16.7 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

وزیر خزانہ نے پارلیمنٹ میں 2017-18 کا اقتصادی جائزہ پیش کیا

Urdu News

پچھلے سال کے دوران کئی بڑے اصلاحی اقدامات کی وجہ سے رواں مالی سال کے دوران مجموعی گھریلو  پیداوار (جی ڈی پی) کی حقیقی شرح ترقی 6.75 فیصد تک پہنچے گی، جبکہ 2018-19 میں یہ بڑھ کر 7.0 سے 7.5 فیصد تک ہوجائے گی۔ اس طرح بھارت پھر سے دنیا کی سب سے تیز تر ترقی کرنے والی بڑی معیشت بن جائے گا۔ یہ بات آج خزانہ اور کارپوریٹ امور کے  مرکزی وزیر جناب ارون جیٹلی نے پارلیمنٹ میں 2017-18 کا اقتصادی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہی۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ 2017-18 میں کئے گئے اصلاحی اقدامات کو 2018-19 میں مزید مستحکم کیا جاسکتا ہے۔

سروے میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ یکم جولائی 2017 کو یکسر تبدیلی والے اشیاء اور خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) کے آغاز، زیادہ دباؤ والی بڑی کمپنیوں کو نئے انڈین بینکرپسی کوڈ کے تحت حل تلاش کرنے کے لئے بھیج کر دہری بیلنس شیٹ کے طویل مدتی مسئلے کے حل، سرکاری سیکٹر کے بینکوں کو مستحکم کرنے کے لئے پھر سے پونچی لگانے کے بڑے پیکج کے نفاذ، ایف ڈی آئی میں مزید نرمی اور عالمی بحالی کے ساتھ  برآمدات میں اضافے کی وجہ سے معیشت میں سال کی دوسری شش ماہی میں شرح ترقی میں تیزی حاصل کرنی شروع کی اور اس طرح اس سال شرح ترقی 6.75 فیصد تک پہنچ سکی ہے۔ سروے میں اجاگر کیا گیا ہے کہ ہر سہ ماہی کے تخمینے کے مطابق 2017-18 کی دوسری سہ ماہی میں صنعتی سیکٹر کی قیادت میں  جی ڈی پی کی شرح ترقی میں گراوٹ کا رجحان تھا۔  2016-17 کے مقابلے، جس میں مجموعی قدر میں اضافہ (جی وی اے) 6.6 فیصد تھا، 2017-18 میں قائم بنیادی قیمت  پر جی وی اے میں6.1 کی شرح سے بڑھنے کی امید ہے۔ اسی طرح 2017-18 میں  زراعت، صنعت اور خدمات کے سیکٹر میں باالترتیب 2.1 فیصد، 4.4 فیصد اور 1.3 فیصد کی شرح ترقی حاصل ہونے کی امید ہے۔ سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ کئی برسوں تک منفی اشارئے میں رہنے کے بعد 2016-17 کے دوران برآمدات کی شرح ترقی پھر سے ایک فیصد ہوئی ہے اور 2017-18 میں اس کی شرح ترقی میں تیزی آنے کی امید ہے۔ البتہ درآمدات میں متوقع زیادہ اضافے کی وجہ سے اشیاء اور خدمات کی کل برآمدات میں 2017-18 کے دوران کمی آنے کی امید ہے۔ اسی طرح تیز تر اقتصادی ترقی کے باوجود جی ڈی پی کے تناسب سے بچت اور سرمایہ کاری میں عام طور پر کمی آئی ہے۔ سرمایہ کاری شرح میں سب سے زیادہ کمی 2013-14 میں ہوئی تھی،  البتہ 2015-16 میں بھی اس میں کمی آئی۔ اس پس منظر میں گھریلو سیکٹر کی حصہ داری میں کمی آئی ہے جبکہ پرائیویٹ کارپوریٹ سیکٹر کی حصہ داری میں اضافہ ہوا۔

