Online Latest News Hindi News , Bollywood News

چینی کی پیداوار میں کمی لائیں اور ایتھنول میں منتقلی بڑھائیں، چینی صنعت کی بہتری کے لئے یہ ضروری ہے: مرکزی وزیر نتن گڈکری

Urdu News

نئی دہلی،  20/مارچ 2022 ۔ سڑک نقل و حمل اور شاہراہوں کے مرکزی وزیر جناب نتن گڈکری نے چینی ملوں سے بدلتے وقت کی ضرورتوں اور ملک کی ضرورتوں کے مطابق چینی کو ایتھنول میں بدلنے کی اپیل کی ہے۔ جناب گڈکری نے چینی اور متعلقہ صنعتوں کے لیڈروں کو انتباہ دیا کہ اگر چینی کی پیداوار موجودہ وقت کی طرح ہی آگے بڑھتی رہی تو یہ آنے والے وقت میں صنعت کے لئے نقصان دہ ہوگا۔ یہ یاد دلاتے ہوئے کہ ایک ملک کے طور پر ہم رائس – سرپلس، کورن – سرپلس اور شوگر – سرپلس ہیں۔ جناب گڈکری نے کہا کہ ہمارے مستقبل کے لئے چینی کی پیداوار کم کرنا اور ایتھنول کی پیداوار بڑھانا بہتر ہے۔

جناب گڈکری آج یعنی 20 مارچ 2022 کو ممبئی میں شوگر اینڈ ایتھنول انڈیا کانفرنس (ایس ای آئی سی) 2022 سے خطاب کررہے تھے۔ چینی اور متعلقہ صنعتوں کے لئے نیوز اور انفارمیشن پورٹل چینی منڈی کے ذریعہ منعقدہ اس کانفرنس میں گھریلو اور عالمی چینی کی تجارت میں درپیش بڑے چیلنجوں اور رسک رسپانس اسٹریٹیجی اور بھارت میں ایک زیادہ اختراعاتی اور پائیدار چینی و ایتھنول شعبے کی تعمیر کرنے کے مستقبل کے منصوبے پر تبادلہ خیال کے لئے گھریلو اور عالمی صنعت کے معروف ماہرین کو ایک ساتھ لانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

ایتھنول کی اعلیٰ تر معیشت

جناب گڈکری نے بتایا کہ کس طرح ایتھنول کی معیشت ڈیزل یا پٹرول کے ذریعے چلائی جانے والی گاڑیوں کے لئے بہترین ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے فلیکس انجن کے تعلق سے ایڈوائزری جاری کی ہے۔ ٹویوٹا، ہنڈئی اور سوزوکی نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ چھ مہینے کے اندر فلیکس انجن لگائیں گے۔ حال ہی میں ہم نے گرین ہائیڈروجن سے چلنے والے تجرباتی  کار لانچ کئے ہیں۔ ٹویوٹا کے چیئرمین نے مجھے بتایا کہ ان کی کار فلیکس ہے – یا تو 100 پٹرول یا 100 فیصد ایتھنول اور آنے والے دنوں میں ٹویوٹا کاروں کو ہائی برڈ بجلی سے چلایا جائے گا، جو 40 فیصد بجلی کی پیداوار کرے گی اور 100فیصد ایتھنول کا استعمال کرکے 60 فیصد دوری طے کرے گی۔ پٹرول کے مقابلے میں یہ اقتصادی طریقہ زیادہ فائدہ مند ہوگا۔

جناب گڈکری نے بتایا کہ بھارت سرکار نے شہریوں کے لئے ایتھنول بھرنے کے لئے بایوفیول آؤٹ لیٹ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے اور کار، اسکوٹر، موٹر سائیکل اور رکشہ فلیکس انجن پر دستیاب ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے پونے میں تین ایتھنول پمپوں کا افتتاح کیا ہے۔ حالانکہ ابھی تک کوئی ایتھنول بھرنے نہیں آیا ہے، ایسا اس لئے ہے کیونکہ بجاج، ٹی وی ایس اور ہیرو نے فلیکس انجن سے چلنے والی موٹر سائیکلیں لانچ کی ہیں۔ فلیکس انجن پر اسکوٹر اور موٹر سائیکل دستیاب ہے۔ وہ ایتھنول سے چلنے والا آٹورکشہ بھی لانچ کرنے کے لئے تیار ہیں۔

