے خلاف قانون 1986 میں اسی وقت بنایا جاسکتا تھا جب سپریم کورٹ نے شاہ بانو معاملے میں تاریخی فیصلہ دیاتھا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ‘‘کانگریس کو پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت حاصل تھی، اس کے پاس لوک سبھا کے 545اراکین میں سے 400 سے زیادہ اراکین تھے اور راجیہ سبھا میں 245 اراکین میں سے 159 سے زیادہ اراکین تھے لیکن اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیرمؤثر کرنے اور مسلم خواتین اس کے آئینی اور جمہوری حقوق سے محروم کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں اپنی طاقت کا استعمال کیا۔
جناب نقوی نے کہا کہ مسلم اکثریت والے دنیاکے متعددملکوں نے پہلے ہی طلاق ثلاثہ کو غیرقانونی اور غیراسلامی قرار دے دیا تھا۔ مصرپہلامسلم ملک تھا جس نے اس سماجی لعنت کو 1929 میں ختم کیا تھا۔ سوڈان نے 1929 میں،پاکستان نے 1956 میں، بنگلہ دیش نے 1972 میں ،عراق نے 1959 میں ، شام نے 1953 میں، ملیشیا نے 1969 میں طلاق ثلاثہ کے رواج کو ختم کردیا تھا۔ ان ملکوں کے علاوہ قبرص،اردن، الجیریا، ایران، برونئی،مراکش، قطر ،متحدہ عرب امارات جیسے ملکوں نے بھی برسوں قبل اس سماجی لعنت کو ختم کردیا ہے۔ لیکن ہندوستان میں مسلم خواتین اس ظالمانہ سماجی لعنت سے آزادی حاصل کرنےکیلئے دہائیوں تک جدوجہد کرتی رہیں۔
وزیر موصوف نے کہاکہ حکومت نےسپریم کورٹ کے فیصلے کو مؤثر بنانے کیلئے طلاق ثلاثہ کیخلاف قانون بنایا ہے۔ طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون کو ایک سال ہوچکے ہیں اور ایک ہی سال میں طلاق ثلاثہ کےمعاملات میں تقریباً 82 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر طلاق ثلاثہ کاکوئی معاملہ پیش آیاہے تو قانون نے کارروائی کی ہے۔
اس موقع پراظہار خیال کرتےہوئے قانون وانصاف کےمرکزی وزیر جناب روی شنکر پرساد نے کہاکہ ہندوستان کو طلاق ثلاثہ کےخلاف قانون بنانےکیلئے 70سال کاعرصہ کیوں لگا؟ انہوں نےاس بات کو اجاگر کیا کہ یہ قانون خواتین کےحقوق اور عزت نفس کاقانون ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مسلم خواتین کو ڈیجیٹل طور پر خواندہ بنانے کیلئے تجاویزدینے کی سمت میں کام کریں گے۔
اپنے خطاب میں محترمہ اسمرتی ایرانی نے کہاکہ طلاق ثلاثہ کے بل کا پاس ہونا کروڑوں مسلم خواتین کیلئے جیت ہے، انہوں نے اس قانون کو سب کا ساتھ، سب کاوکاس، سب کا وشواس کی سچی گواہی قرار دیا۔
اس موقع پروزیروں نے ورچوول کانفرنس کے ذریعے ملک کی مختلف ریاستوں کی مسلم خواتین سے خطاب کیا۔ ملک کے مختلف مقامات بشمول نئی دہلی کے اُتم نگر اور بٹلہ ہاؤس ،اترپردیش میں گریٹر نوئیڈا،لکھنؤ اور وارانسی، راجستھان میں جے پور، مہاراشٹر میں ممبئی ،مدھیہ پردیش میں بھوپال، تملناڈو میں کرشناگیری اور حیدرآباد سے تقریباً 50 ہزار مسلم خواتین نے ورچوول کانفرنس میں شرکت کی۔