 جائزے میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ دنیا  میں بھارت کو بہترین کارکردگی والی معیشتون میں شمار کیا جاسکتا ہے کیونکہ  پچھلے تین برسوں میں بھارت کی اوسط شرح ترقی عالمی شرح ترقی سے 4 پرسنٹیج  پوائنٹ، جبکہ ابھرتی  ہوئی مارکیٹ اور ترقی پذیر معیشتوں سے تقریبا تین پرسنٹیج پوائنٹ زیادہ ہے۔ اس میں یہ بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ 2014-15 سے 2017-18 کے عرصے میں جی ڈی پی کی شرح ترقی اوسطا 7.3 فیصد رہی ہے، جو دنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے اور یہ شرح ترقی کم افراط زر، چالو کھاتے کے بہتر توازن اور جی ڈی پی کے تئیں مالی خسارے کے تناسب میں قابل قدر کمی کے ساتھ حاصل ہوئی ہے جو زیادہ قابل ستائش ہے۔ اگرچہ کچھ ملکوں میں تحفظاتی رجحانات میں اضافے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے لیکن ابھی یہ دیکھنا باقی  ہے کہ صورت حال کس طرح بدلتی ہے۔ آنے والے سال میں کچھ عناصر کا جی ڈی پی کی شرح ترقی پر بڑا اثر پڑسکتا ہے یعنی بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا امکان، البتہ 2018 میں عالمی ترقی میں معتدل بہتری آنے کی امید ، جی ایس ٹی میں زیادہ استحکام کے امکان، سرمایہ کاری کی سطح میں بحالی اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات وغیرہ سے، جن میں دیگر بھی شامل ہیں، زیادہ شرح ترقی کے لئے معاون ہوسکتی ہیں۔ اس کے  نتیجے میں 2018-19 میں ملک کی معاشی کارکردگی میں بہتری پیدا ہوگی۔

 جائزے میں اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ کلی معاشیات (میکرو اکنامکس) کی ابھرتی ہوئی تشویش کے خلاف آنے والے سال میں انتہائی چوکسی کی ضرورت ہے، خاص طور پر اگر تیل کی بین الاقوامی قیمتیں زیادہ رہتی ہیں یا بڑھے ہوئے اسٹاک کی قیمتیں تیزی سے کم ہوتی ہیں یا پونجی کی آمد میں اچانک رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو نگرانی کی بہت ضرورت ہے۔ اس لئے اگلے سال کا ایجنڈے بھرپور ہوگا جس میں جی ایس ٹی کو مستحکم کرنے، ٹی بی ایس کارروائی کی تکمیل، ایئر انڈیا کی نج کاری اور میکرو اکنامکس کے استحکام کو لاحق خطرات کو دور کرنا شامل ہیں۔ ٹی بی ایس کارروائی میں طویل مدت سے باہر نکلنے، کے مسئلے کو حل کرنا، غیر مفید بینکوں کی سرگرمیوں کو کم کرنا اور پرائیویٹ سیکٹر کی زیادہ شرکت کو اجازت دینا شامل ہے۔ جی ایس ٹی کونسل امداد باہمی پر مبنی وفاق کے لئے ایک مثالی ٹیکنالوجی کی پیش کش کرتی ہے  جو کئی دیگر پالیسی اصلاحات پرنافذ ہوتی ہے۔ وسط مدت میں پالیسی کی توجہ تین شعبوں پر مرکوز ہے: روزگار، نوجوانوں، خاص طور پر خواتین کے لئے اچھے روزگار کی تلاش، تعلیم، ایک تعلیم یافتہ اور صحت مند افراد ی قوت تشکیل دینا، زراعت، زرعی بحالی کو مستحکم کرتے ہوئے کھیتی کی پیداواریت میں اضافہ کرنا اور سب سے زیادہ یہ کہ بھارت کو تیز تر اقتصادی ترقی کے لئے ماحول کو مسلسل بہتر بنانا اور حقیقی پائیدار کی ترقی کے انجن-پرائیویٹ سرمایہ کاری اور برآمدات کو فروغ دینا ہے۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More