جناب گڈکری نے ایتھنول کی پیداوار کرنے والی سبھی چینی ملوں کو اپنے کارخانوں اور دیگر شعبوں میں ایتھنول پمپ کھولنے کے لئے رغبت دلائی۔ انھوں نے کہا کہ اس سے 100 فیصد اسکوٹر، آٹو رکشہ اور کار ایتھنول سے چل سکتے ہیں اور اس طرح ایتھنول کے استعمال میں اضافہ ہوگا، آلودگی میں کمی آئے گی، درآمدات کم ہوں گی اور گاؤں میں لوگوں کو روزگار بھی دستیاب ہوسکے گا۔

’’ایتھنول کے لئے یقیناً ایک بہت بڑا بازار دستیاب ہوگا‘‘

جناب گڈکری نے یقین دلایا کہ کسی کو بھی اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیا ایتھنول کے لئے خاطرخواہ بڑا بازار دستیاب ہوسکے گا۔ انھوں نے انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ ایتھنول ایک ہرا اور صاف ستھرا ایندھن ہے، ہم فی الحال 465 کروڑ لیٹر ایتھنول کی پیداوار کررہے ہیں۔  جب ای-20 پروگرام پورا ہوجائے گا تو ہماری ضرورت تقریباً 1500 کروڑ لیٹر کی ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ آنے والے پانچ برسوں میں جب فلیکس انجن تیار ہوجائیں گے تو ایتھنول کی ضرورت 4000 کروڑ لیٹر ہوجائے گی۔ اس لئے اگر آپ ایتھنول میں منتقل نہیں ہوتے ہیں اور چینی کی پیداوار جاری رکھتے ہیں تو میل خسارے میں چلی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ایک عملی متبادل گنے کے رس سے سیرپ کی پیداوار کرنا اور اس سے ایتھنول کی پیداوار کرنا بھی ہے۔

جناب گڈکری نے کہا کہ ہر فیکٹری کو بی شیرہ کا استعمال کرنا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ ہم دسمبر 2023 کے بعد چینی کی برآمداتی سبسڈی بند کردیں گے۔ اس لئے ہر مل کو بی شیرے کا استعمال کرنا چاہئے۔ چینی کی پیداوار کی حوصلہ شکنی سے ہمیں چینی کی مناسب قیمت مل سکے گی۔ حکومت نے بی شیرہ کے لئے 245 کروڑ لیٹر ریزرو کیا تھا۔ حالانکہ محض 55 کروڑ لیٹر یا 22 فیصد کی سپلائی کی گئی ہے، جس سے ایک اہم فرق کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لئے یہ ایک محفوظ طریقہ ہے جس سے چینی ملوں کو بھی بچایا جاسکتا ہے اور ایتھنول کے سبب ہماری معیشت بھی بہتر ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ بی- بھاری شیرہ کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے اور صنعت کو سوکھے چاول سے بھی ایتھنول بنانے کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔

جناب گڈکری نے بتایا کہ سڑک کی تعمیر میں لگنے والے سامان میں فلیکس انجن کا استعمال بھی ایتھنول کو فروغ دینے کا ایک اور طریقہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ روڈ کنسٹرکشن ایکوائپمنٹ مشینری کی مینوفیکچرنگ میں 80 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ میں نے انھیں ڈیزل انجن کا استعمال بند کرنے اور فلیکس انجن میں منتقل ہونے کے لئے کہا ہے، تاکہ ایتھنول کے استعمال کو فروغ دیا جاسکے۔ جناب گڈکری نے کہا کہ برازیل کے ذریعے ایتھنول سے بایو ڈی گریڈیبل پلاسٹک بھی بنایا گیا ہے جسے بھارت میں بھی دہرایا جاسکتا ہے۔

شہری ہوابازی کے شعبے میں ایتھنول کا زیادہ استعمال ہوگا

جناب گڈکری نے کہا کہ حکومت شہری ہوابازی کے شعبے اور بھارتی فضائیہ میں ایتھنول کے استعمال کو بڑھانے کے طریقوں پر غور کررہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں اس امکان پر بھی غور کررہا ہوں کہ ایوی ایشن انڈسٹری میں ایتھنول کا استعمال کس طرح کیا جائے۔ دو سال قبل یوم جمہوریہ کی پریڈ میں حصہ لینے والے فائٹر جیٹ میں 100 فیصد بایو- ایتھنول کا استعمال کیا تھا۔ میں فضائیہ کے سربراہ اور وزارت دفاع کے افسران کے ساتھ بات چیت کررہا ہوں، ہم سوچ رہے ہیں کہ شہری ہوابازی اور بھارتی فضائیہ میں ایتھنول کا استعمال کیسے بڑھایا جائے۔ جناب گڈکری نے کہا کہ ہم چار لاکھ ٹیلی کام موبائل ٹاوروں میں ایتھنول کے استعمال پر بھی غور کرسکتے ہیں۔

ایتھنول: ایک برآمدات – متبادل، سستا، آلودگی سے پاک اور دیسی حل

جناب گڈکری نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت میں چینی کی صنعت کے لئے چینی کی کھپت کو کم کرنے اور چینی کو ایتھنول میں بدلنے کے علاوہ کوئی تدبیر نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس سمت میں تیزی سے آگے بڑھنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں سبز انقلاب کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے ہمیں ایتھنول کی پیداوار بڑھانی ہوگی۔ جناب گڈکری نے کہا کہ ہمارے ملک میں پٹرولیم کی کل درآمدات فی الحال 8 لاکھ کروڑ روپئے کا ہے، جس کے آئندہ پانچ برسوں میں 25 لاکھ کروڑ روپئے ہوجانے کا امکان ہے۔ اب 25 لاکھ کروڑ روپئے کی پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کرنے سے اقتصادی دشواری پیدا ہوگی۔  اس کے علاوہ اتنی زیادہ مقدار میں فوسل فیول کے آنے کے سبب نئے مسائل پیدا ہوں گے، لہٰذا جناب گڈکری نے درآمدات – متبادل، سستی، آلودگی سے پاک اور دیسی حل کو اپنانے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے ایتھنول اور سبز ایندھن کے استعمال پر زور دیا۔

بھارت کو توانائی کی برآمدات کرنے والا ملک بننے کی ضرورت، کسان کو بجلی سپلائر بننا چاہئے

جناب گڈکری نے واضح الفاظ میں سبز ایندھن کی جانب منتقل ہونے اور زراعت کے لئے توانائی اور بجلی کے شعبے میں تنوع لانے کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ایتھنول، میتھنول، بایوایتھنول، بایو سی این جی، بایو ڈیزل، بایو ایل این جی، گرین ہائیڈروجن اور الیکٹرک میں ہی اب مستقبل مضمر ہے۔ توانائی کی درآمدات کرنے والا ملک ہونے کی بجائے ہمیں توانائی کی برآمدات کرنے والا ملک بننے کی ضرورت ہے۔ ہمیں صرف اناج سپلائر نہیں بلکہ کسانوں کو بجلی سپلائر بنانے کی ضرورت ہے۔ چونکہ اناج سرپلس اور بجلی کم ہے۔ توانائی اور بجلی کے شعبے کی سمت میں زراعت کا تنوع وقت کی ضرورت ہے۔ اگر چینی ملیں بھی اس پر سنجیدگی سے غور کریں تو یہ منتقلی جلد ہوسکے گی۔

انھوں نے کہا کہ عالمی معیشت میں موجود طاقتوں کو دیکھتے ہوئے کسانوں کو اپنے پیداوار کا منصوبہ بنانا ہوگا۔ اسے دیکھتے ہوئے ہم سبھی کو اپنی پالیسیاں طے کرنی ہوں گی۔ انھوں نے کہا کہ علم کو دولت میں بدلنے میں ہی ملک کا مستقبل ہے۔ یہ معقول قیادت کا ویژن ہے جو کچرے کو دولت میں تبدیل کرسکتی ہے۔ لہٰذا بایو ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں بایو ماس پیدا کرنے اور بایو فیول میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے – چاہے وہ بایو سی این جی ہو، بایو ایل این جی ہو یا بایو ایتھنول ہو۔ یہ صوتی، فضائی اور آبی آلودگی میں کمی لانے کے لئے ضروری ہے۔ جناب گڈکری نے کہا کہ متھرا کے کیچڑ کو پانی میں بدلنا اس کی ایک مثال ہے۔

انھوں نے الیکٹرک کاروں کی اہمیت اور انھیں تیزی سے اپنائے جانے اور درآمدات کو کم کرنے میں ان کے رول کو اجاگر کیا۔ جناب گڈکری نے کہا کہ الیکٹرک کاروں کو اس حد تک پیش کیا جارہا ہے کہ میں نے اعلان کیا ہے کہ ایک ڈیڑھ سال میں الیکٹرک کاریں پٹرول سے چلنے والی کاروں کے مساوی قیمت پر دستیاب ہوں گی۔

’’ایل این جی ملک کے لئے مستقبل کا ایندھن ہے‘‘

جناب گڈکری نے کہا کہ ایل این جی اس سیکٹر اور ملک کے لئے مستقبل کا ایندھن ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایل این جی کی معیشت بہت آسان ہے۔ بایو ماس ہو، بایو سی این جی اور بایو ایل این جی میں تبدیل کرنا بہت آسان ہے۔ ہم پائپ لائن کے ذریعے سی این جی کی سپلائی کا منصوبہ لے کر آئے ہیں۔ سبھی جگہوں پر سی این جی پمپ کھولے جارہے ہیں، ایل این جی بھی دستیاب ہورہی ہے، اس لئے ہم ایک گیس پر مبنی معیشت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے حکومت کی ترجیح پٹرول اور ڈیزل کی جگہ سی این جی اور ایل این جی ہے۔ آنے والے وقت میں بایو ماس اور بایو سی این جی کے لئے بایو ماس کا استعمال بہت نتیجہ خیز ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ بانس سے بھی بایو ایتھنول بنایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں بنجر زمین کے بانس کا استعمال کرنا ایک موقع ہے۔ اس کا استعمال سفید کوئلے کی شکل میں کیا جاسکتا ہے۔ اس سے کوئلے کی درآمدات کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

جناب گڈکری نے کہا کہ صنعتوں کو بھی گرین ہائیڈروجن کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ وہ دن دور نہیں کہ گرین ہائیڈروجن دستیاب ہوگی۔  میونسپل کارپوریشن کے کچرے سے الگ کئے گئے آرگینک ویسٹ سے میتھین کی پیداوار کی جاسکتی ہے۔ جب کاربن ڈائی آکسائیڈ اس سے الگ ہوجاتا ہے تو گرین ہائیڈروجن، بایو ایل این جی اور بایو سی این جی کی سیدھی پیداوار کی جاسکتی ہے۔

جناب گڈکری نے کہا کہ سیویج کے پانی سے بھی گرین ہائیڈروجن کی پیداوار کی جاسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میونسپل ٹاؤن اور کارپوریشنوں میں سیویج کا پانی آسانی سے دستیاب ہے۔ الیکٹرولائزر تیار کئے گئے ہیں جس سے سیویج کے پانی کا استعمال گرین ہائیڈروجن کے پیداوار کے لئے کیا جاسکتا ہے۔

وزیر موصوف کی تقریر دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں:

https://www.youtube.com/watch?v=zwlnOaafoNo

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More